صحبت نمبر9
ؒمولانا عمر پالنپوری
مولانا الیاس ؒ نے جب دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا تو رو رو کر اللہ سے دعائیں مانگی کہ اے اللہ اہل علم حضرات کا دل اس طرف مائل فرما دے۔آپ بذات خود علماء کے پاس جاکر حاضری دیتے تھے۔ اور ان کو نہایت ہی حکیمانہ انداز سے اس طرف متوجہ کرتے تھے۔مولانا بذات خود ایک بہت بڑے عالم تھے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ ایک ایسا علم عطا کیا تھا جس کو علم لدنی کہا جاتا ہے اور اس علم کا ثبوت ہمیں قرآن مجید سے ملتا ہے چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ کہف میں آیت نمبر 65 میں فرماتا ہے”وعلمناہ من لدنا علما“(ترجمہ) اور ہم نے ان کو اپنے پاس سے (ایک خاص طور کا)علم سکھلایا تھا (ترجمہ از بیان القرآن) اس آیت میں خضر کی طرف اشارہ ہے۔اور اس میں لفظ ”من لدنا“ آیا ہے یعنی اپنے پاس سے لہٰذٓ اس علم کو جو اللہ خاص . طور سے اپنے کسی بندے کو عطا فرمائے اسی قرآنی لفظ کی مناسبت سے علم لدنی کہلاتاہے۔مولانا اسی علم کی طرف اپنی مشہور کتاب مثنوی شریف میں اشارہ فرماتے ہیں
آئینہئ دل چوں شوی صافی و پاک
نقشہا بینی بروں از آب و خاک
بینی اندر خود علوم انبیاء
بے کتاب و بے معید و اوستا
(ترجمہ)جب تیرے دل کا آئینہ صاف و پاک ہوجائے گا۔ تو بندہ مومن تو اپنے اندر ایسے علمی نقوش دیکھے گا جو آب و خاک کے نقوش سے بے نیاز و بالاتر ہونگے۔ تو اپنے اندر انبیاء کے علوم دیکھے گا بغیر کتاب کے بغیر ساتھی کے بغیر استاد کے۔
اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ایک بندہ وحی الٰہی کے علم سے بے نیاز ہوجائے گا۔جو علم اللہ کی نازل کردہ وحی سے ٹکرائے گا۔وہ ناقابل قبول ہوگا۔البتہ ایسی علمی باتیں جو عین وحی الٰہی کے مطابق خدا کے دین کو سمجھنے میں معاون ہوں گی علم لدنی ہی کہلائی جائیں گی۔کیونکہ ہمیں یہ دعا مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔جس کا منظوم ترجمہ مناجات مقبول میں اسطرح کیا گیا ہے :
دل ہمارے اور ہمارے کل بدن
سب تیرے ہاتھوں میں ہے اے ذو المنن
ہم کو ان میں سے کسی اک چیز کا
اے خدا مالک نہیں تو نے کیا
پس ہمارا تو یارب ہو ولی
کر ہدایت ہم کو سیدھی راہ کی
اس دعا سے یہ بات واضح طریقے سے سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کو ارادے کی آزادی دینے کے باوجود اللہ اپنے بندوں سے لاتعلق نہیں ہوا ہے۔یہ تھوڑی سی تشریح کرنے کا مقصد اس بات کی وضاحت کرنا ہے کہ مولانا الیاس ؒ کو رب العزت نے وہبی علم سے نوازا تھا اور اس کا ظاہری سببان کا وہ مجاہدہ ہے جو وہ دن رات کرتے تھے۔اور اسی مجاھدے کی برکت سے خدا کے لاکھوں بندے ہدایت کے راستے پر گامزن ہوگئے۔مولانامنظور احمد نعمانی ؒ فرماتے ہیں کہ مولانا انور شاہ کشمیریؒ سے تکمیل علوم کے بعد ہماری نگاہوں میں کوئی نہیں جچتا تھا لیکن مولانا الیاسؒ کے پاس پہنچ کر جو باتیں ہم نے سنی اس سے یقین ہوگیا کہ یہ کتابی نہیں بلکہ الہامی ہیں۔ ان ہی دلکش باتوں سے مولانا الیاس ؒ نے بہت سارے علماء کرام کے دلوں کو موہ لیا اور وہ دعوت کی اس محنت میں دل و جان سے لگ گئے۔یہی معاملہ اللہ نے ان کے نیک دل فرزند مولانا یوسف کے ساتھ کیا تھا جن کی کشش کی وجہ سے بہت سارے علماء پروانوں کے مانند ان کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ان ہی پروانوں میں ایک پروانہ مولانا عمر صاحب پالن پوری ؒ تھا جنہوں نے درجنوں سال بنگلہ والی مسجد بستی نظام الدین دہلی میں اپنے مال و جان کے ساتھ وقف کیے اور اسی مرکز کے تقاضوں پر پورے عالم میں گھومے۔آپ نے پچپن سال کی عمر میں پورا قرآن مجید حفظ کیا۔ اپنے ارد گرد نو عمر حفاظ سے فرماتے تھے کہ تم تو بچپن کے حافظ ہو اور میں پچپن کا حافظ ہوں آپ مکمل عالم دین تھے۔ لیکن آپ کا امتیازی وصف وہ جذبہ دروں تھا جس نے آپ کی پوری زندگی دعوت و تبلیغ کے لیے وقف کری۔ اپنے دور کے مختلف علماء کرام کی کتابیں تو میں بچپن سے پڑھتا تھا لیکن دینی دعوتی محنت کرنے کے لیے جو تشریح مولانا عمر صاحب ؒ آیات قرآنی کی روشنی میں فرماتے تھے واقعی وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ ان کا ایک امتیازی یہ تھا کہ وہ مختلف مکاتب فکر کو جوڑنا جانتے تھے۔ان کی تعلیم بھی کہ کسی کو برے القاب سے مت پکارو۔چنانچہ وہ فرماتے تھے کہ ہر بریلوی حضرات کو ”بدعتی“ مت کہو بلکہ”محبتی‘‘ کہو۔ویوبندی حضرات کو ”وہابی“ مت کہو بلکہ ”سنتی“ یعنی سنت پر عمل کرنے والے کہو۔ اور خود کو تبلیغی کہو۔اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ اس اللہ کے محبوب بندے کے دل میں شفقت و محبت کا کیسا موجیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ جس وقت وہ دینی محنت کو آیات قرآنی کی روشنی میں بیان فرماتے تھے ہر درد مند دل رکھنے والا انسان جانتا تھا کہ کاش مجھے پر آجائیں تو اڑ کر ملکوں ملکوں میں گھوم کر اللہ کے بندوں تک اللہ کا دین پہنچاتا۔ایک دفعہ ایک غیر ملکی نو مسلم نے روتے ہوئے مولانا سے کہا کہ مولانا آپ نے اتنی دیر کیوں کی اور یہ دعوت لیکر میرے ابا کے پاس کیوں نہ پہنچے جو اس وقت جہنم میں جلتا ہوگا۔مولانا خود بھی روئے اور مجمع کو بھی رلا دیا مولانا جس وقت اکرام مسلم کی وضاحت فرماتے تو ہر مالدار اپنے آپ کو مجرم تصور کرتا تھا کہ واقعی یہ مال اللہ نے ہم کو آزمانے کے لیے دیا ہے اور خدا کے بندوں پر خرچ نہ کرکے ہم اپنے اوپر بھی ظلم کر رہے ہیں اور دیگر محتاج بندگان خدا پر بھی ظلم کر رہے ہیں اس بندہ ناچیز کی زندگی بدلنے میں مولانا کا خاص رول ہے۔وہ ایک درد دل رکھنے والا انسان تھا۔وہ چیخیں مار مار کر خود بھی روتا اورتڑپتا تھا اور اپنے سامعین کو بھی رلاتا اور تڑپاتا تھا۔بے اختیار زبان سے نکلتا تھا کہ:
الٰہی کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں
وہ نصرت الٰہی کی ایسی دل نشین تشریح فرماتے تھے جوضعیفوں کو قوت،غریبوں کو غنٰی،فقیروں کو سیر اور ناداروں کو پر عطا کرتی تھی۔ وہ خدا کے خزانوں سے لینے کا طریقہ سکھاتے تھے۔ وہ خدا کے سامنے گڑ گڑانے کا انداز سکھاتے تھے۔ میر اقلم لرزتا ہے کہ ان کی فقیرانہ شان کیسے بیان کرے۔ایک دفعہ میں نے کچھ کشمیری سیب ان کی خدمت میں بطور ھدیہ کے پیش کیے،فرمایا بیٹے کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ یہ پیسے دعوت کے راستے میں اپنے اوپر خرچ کرتے۔ایک اور دفعہ فرمایا جب جماعت ہماری بستی میں پہنچی اور میں گھر سے باہر تھا تو میرے بیٹے کی تشکیل کی جن کے پاس صرف پانچ روپے تھے وہ تو دعوتی ماحول اور مزاج ہونے کی وجہ سے راہ خدا میں نکلنے سے انکار بھی نہیں کرسکا۔اور جب بسترہ لاکر جماعت کے ساتھ نکلا تو مشورہ کے وقت چھپ گیا کیونکہ کرایہ اور زر طعام جمع کروانے کے سلسلے میں اس کے پاس پیسے نہیں تھے جماعت والے پریشان ہوگئے کہ ایک آدمی کہاں چلاگیا اور مشورے میں کیوں نہ بیٹھا۔معلوم ہوا کہ ان کے پاس کوئی زاد سفر نہیں ہے اور وہ اسی لیے چھپ چھپائے رہتا ہے۔جماعت والوں پر رقت طاری ہو گئی۔مولانا نے فرمایا کہ اللہ نے اس جماعت کے ساتھ اپنی نصرت کا ایسا معاملہ فرمایا کہ تمام سفر میں اس جماعت کی دعوتیں ہی ہوتی رہیں یہاں تک کہ وہ پانچ روپے بھی اس صابر و شاکر فرزند کے جیب میں ہی پڑی رہیں۔آپ نے اپنے دعوتی زندگی کازیادہ زمانہ مولانا انعام الحسن ؒ کی امارت میں ہی گذارا۔ان کو آپ کے ساتھ ایسی محبت تھی۔ایک دفعہ عربوں میں بیان کرنا تھا۔مولانا انعام صاحب نے عربوں کو فرمایا ”ھٰذا شیخ عمر و ھو لسان الدعوۃ“ یہ شیخ عمر ہے اور وہ دعوت تبلیغ کی زبان ہے۔آپ کشمیر کے عید گاہ سرینگر کے اجتماع میں بھی حضرت جی مولانا انعام الحسن کے ساتھ تشریف لائے تھے۔اے خدا ان دونوں بزرگوں کی قبروں کو نور سے بھر دے۔آمین
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
نوٹ: اس سلسلے کی کسی کڑی کو پڑھنا نہ بھولیے کیونکہ علماء کی صحبتوں کو قلمبند کرنے کا یہ سلسلہ اس پیج پر فی الحال جاری رہے گا
(یار زندہ صحبت باقی)
Views : 857