مرحوم الحاج غلام رسول ڈار صاحب سوپور
الحاج غلام رسول ڈار صاحب رحمہ اللہ سوپور کے اولین دعوتی کارکنوں میں سے ایک پرجوش دعوتی حیثیت کے ذمہ داروں میں سے تھے۔مجھے یاد ہے کہ بونیار کے تاریخی اجتماع میں مشورے سے ان کا بیان طے ہواتھا ۔مورحوم کا بیان کیا تھا موتیوں کا ایک گلدستہ ۔ یہ وہی اجتماع ہے جو موضع فتحگڈھ کے بنیادی اور تاریخی اجتماع کے بعد تقریبا 1972 عیسوی میں منعقد ہوا تھا جس کے گہرے اثرات پوری وادی کے چپے چپے پر مرتب ہوئے اور خاص مہمانوں میں منشی اللہ دتا صاحب رحمہ اللہ کے خاص خلیفہ حافظ محمد یوسف ٹانڈوی صاحب رحمہ اللہ تھے ۔انہوں نے ہی مرحوم ڈار صاحب کو دعوت کی طرف کھینچ کر لانے میں اپنا کلیدی رول ادا کیا تھا اور مرحوم ڈار صاحب بھی ان کے بڑے قدر دان اور ایک سچے پکے مرید سے کم نہیں تھے ۔ وہ(حافظ صاحب) ایک فصیح اللسان اور پر وقار شخصیت کے مالک تھے ۔اور دنیا دار طبقے کے لوگوں کو کام کے ساتھ جوڑنے کا زبردست سلیقہ رکھتے تھے ۔ کیونکہ جس وقت مرحوم ڈار صاحب دعوت کے ساتھ جڑ گئے وہ اس وقت کشمیر کے بڑے ٹھیکہ داروں میں سے ایک بڑے ٹھیکہ دار تھے جن کو اللہ تعالی نے کافی مالی وسعت سے نوازا تھا اور دعوت کے ساتھ جڑنےکے بعد ان کی جائداد کا صحیح اور مخلصانہ مصرف ہوا ۔ اور دیگر لوگوں کے لیے ایک مثال قائم ہوئی اور ان کا بھی دعوتی تحریک کے ساتھ جڑنا ممکن ہو پایا ۔ در اصل کشمیر کی تین بڑی شخصیتیں جنہوں نے اپنے مال و جان کو راہ خدا میں جھونک دیا ان میں مرحوم ڈار صاحب پہلے مخلص کارکن تھے اور ان کے بعد مرحوم محمد مقبول مہجو صاحب اور مرحوم حاجی عبد السبحان لون صاحب بونیاری بھی بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں ۔ اللہ تعالی کا بڑا فضل تھا کہ ان لوگوں کو اللہ تعالی نے دعوتی میدان کے صف اول میں قبول فرمایا ۔آج جو ہم دعوتی بہار کا مشاہدہ کر رہے ہیں اس میں ان حضرات کا بنیادی کردار اور اثر رہا ہے اور قیامت تک رہے گا ۔
موصوف کا مرحوم کے ساتھ گہرا تعلق تھا چونکہ وہ بہت بڑے بزرگ تھے اور میں اس زمانے میں بہت کم عمر تھا اس لیے وہ کم عمروں کی بڑی قدر کرتے تھےاور مشورے میں ہمیشہ ہماری رائے کے ساتھ اپنے رائے کو جوڑتے تھے جس میں صرف نوجوانوں کی حوصلہ افزائی مقصود ہوتی تھی۔البتہ آپ کی باتوں میں بڑا رس ہوتا تھا کیونکہ آپ نے بہت سے ذاتی جذبات کو قربان کر کے راہ حق کا دامن پکڑا تھا اور تا زیست اسی پر کا بند رہے ۔ اپنے بچوں اور مستورات کو بھی دین کی زبردست فہمائش کرتے تھے اور دین داروں کی بڑی قدر افزائی کرتے تھے ۔کاش ہمارے مال دار لوگ اسی سیرت کو اپنائیں تو راہ حق میں کشادگی کے نہ معلوم کتنے اور دروازے کھلیں گے اور اس طرح مالداروں کی مالداری ان کے جنتی بننے میں ممد و معاون بنے گی ۔ اور غریبوں کا عزم اور بے نیازی ان کے جنت میں پہنچنے کا ذریعہ بنے گی ۔ یہی حضرات صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کا طریقہ تھا ۔جس کے لیے آج زمانہ بڑی بے صبری کے ساتھ انتظار میں ہے اور دعوت کی محنت بھی اسی چیز کی تقاضا کر رہی ہے ۔
اسی طرح دعوت و تبلیغ کے ابتدائی دور میں جن بزرگوں کے دل میں اللہ تعالی نے اس بات کا داعیہ پیدا کیا کہ کشمیر میں بھی ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرح مدارس اسلامیہ کا نیٹ ورک قائم ہونا چاہیے اس تحریک کے بانیوں میں سے ایک سرخیل نام مرحوم حاجی ڈار صاحب کا ہے ۔جنہوں نے سوپور میں دارالعلوم کے لیے اپنی ذاتی زمین وقف کی اور پھر خدا نے انہیں ایک مضبوط عزم کا ساتھی مولانا بشیر احمد قاسمی مد ظلہ العالی کی شکل میں عطا فرمایا،جنہوں نے مشاہرہ ہی کو مقصد بنا کر اس دار العلوم کی تعمیر میں سرگرمی نہیں دکھائی بلکہ ایک رضا کار کارکن کی حیثیت سے روز اول سے ہی اپنے آپ کو وقف کیا۔ موصوف نے نہ دن کو دن سمجھا اور نہ رات کو رات، غرض دن رات جان جوکھوں میں ڈال کر سوپور میں اس مشہور دار العلوم کی بنیاد رکھی جو تقریبا کشمیر کی مدرسی تحریک کا دندی پورہ اسلام آباد کے بعد دوسرا دار العلوم تھااور تا حال ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے ۔ تھوڑے ہی وقفہ کے بعد اللہ نے ان کو مولانا مفتی مظفر حسین قاسمی مد ظلہ العالی کی شکل میں ایک مخلص اور وفا شعار ساتھی نصیب فرمایا جنہوں نے مدرسے کو علمی اعتبار سے چار چاند لگانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی اور اب تک مستقل مزاجی کے ساتھ اس ادارہ میں اپنے فرائض انجام دینے میں مصروف کار ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ کشمیر کی علمی فضا میں ان کا نام اوج افق پر ہے ۔ انہوں نے اہل سنت و الجماعت کی ترجمانی میں چند اہم تصانیف بھی مرتب فرمائی اور علمی اعتبار سے دعوت و تبلیغ کا دفاع کرتے رہے ۔ اور ایک معتدل مزاج کا اپنے آپ کو پابند بنایا ۔ تبلیغ کی موجودہ باہمی شکر رنجی میں آپ دل سے ساتھ یہ چاہتے تھے کہ تبلیغ کے اندر ساتھیوں میں کوئی باہمی اختلاف نہ رہے ۔ آپ کا محبوب نعرہ یہ تھا جو اب زبان زد عام ہوا ہے کہ "ہم سب کے اور سب ہمارے" ۔موصوف اسی وسعت نظر کی تمام ساتھیوں کو نصیحت اور وصیت فرماتے تھے ۔اس کا ایک خاص اثر یہاں کی دعوتی فضا پر یہ پڑا کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے میں فراخ دلی سے کام لینے لگے ۔ اور صبر و تحمل کا پیمانہ بڑھنے لگا ۔ آپ کشمیر کے مشہور مخدومی خاندان کے ساتھ نسبی تعلق رکھتے ہیں اور تحدیث بالنعمہ کے طوراپنے آپ کو مخدومی کہتے اور لکھتے بھی ہیں ۔ اس کا بھی کشمیر کی روایتی سوچ پر ایک مثبت اثر پڑا اور خواہ مخواہ کی بیر رکھنے والوں کو ایک دندان شکن جواب مل گیا کہ واقعی علمائے دیوبند اپنے اولیاء کرام اور بزرگان دین کے دل سے معترف اور محب ہیں ۔ اللہ اس نہج کو محفوظ رکھے اور اس میں روز افزوں اضافہ فرمائے۔
ان سب لوگوں کا دار العلوم کے اندر جمع ہو جانا اور دینی محنت کو اخلاص اور استخلاص کے ساتھ کرنا مرحوم ڈار صاحب کے کھاتے میں جاتا ہے جنہوں نے اپنے خون جگر سے اس پودے کو سینچا اور سوپور جیسے مشہور اور مصروف قصبے میں ایک ایسے دار العلوم کی بنیاد رکھی جس نے سوپور کے ہر گھر پر مثبت انداز میں اپنے کچھ نہ کچھ اثرات مترتب کیے ۔
اللہ تعالی مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کی جمیع تبلیغی مساعی اور تدریسی تحریک میں اپنا بنیادی حصہ ڈالنے کو قبول فرمائے ۔آمین
Views : 370
odessa forum
I read this paragraph completely regarding the resemblance of most up-to-date and earlier technologies, it's remarkable article. https://Odessaforum.Biz.ua/
2024-07-22 21:59:55