*مولانا محمد رحمت اللہ میر قاسمی دامت فیوضھم*
(ناظم اعلی و مہتمم دار العلوم رحیمیہ بانڈی پورہ )
حضرت منشی اللہ دتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جب کشمیر میں دعوت و تبلیغ کا ڈھانچہ کھڑا کیا اور تبلیغی جماعت کی وساطت سے جب ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے سفراء حضرات چندہ وغیرہ کے لیے یہاں تشریف لانے لگے تو ان میں ایک یادگار شخصیت حضرت ملا اصغر صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ بھی تھے جو سفیر کم بلکہ ایک صوفی منش بزرگ تھے ان کی کوششوں سے اور تبلیغی محنت کے اثرات سے کشمیر کے ذہین طالب علموں کی ایک کھیپ باہر بغرض حصول علم دین چلے گئے۔ ان طلباء عزیز میں ایک سرخیل اور ہونہار طالب علم مولانا رحمت اللہ صاحب مد ظلہ العالی بھی تھے جو ایک شریف باپ کے بیٹے تھے موصوف کے والد گرامی کا تعلق بارہمولہ کے ایک اندرابی گھرانے کے ساتھ تھا جن کے خاندان میں علم و ادب کا بڑا چلن تھا ۔کسی طرح مولانا کا تعلق محترم امیر صاحب کے ساتھ ہوگیا اور ان کی نظر شفقت موصوف پر پڑی جنہوں نے باہر علم دین کے سلسلے میں داخلہ لیا تھا اور ترقی کرتے کرتے دار العلوم قدیم میں اپنی دینی تعلیم کے آخری درجات طے کرنے میں مصروف عمل تھے ۔
یہ تقریبا 1974 عیسوی کا واقعہ ہے اور ہمیں جماعت میں باہر نکلنے کے لیے بارہمولہ مرکز سے تشکیل ہوئی ۔امیر صاحب بھی ہم سفر تھے ۔مرکز نظام الدین میں ہمارا رخ نظام الدین سے میرٹھ ،مظفر نگر ،دیوبند اور پھر سہارنپور کی طرف جانے کے لیے بنایا گیا ۔ جب ہم میرٹھ پہنچے تو عیسوی سنہ ماہ دسمبر ختم ہونے کو قریب تھا اور محترم امیر صاحب اکیلے دیوبند گئے تھے۔ہم ابھی میرٹھ میں ہی تھے امیر صاحب واپس کشمیر آنے کے لیے دیوبند سے میرٹھ واپس تشریف لائے ۔در اصل ان کو معلوم تھا کہ ہماری ایک جماعت میرٹھ میں کام کر رہی ہے اور اس کے ذمہ دار مرحوم محمد حسین سنگری بارہمولہ والے تھے ۔ان کی طبیعت بھی ناساز ہوگئی اور وہ سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کی حالت میں نہیں تھے ۔شاید انہوں نے ٹیلیفون پر امیر صاحب کو بتایا تھا لہذا امیر صاحب میرٹھ سے ہوتے ہوئے مرحوم محمد حسین کو اپنے ساتھ واپس لانے کے لیے میرٹھ پہنچے بعد میں دونوں حضرات واپس تشریف لائے اور احقر کو جماعت سنبھالنے کی ذمہ داری سپرد کی ۔ ہم پروگرام کے مطابق میرٹھ سے مظفر نگر کے تبلیغی مرکز پر پہنچے جہاں حضرت مولانا موسی صاحب ایک دعوتی مرکز کے امیر تھے انہوں نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور چند دن مظفر نگر میں پہنچنے کے بعد ہمیں دیوبند کی طرف روانہ کیا ،جہاں ہم اس مدرسے میں پہنچائے گئے جہاں دیوبند کے امیر تبلیغ حضرت مولانا اصغر صاحب ذمہ دار تھے ۔ وہ ایک اونچے پائے کے صوفی منش بزرگ تھے اور اصغریہ کے قریب ایک مسجد تھی اور وہی دیوبند کا تبلیغی مرکز تھا۔ ہم نے وہاں پر تین دن گزارے ابھی دیوبند دو حصوں یعنی قدیم اور وقف میں منقسم نہیں ہوا تھا ۔ہماری اس مرکز میں خوب آؤ بھگت کی گئی اور بندہ ناچیز مولانا انظر شاہ صاحب کے در دولت پر بھی حاضر ہوا اور مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے دفتر احتمام پر بھی حاضری دی جہاں بحیثیت ایڈیٹر ماہنامہ دار العلوم دیوبند مولانا اظہر شاہ قیصر صاحب موجود تھے ۔کشمیری جماعت کی آمد پر انہوں نے اپنی خوشی کا ز بردست اظہار کیا اور ہماری خاطر مدارات میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور نصیحت کی کہ آپ لوگ عمومی کشمیری مزاج سے ذرا ہٹ کر کام کریں اور کشمیر میں مدارس کا قیام عمل میں لائیں ۔ ہم نے اپنے بھر پور تعاون دینے کا عزم ظاہر کیا لیکن مولانا انظر شاہ صاحب نے مجھ ناچیز کو تاکیدا فرمایا کہ دیوبند میں فلاں حال میں میرا درس ہوتا ہے آپ اس درس میں ضرور شریک ہو جائیں ۔اللہ کا شکر ہے کہ دعوت و تبلیغ کے اس سفر کی برکت سے مجھے مولانا کے درس میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ۔درس کیا ہوتا تھا؟ ہیرے جواہرات بکھیرے جاتے تھے اور طلباء ان کو اپنے دامن میں سمیٹتے تھے ۔ یہ میری زندگی کا ایک قیمتی موقعہ تھا کہ اظہر ہند کی اس دانش گاہ کے عظیم محدث عصر کی صحبت میں درس میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ یہ اللہ کا بہت بڑا فضل تھا اور مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ اس دانش گاہ میں علم ،ادب ،تصوف کے کیسے کیسے شاہسواروں کو اللہ نے خدمت دین کے لیے قبول فرمایا ہے ۔ اس کے بعد مولانا مرغوب الرحمان صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی زیارت اور مختصر سی صحبت بھی نصیب ہوئی جو ایک بے نظیر شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے ہمیں خوب شاباشی دی اور نہایت ہی شفقت کے ساتھ الوداع کیا ۔ اس کے بعد ہم دار العلوم قدیم کے تمام کمروں میں گھومے اور امام العصر حضرت مولانا انور شاہ صاحب کے اس بابرکت درسی مقام تک بھی رسائی ہوئی جہاں تاریخ اسلام کے اس پانچ سو سالہ محدث بے نظیر کے درس ہوا کرتے تھے ۔ اوربر صغیر ایشیاء کے کونے کونے سے تشنگان علم اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے حاضر ہوتے تھے ۔ اور بالفعل ان کی علمی پیاس بجھ بھی جاتی تھی ۔ یہاں پر احقر پر ایک رقعت طاری ہوگئ کہ ہم کشمیریوں نے اس شمس العلماء کی قدر نہ پہچانی اور انہیں کشمیر سے دل برداشتہ ہوکر ہجرت کرنی پڑی اور جناب حضرت مولانا محمود الحسن صاحب رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے انہیں دیوبند میں بحیثیت استاد متعین کیا ۔
بہر کیف ۔ اس کے بعد ہم حسب ہدایت کشمیری طلباء سے ملنے کے لیے گئے اور کشمیری طلباء میں ہمارے سب سے زیادہ جانے پہچانے طالب علم مولانا رحمت اللہ صاحب تھے ۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ مولانا رحمت اللہ صاحب اس وقت طالب علموں کے ایک علمی مناظرہ میں شرکت کرنے کے لیے گئے ہیں ۔ اگر چہ اس وقت مولانا رحمت اللہ صاحب کے ساتھ ملاقات نہ ہوپائی لیکن دوسرے دن ایک معصوم طالب علم ہمارے پاس دیوبند کی جامع مسجد میں تشریف لائے اور ہمارے تعلیمی حلقہ میں نہایت ہی مودب بن کر بیٹھے۔پوچھنےپر معلوم ہوا کہ یہ طالب علم صوبہ جموں کے کشتواڑ کے رہنے والے ہیں اور ان کا نام نزیر احمد یے۔ در اصل یہ وہی صاحب تھے جو اس وقت دارا لعلوم رحیمیہ میں شیخ الحدیث اور صدر مفتی کے فرائض انجام دے رہے ہیں یعنی مفتی نذیر احمد قاسمی صاحب ۔ اس بات کی تائید مفتی صاحب دامت فیوضھم نے اس وقت فرمائی جب وہ ہمارے غریب خانے پر ایک دفعہ تشریف لائے اور فرمایا کہ وہ طالب علم میں ہی تھا ۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قدیم دعوتی حضرات اور طالبان علم کے درمیان کیسے مشفقانہ روابط تھے ۔ فرمایا مجھے ابھی یاد ہے کہ آپ کا کس طرح ساتھیوں کو دوران تعلیم مذاکرہ کرا رہے تھے ۔اور مجھے آپ کا وہ انداز ابھی تک ذہن پر نقش ہے ۔ اور آپ کے تعلیمی حلقوں میں شریک رہا ۔ در اصل ہمیں مرکز بارہمولہ سے اس بات کی تاکید کی جاتی تھی کہ وادی سے دور ان طالب علموں کی خبر گیری میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جائے۔ اللہ تعالی آنے والے۔ دنوں میں بھی ہمارے تبلیغی ساتھیوں اور طالبان علم کے درمیان ایسے ہی روابط و مراسم جاری رکھنے کا جذبہ ودیعت فرمائے ۔
در اصل جب مولانا رحمت اللہ صاحب دیوبند سے واپس آئے اور بانڈی پورہ میں دار العلوم کی سنگ بنیاد رکھی ایک طرف سے مدرسہ چلا رہے تھے اور دوسری طرف دعوت و تبلیغ کی محنت کے لئے انتہائی شفقت فرماتے تھے ۔ پھر اللہ نے کشمیر کے ہونہار طلباء کا رخ اس دار العلوم کی طرف موڈ دیا ۔ جن میں ایک طرف مفتی نزیر احمد قاسمی صاحب اور دوسری طرف مفتی اسحاق نازکی صاحب بھی اسی مدرسے کے ہو کر رہے ۔ ایک طرف مدرسہ دوسری طرف دعوت و تبلیغ کی فکر ان کا موضوع زندگی بن گیا ۔ جو ابھی تک قائم ہے اور خدا اسے آگے بھی قائم رکھے ۔ مدرسہ رحیمیہ نہ صرف دیوبند کی پہچان ہے بلکہ دعوت و تبلیغ کی بھی جان ہے ۔
یہ تینوں حضرات اجتماعی اور فردا فردا کشمیر کے دعوتی مراکز پر ابتدا سے ہی تشریف لاتے رہے اور ایک طرح سے اس محنت کی پہچان بھی بن گئے۔ اور علمی محاذ پر اس محنت کا خاص طور دفاع بھی کرتے رہے ۔ خاص کر مولانا رحمت اللہ صاحب نے تو سرینگر کے عید گاہ والے اجتماع گاہ میں نہایت ہی ذمہ داری کے ساتھ ساری کارگذاری ضبط تحریر میں لائی اور ایک خاص نمبر دعوت تبلیغ کے حوالے سے شائع بھی کیا جو ایک تاریخی دستاویز مرتب بن کر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی ۔ اس کے علاؤہ مولانا رحمت اللہ صاحب نے شیخ الحدیث شیخ زکریا کی کتاب فضائل درود کا کشمیری ترجمہ بھی کیا جس سے کشمیر کے محبتی لوگوں کے تمام اشکالات دور ہوگئے اور ان کے اذہان میں یہ بات بیٹھ گئی کہ کشمیر کے تبلیغی احباب کسی دوسرے محبتی گروہ سے عشق رسول میں کم نہیں ہیں اللہ مولانا کی اس محنت کو قبول فرما کر ان کے لیے ذخیرہ آخرت بنائے۔ مولانا نے ہر طرح سے دعوت و تبلیغ کا دفاع ہی نہیں بلکہ ابلاغ کا کام بھی بخوبی انجام دیا۔
مولانا نے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے طلباء اور نو آموز علماء پر زور دیا کہ وہ اوراد فتحیہ کو حفظ کریں اور اپنا معمول بنائیں ۔ جس سے کشمیر کے عوام کے ذہن میں خواہ مخواہ کی غلط فہمیوں کا دروازہ بند ہوگیا اور کشمیری ذوق کی صحیح ترجمانی ہوگئی ۔اس کے علاؤہ دینی علوم کے علاؤہ آپ نے ایک مدرسہ فیض عام چلایا جہاں ہر عصری تعلیم کا ایک اچھا نظام پایا جاتا ہے ۔مولانا کے فرزند نے مجھے مدرسہ میں مدعو کیا اور وہاں پر مجھ سے مدرسہ کی استانیوں کے سامنے عصری علوم کی تربیت دینے کے متعلق حکم دیا ۔ حضرت مولانا بھی موجود تھے اور پھر میں نے تقریبا تیس چالیس استانیوں میں ایک تربیتی لیکچر دیا ۔ جس کو انہوں نے قلمبند کیا اور مولانا رحمت اللہ صاحب بھی اس وقت مدرسہ میں بہ نفس نفیس تشریف فرما تھے ۔ اور پروگرام کو سراہا کیونکہ احقر ان دنوں سروشکھشا ابھیان ( Surakshit Abhiyan) میں بحیثیت سینئر اسسٹنٹ کورآرڈی نیٹر(Senior Assistant Coordinator) کام کر رہا تھا ۔ اور ان ٹرینڈس(trends) کو بیان کرنے کی شد بد رکھتا تھا اور مولانا بھی چاہتے تھے کہ ہماری استانیاں اور اساتذہ جدید رجحانات سے با خبر ہو جائیں ۔
مزید بر آں تبلیغ کے حوالے سے مولانا طلباء پر زور دیتے تھے کہ وہ ہر ماہ کچھ وقت دعوت میں لگائیں اور انہوں نے بہت سارے طلباء کو وقت بھی لگوائے اور محترم نو الحسن صاحب کے ساتھ معاونت کا انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اور ازخود بھی تبلیغی اسفار میں نکلنے کو ترجیح دیتے تھے ۔
بہرکیف ۔ مولانا ایک طرف تعلیم و تعلم کے داعی اور دوسری طرف دعوت و تبلیغ کے راعی بن کے رہے ۔ اللہ تعالی مولانا کا سایہ اور ان کی شفقتیں ہمارے اوپر تا حین حیات قائم و دائم رکھے ۔آمین
------------- جاری---------------
از *الحاج غلام نبی آسی صاحب*
(سرپرست ادارہ راہ نجات و
مؤسس مجلس علمی جموں و کشمیر)
مرتب : سالک بلال
Views : 353
حمید نسیم رفیع آبادی
بہت اچھی تحریر ہے اور کافی معلومات افزا بھی ان تمام واقعات شخصیات اور اداروں کا تعارف سامنے لانے کے ذریعے سے آپ ایک عظیم فریضہ انجام دے رہے ہیں چونکہ میرا بھی ان شخصیات اداروں اور واقعات کے ساتھ باکواسطہ یا بلا واسطہ تعلق خاطر رہا ہے انشاءاللہ کبھی میں بھی اس بارے میں لکھوں گا فی الحال میرے ذہن میں ایک تجویز ہے کہ محترم امیر حضرت پرویز صاحب چند احباب کو لکھنے کی دعوت دی جائے اور ان کے بعض متعلقین سے انٹرویوز لیے جائیں اور اس طرح اچھا خاصا مواد جمع کیا جاسکتا ہے اور اس طرح موجودہ اسلامی تحریک دعوت و تبلیغ کا بھر پور تعارف سامنے لایا جاسکتا ہے
2024-04-23 03:58:44