Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

التصریح بما تواتر فی نزول المسیح - ایک تعارف قسط دوم


  • ڈاکٹر شکیل شفائی
  • Saturday 6th of January 2024 02:20:11 PM

" التصریح بما تواتر فی نزول المسیح" - ایک تعارف

(قسط - 2)

 

میرے سامنے کتابِ ہذا کا جو نسخہ ہے وہ شركة دار البشائر الإسلامية - بیروت سے شائع شدہ ہے - یہ کتاب کا چھٹا ایڈیشن ہے جو 2005 میں منظر عام پر آیا ہے - پوری کتاب پونے چار سو سے کچھ زائد صفحات پر مشتمل ہے - کتاب کے پہلے صفحہ پر چند قرانی آیات درج ہیں جن سے علمائے اہلسنت والجماعت نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور نزول پر استدلال کیا ہے - اس کی تفصیل آگے آتی ہے - پھر محققِ کتاب کا دوسری اشاعت پر ایک مختصر پیش لفظ ہے- اس کے بعد محققِ کتاب ہی کے قلم سے دو ازحد مفید تحریریں ہیں - پہلی تحریر تقریباً سات صفحات پر مشتمل ہے اور دوسری تحریر ' جو دراصل کتاب کا مقدمہ بھی ہے ' تقریباً تیس صفحات پر مشتمل ہے - ان کی تفصیل بھی آگے آتی ہے - اس کے بعد مفتی اعظم پاکستان (سابقاً) مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ کا ایک نہایت عمدہ اور فاضلانہ مقدمہ ہے جو تقریباً 52 صفحات میں سمٹ آیا ہے - اس کی بھی تفصیل آگے آرہی ہے - کتاب کے آخر میں محققِ کتاب نے تقریباً 75 صفحات پر ایک تفصیلی و تحقیقی اشاریہ شامل کیا ہے - اس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی - اس طرح نفسِ کتاب 211 صفحات کی ضخامت لیے ہوئے ہے - 

کتاب کے پہلے صفحہ پر جو قرآنی آیات درج ہیں ذیل میں ان کے متعلق چند اہم نکات بیان کیے جاتے ہیں - 

پہلی آیت سورہ آل عمران کی 46 ویں آیت ہے - اس میں اللہ تعالیٰ نے ملائکہ اور سیدہ مریم کے مابین ایک مکالمہ نقل کیا ہے - فرشتے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے جو فضائل بیان کرتے ہیں ان میں منجملہ اور فضائل کے یہ بھی شامل ہے: " و يكلّم الناس في المهد و كهلاً و من الصالحين" يعنى وه ( بچہ جس کی بشارت دی جارہی ہے) ماں کی گود ہی میں لوگوں سے کلام کرے گا ( یہ حضرت عیسیٰ کا معجزہ بھی ہے اور ان کی غیر معمولی پیدائش پر شُبہ کا جواب بھی ہے ) اور بڑھاپے میں بھی لوگوں سے کلام کرے گا - یہ آیت صراحتاً بیان کررہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں گے - یہاں اس لفظ کو لانے کا اعجاز ہی یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ گمان نہ کیا جائے کہ ان کو صلیب دی جا چکی ہے یا وہ طبعی موت مرے ہیں - ( اس آیت کے نزول کے وقت عیسائیوں کے محرف عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ کو دنیا سے گیے ہوئے 500 سال سے زائد عرصہ ہو چکا تھا) آیت کہہ رہی ہے وہ زندہ ہیں ' دربارہ واپس آئیں گے ' بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں گے ' لوگوں سے کلام کریں گے - تمام قدیم و جدید نصوص اس پر متفق ہیں کہ ( مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق) آسمان پر اٹھائے جانے ( اور عیسائی عقیدے کے مطابق صلیب دیے جانے) کے وقت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر تیس بتیس سال سے متجاوز نہیں تھی - لغات میں اس کی صراحت آئی ہے کہ " کہل" کا لفظ عمر کے اس حصے پر بولا جاتا ہے جس کو عرف میں بڑھاپا کہتے ہیں جبکہ تیس بتیس سال کی عمر عین شباب کا زمانہ ہوتا ہے

دوسری آیت سورہ مائدہ کی 110ویں آیت ہے - اس میں بھی یہی لفظ وارد ہوا ہے - یہاں یہ لفظ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کےلئے مقامِ مدح میں آیا ہے ظاہر ہے بڑھاپے میں سب ہی بات کرتے ہیں اس میں عیسیٰ علیہ السلام کا کیا امتیاز ہے جب تک اس حقیقت کو مان کر نہ چلیں کہ یہاں نزول کے بعد کا بڑھاپا مراد ہے اور وہ یقیناً ایک نادر واقعہ ہے 

تیسری آیت جس سے حیاتِ عیسیٰ پر استدلال کیا گیا ہے سورہ نساء کی 151 ویں آیت ہے - اس میں کہا گیا ہے کہ تمام اہلِ کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لائیں گے اور وہ روز قیامت ان پر گواہ ہوں گے 

اس آیت سے بایں صورت استدلال کیا گیا ہے کہ آیت میں " ليؤمننّ به قبل موته" کے الفاظ وارد ہوئے ہیں - اس آیت میں دونوں ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں - مطلب یہ کہ اہلِ کتاب ( یعنی یہود) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ضرور بہ ضرور ایمان لائیں گے - اس کو ماضی پر محمول نہیں کیا جا سکتا اول تو اس لیے کہ یہود نے تاہنوز حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں لایا ہے دوم اس لیے کہ آیت میں فعلِ مضارع لام تاکید اور نونِ تاکید کے ساتھ واقع ہوا ہے جو لامحالہ زمانہ استقبال پر دلالت کرتا ہے 

اگر لیؤمنن به میں ضمیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف راجع قرار دی جائے تو آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ اہل کتاب ( یہود و نصاری) عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے پہلے آپ (ص) پر ایمان لائیں گے - بہر صورت اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ابھی تک وفات نہیں ہوئی ہے - یہ مضمون سورہ نساء کی تین آیات میں وارد ہوا ہے - پہلے ایک نظر ان آیات پر ڈالتے ہیں 

" و قولھم إنا قتلنا المسيح عيسى ابن مريم رسولَ الله وما قتلوه وما صلبوه ولكن شُبّه لهم و إن الذين اختلفوا فيه لفي شك منه ما لهم به من علم إلّا اتباع الظن وما قتلوه يقينا o بل رفعه الله إليه و كان الله عزيزاً حكيماً o و إن من أهل الكتاب إلّا ليؤمنن به قبل موته و يوم القيامة يكون عليهم شهيداً o 

مطلب بالکل صاف ہے کہ یہود کا یہ کہنا کہ ہم نے اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا بالکل بے بنیاد ہے ' نہ انہیں قتل کیا گیا ' نہ انہیں صلیب دی گئی ' دراصل ان پر نفسِ معاملہ ہی مشتبہ ہوا ہے - یہ لوگ جس معاملے میں اختلاف کررہے ہیں اس میں خود شک میں پڑے ہوئے ہیں - ( یعنی یہ خود بھی عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کیے جانے پر متفق نہیں ہیں - یہود کی ایک تعداد وفات کی قائل ہے - پھر جس شخص کو انہوں نے اپنی دانست میں عیسیٰ سمجھ کر صلیب دی اس میں بھی ان کے مابین اختلاف ہے کہ وہ عیسیٰ ہی تھے یا کوئی اور ) صورت حال ان پر پوری طرح واضح نہیں ہے - نہ ان کے پاس اس سلسلے میں کوئی ٹھوس علم ہے سوائے ظنون و اوہام کے - یقیناً انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ پر ایسا کرنا کوئی دشوار نہیں کیونکہ وہ عزیز یعنی زبردست طاقت والا ہے اور اس اٹھا لے جانے میں اللہ کی ایک حکمت چھپی ہوئی ہے کیونکہ وہ حکیم ہے - یہاں صاف بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی جانب اٹھا لیا - محض قتل یا صلیب سے بچانا مقصود ہوتا تو " بل رفعه الله إليه" نہیں کہا جاتا " بل نجّاه الله " يا " بل أنقذه الله " کہا جاتا - اس کے بعد اپنی دو صفتوں" عزیز اور حکیم" کو لانا بھی واقعہ کے غیر معمولی ہونے پر دلالت کرتا ہے - پھر فرمایا کہ اہلِ کتاب میں سے ہر کوئی ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان لائے گا - 

چوتھی آیت جس سے زیرِ بحث مسئلے پر استدلال کیا گیا ہے وہ سورہ زخرف کی61ویں آیت ہے

و إنه لعَلَمٌ للساعة فلا تمترنٌ بها واتّبعونِ هذا صراط مستقيم o

اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قیامت کی ایک علامت قرار دیا گیا ہے - یہ اسی وقت ممکن ہے جب قُربِ قیامت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ موجود ہوں ورنہ جو شخص صدیوں پہلے فوت ہوچکا ہو وہ قیامت کی ایک علامت کیسے ہو سکتا ہے ؟ تعجب ہے خود قرآن سے واضح طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت ہورہی ہے اور منکرین یہ کہہ کر سادہ لوح عوام کو گمراہ کرتے ہیں کہ قرآن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت نہیں ہے - یہ عقل کے اندھے اپنے اس اندھے پن پر فہمِ قرآن کا دعویٰ کرتے ہیں اور ایک لفظ" توفّی" سے وفات کے معنی کشید کرکے عیسیٰ علیہ کی موت کا ڈھنڈورا پیٹا حالانکہ توفّی کے لغوی معنی موت کے ہیں ہی نہیں بلکہ کسی چیز کو پورا پورا وصول کرنے کے ہیں- جہاں عیسیٰ علیہ السلام کےلئے یہ لفظ آیا ہے وہاں موت کے معنی نہیں نکالے جا سکتے کیونکہ لفظ صراحتاً موت پر دلالت نہیں کرتا - اس آیت کو درج بالا آیات کی طرف لوٹانے سے معنی بالکل صاف ہوتے ہیں- مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اس وقت پورا پورا وصول کیا ' روح اور جسد دونوں کے ساتھ ' جب لوگ انہیں قتل کرنےکے درپے تھے ' انہیں کوئی گزند نہیں پہنچی - اور وہ صحیح سلامت آسمان پر اٹھائے گئے - یہی مفہوم احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے لہذا احادیث کا انکار بھی لازم نہیں آتا - ورنہ اگر قائلینِ وفات کا خود ساختہ مفہوم مراد لیا جائے تو اس سے دوسری قرآنی آیات اور بکثرت صحیح احادیث کا انکار لازم آتا ہے - حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ (ص) کی احادیث مبارکہ سے دشمنی کرتا ہے اور اپنے خسیس مقاصد کے لیے ان سے اعراض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو فہمِ قرآن سے بھی محروم کردیتا ہے - اتنی واضح آیات کے بعد بھی کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا قائل ہو تو اس کی فہم و فراست پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے 

                          ( جاری)

( شکیل شفائی)


Views : 253

Leave a Comment