Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

امام ابن جریر طبری - تفسیری منہج


  • Dr. Shakeel Shifayi
  • Wednesday 2nd of March 2022 05:35:31 PM

امام ابن جریر طبری - تفسیری منہج
 

(قسط دوم)

تفسیر ابن جریر ماثور تفاسیر میں سب سے قدیم ہے - بعد کے قرنوں میں جتنی تفاسیر لکھی گئیں سب کسی نہ کسی لحاظ سے تفسیر طبری سے اثر پذیر رہی ہیں۔ اس تفسیر کا پورا نام ”جامع البیان عن تأویل آی القرآن“ہے۔علماء نے ہر زمانے میں اس کو بے حد سراہا ہے اور اسے ایک معتبر تفسیر قرار دیا ہے - امام ابن جریر کہتے ہیں۔”استخرت اللہ و سألت العون علی ما نویتہ من تصنیف التفسیر قبل أن أعملہ ثلاث سنین فأعاننی“  (سیر أعلام النبلاء)”میں نے اللہ سے استخارہ کیا اور اس سے تصنیفِ تفسیر میں مدد طلب کی جس کی نیت میں نے تفسیر لکھنے سے تین سال پہلے کی تھی - پس اللہ نے میری مدد فرمائی“۔امام ذہی  نے نقل کیا ہے کہ ابن جریر نے ایک بار اپنے تلامیذ سے فرمایا کہ کیا تم اس کام کو انجام دینے میں تازگی محسوس کرتے ہو کہ میں تم لوگوں کو ایک تفسیر املاء کردوں۔ انہوں نے عرض کیا، حضور وہ تفسیر کتنی ضخیم ہوگی، آپ نے فرمایا تیس ہزار اوراق۔ یہ سن کر تلامیذ نے بحالتِ استعجاب کہا،”اتنی ضخیم تفسیر کو پڑھنے ہی میں عمر نکل جائے گی“۔ اس پر ابن جریر ؒنے ایک آہ بھری اور فرمایا،”ہمتیں پست ہوگئیں“۔ پھر انہوں نے تین ہزار اوراق پر مشتمل یہ تفسیر املاء کی۔
ابن جریر کے تفسیری منہج کا خلاصہ درجِ ذیل نکات میں کیا جا سکتا ہے
 ابن جریر تفسیرِ ماثور پر اعتماد کرتے ہیں۔ تفسیرِ ماثور سے مراد وہ تفسیر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام ؒسے مروی ہو۔
  تفسیر بالرائے سے احتراز کرتے ہیں بلکہ اس کو سوءِ نظر سے دیکھتے ہیں۔
 کسی قول کو دلیل کی بنیاد پر قبول یا رد کرتے ہیں۔
 روایات کو نقد و جراح کی کسوٹی پر پرکھ کر ہی قبول کرتے ہیں
اجماعِ امت کا غایت احترام کرتے ہیں۔کسی رائے کو اختیار کرنے میں اجماع کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔
قرآن کی جو قرأت معتبر قُرّاء سے منقول نہ ہوں ان کو قبول نہیں کرتے۔
جو قراآت اجماعِ امت کے خلاف ہوں ان کو قبول نہیں کرتے۔
 جن امور کا تعلق راست تفسیر سے نہیں ہوتا ان سے اجتناب کرتے ہیں مثلاً اصحابِ کہف کا نام کیا تھا؟ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے دسترخوان پر کون کون سے کھانے چُنے گیے وغیرہ۔
کلامِ عرب سے استشہاد کرتے ہیں۔ اس پر اعتماد کرتے ہیں۔
چونکہ خود مجتہد و صاحبِ مذہب تھے لہٰذا کسی بھی فقہی مسئلے کو دلیل کی بنیاد پر ہی اختیار کرتے ہیں۔
.اہلِ سنت کے عقائد سے سختی سے تمسک کرتے ہیں
 اگر تفسیر میں کسی مقام پر اسرائیلی روایت لاتے ہیں تو اس پر جرح بھی کرتے ہیں اور اس کا سقم بھی واضح کرتے ہیں - (التفسیر و المفسرون ملخصاً
)

تفسیر بالماثور
 سورہ بقرہ کی آیت ۵۵۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،”اللہ لا إلہ إلا ہو الحی القیوم لا تأخذہ سنۃ ولا نوم“
”اللہ“جس کے سوا کوئی معبود نہیں ' وہ زندہ جاوید ہے ' تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے' اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ وہ سوتا ہے“۔ اس آیت کی تفسیر میں اولاً اللہ کے معبود برحق ہونے پر بڑی نفیس بحث کی ہے۔ پھر الحی،القیوم،سنۃ،نوم،پر تفاسیر نقل کی ہے اور ہر تفسیر کو اپنی سند سے بیان کیا ہے۔ربیع سے دو سندوں سے”الحی“ کی تفسیر”ایسی زندہ ہستی جسے موت نہ آئے“ نقل کی ہے۔ القیوم کی تفسیر میں اپنی سند سے چار اقوال مجاہدؒ،ربیعؒ، سُدیؒ اور ضحاک ؒسے نقل کیے ہیں۔ربیع ؒکے نزدیک القیوم کا مفہوم ہے ”ہر اُس چیز کا نگراں جس کو وہ روزی فراہم کرے“۔مجاہد کے نزدیک اس کا مفہوم ہے”القائم علیٰ کل شیئ“۔سدیؒ اسے '' القائم ''کہتے ہیں۔ضحاکؒ اسے القائم الدائم ''کہتے ہیں - مآل تمام تفاسیر کا ایک ہی ہے۔”سنۃ“کی تفسیر میں ابو ہریرہ،ابن عباسؓ،قتادہ ؒ،ضحاکؒ،سدیؒ،ربیعؒ،یحییٰ بن رافعؒ،عکرمہؒ اور ابن وہبؒ کے اقوال اپنی سند سے نقل کیے ہیں۔ اس کے بعد خود بھی آیت کا مفہوم بیان کیا ہے اور اس میں درج بالا تفاسیر کی روح کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔(امام ابن جریر طبری۔ ڈاکٹر احسان اللہ فہد' ملخصاً)

تفسیر بالرائے سے احتراز
تفسیر بالرائے سے کیا مراد ہے؟ ڈاکٹر احسان اللہ فہد نے اس سلسلے میں ابن جریر سے جو کچھ نقل کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص قرآن کی تفسیر کرتا ہے جسے اس کے علم کا ادراک نہیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توضیحات کی معرفت نہیں رکھتا نیز اسے علمِ تاویل سے واقفیت حاصل نہیں ہے تو یہ تفسیر بالرائے ہے جو اس نے اپنے ظن و گمان سے کی ہے اور اب اگر ایسا شخص سچی بات بھی کہے گا تو بھی خطار کار ہے - اس سلسلے میں انہوں نے اپنی سند سے ایک حدیث بھی نقل کی ہے - انہوں نے اپنی تفسیر کے مقدمے میں ایک فصل قائم کی ہے جس کا عنوان ہے ”ذکر بعض الأخبار التی رویت بالنہی عن القول فی تفسیر القرآن بالرأی“(ان اخبار و روایات کا بیان جن میں تفسیر بالرائے کی ممانعت وارد ہوئی ہے)
اسناد میں احتیاط
ابن جریر چونکہ علم الحدیث کے بھی نہایت ماہر و حاذق تھے،سلسلہِ اسناد پر ان کی نظر گہری تھی۔راویان حدیث کے احوال سے گہری واقفیت تھی، ہزاروں احادیث ان کو ازبر تھیں۔حدیث کی صحت و سقم پر وہ ایک حوالہ کی حیثیت رکھتے تھے لہٰذا وہ اسناد کے بارے میں نہایت احتیاط برتتے تھے۔ اگر سلسلہ اسناد میں کسی راوی کا نام بھول جاتے تو اس کی صراحت کرتے۔کہیں کہیں پر کسی راوی کی تفصیل بھی بیان کرتے۔ مثلاً انہوں نے ایک سند اس طرح بیان کی ہے '' حدثنا ابو کریب قال حدثنی یحیی بن آدم قال حدثنا إسرائیل عن أبی اسحاق عن فلان العبدی۔ عن سلیمان عن أبی کعب.........یہاں پر صراحت کی ہے کہ راوی کا نام میرے ذہن سے نکل گیا ہے
اسی طرح ایک سند اس طرح بیان کی ہے،”حدثنی سلمۃ بن محمد بن اسحاق عن أبی عتاب -  رجل من تغلب کان نصرانیاً عمراً من دہرہٖ ثم أسلم بعد،فقرأ القرآن و فقہ فی الدین و کان فیما ذکر أنہ کان نصرانیاً أربعین سنۃ ثم عمر فی الإسلام أربعین سنۃ“۔(مجھ سے سلمہ بن محمد بن اسحاق نے ابو عتاب سے بیان کیا۔ ابو عتاب قبیلہ تغلب کا ایک شخص تھا جو پہلے مدت تک نصرانی تھا پھر اس نے اسلام قبول کیا' قرآن پڑھا' دین کی سمجھ پیدا کی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ چالیس سال نصرانی رہا اور چالیس سال اسلام میں گزارے)یہاں ابن جریر نے سلسلہ سند میں راوی کی تفصیل بھی بیان کی ہے -

علمِ لغت سے استدلال
ابن جریر کو عربی لغت اور اسلوبِ کلام پر زبردست عبور حاصل تھا - ایک لفظ میں جو مختلف احتمالی مفاہیم مضمر ہوتے ہیں وہ ان میں سے کسی ایک مفہوم کو ترجیح دیتے اور اس پر دلائل قائم کرتے - چنانچہ طیراً ابابیل میں لفظِ ابابیل پر بحث کی ہے اسی طرح لفظِ  سجیل کے لغوی مضمرات پر دلائل دیے ہیں۔عام مفسرین ابابیل کو طیراً کی صفت یا حال قرار دیتے ہیں یعنی پرندے جھنڈ کے جھنڈ وارد ہوئے - ابن جریر سے ایک قول یہ بھی مروی ہے لیکن دوسرے قول میں وہ ابابیل کو طیراً کا بدل قرار دیتے ہوئے اس سے وہ چڑیاں مراد لیتے جو مختلف علاقوں سے وارد ہوئیں۔اسی طرح سجّیل سے کنکریلی مٹی مراد لیتے ہیں یا صرف مٹی۔ دراصل یہ فارسی لفظ ہے اور دونوں معنی کو شامل ہے۔”جعل فی السماء بروجاً“میں لفظِ بروج کے لغوی امکانات زیر بحث لائے ہیں۔ وہ بروج سے محلّات مراد لیتے ہیں اس سلسلے میں اخطل کے اس شعر سے دلیل لی ہے۔
کأنہا برج رومی یشیّدہ
بانٍ بجص و أجر وأحجار

(جیسے وہ رومی قلعہ ہے جس کو بنانے والے نے گارے ' اینٹ اور پتھروں سے مضبوط کیا ہے)
(ایضاً)

 (جاری۔۔۔)

(باقی تفصیلات تیسری قسط میں ملاحظہ ہوں)

 


Views : 369

Leave a Comment