Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

حج اور ابراہیمی خانوادہ


  • ڈاکٹر شکیل شفائی
  • Wednesday 28th of June 2023 11:24:33 PM

حج اور ابراھیمی خانوادہ

قوموں اور ملّتوں کی تعمیر و تشکیل میں خاندانوں کی قربانی بڑی معنیٰ خیز اور دور رس نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم (ع) اور ان کے خانوادے نے اللہ کی راہ و رضا میں جو قربانیاں دیں انہوں نے پوری دنیا میں توحیدی تہذیب و تمدن کی بنیادوں کو پائیدار و استوار کیا۔دنیا میں کئی خاندان ایسے تھے جنہوں نے بڑی بڑی بادشاہتیں قائم کیں۔کئی رہنما ایسے اٹھے جنہوں نے اپنے گھر،خاندان اور قبیلے کے لیے دولت و سیادت اور ثروت و قیادت کا وہ نظام قائم کیا جو سینکڑوں ہزاروں سال تک عوام الناس کی گردنوں پر مسلط رہا جن میں عیش عشرت کے دریا پوری آب و تاب کے ساتھ بہتے رہے۔ شاہی خاندانوں کی تاریخ پڑھیے، حیران رہ جائیں گے کہ انہوں نے اپنے اور اپنی اولاد کیلئے تعیش کے کیا کیا سامان مہیا کیے تھے۔برصغیر ہند و پاک میں جاگیرداروں کے بڑے بڑے خاندان اس کی یادگار ہیں۔عظیم الشان عمارتیں، محلّات،باغات،بارہ دریاں، کنویں،مسجدیں ناقابلِ تسخیر قلعے کیا کیا نیرنگیاں ان خانوادوں سے وابستہ ہیں۔لیکن وہ ایک خاندان جس نے انتہائی بے کسی اور کسمپرسی کی حالت میں ایک ایسے گھر کی تعمیر گارے مٹی سے کی جس سے افضل اور مقدس گھر روئے زمین پر دوسرا کوئی نہیں۔وہ گھر جس پر ہر لحظہ اور ہر لمحہ اللہ کی رحمات،عنایات اور انوارات کی بارش برستی ہے، وہ گھر جس کو دیکھنا بھی عبادت،جس کا طواف بھی عبادت،جس کا لمس بھی عبادت،جس کی تقبیل بھی عبادت، وہ گھر جس میں ادا کی گئی نماز دنیا کی تمام مساجد کے مقابلے میں ہزاروں درجہ زیادہ فضیلت کی حامل ہے۔دنیا میں بڑی بڑی شخصیات پیداہوئیں۔اُن کے بال بچے تھے۔ بیویاں تھیں لیکن وہ ابراہیم(ع)ایک ہی تھے جنہوں نے اپنی عفت مآب زوجہ اور شیر خوار معصوم بچے کوپہاڑوں سے گِھرے بے آب و گیاہ میدان میں صرف اللہ کے بھروسے انتہائی غربت کی حالت میں چھوڑ دیا تاکہ صرف ایک اللہ کی عبادت کے لیے اللہ کا گھر تعمیر ہوجائے' تاکہ اُس با عظمت خاندان کی بنیاد قائم ہو جس کا گُلِ سرسبد " محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " کی پاکیزہ صورت میں کِھل اٹھے۔عورتوں کے وجود سے دنیا کبھی خالی نہیں رہی لیکن یہ ہاجرہ (ض) ہی تھیں جنہوں نے اپنے پھول جیسے بچے کو گود میں لیتے ہوئے ریگ زار دشت میں قیام اس حالت میں منظور کیا کہ ماتھے پر ناراضگی کی ایک شکن بھی نہ تھی،ابرو میں شکایت کی ادنیٰ جنبش بھی نہ تھی۔

دنیا ہمیشہ بچوں اورجوانوں سے معمور رہی لیکن ان میں اسماعیل (ع) ہی ایک ایسے نوجوان تھے جنہوں نے اپنے والد کے شانہ بشانہ دنیا کے پہلے مرکزِ توحید کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا، جنہوں نے اللہ کےلیے قربان ہونے میں برضا و رغبت اپنی گردن پیش کی۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) اور ان کے خانوادے کا کردار ادائیگیِ فریضہِ حج میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اندازہ لگائیے کہ جس وقت ایک بوڑھے شخص نے اپنی نہایت تابعدار ' پاکدامن اور تقدس سے لبریز بیوی کو اس حالت میں چھوڑ دیا ہوگا کہ اُس کی گود میں ایک معصوم شیر خوار بچہ ہے،جو بڑی امیدوں اور تمناؤں کے بعد والدین کو نصیب ہوا ہے،جو نہ معلوم کتنی راتوں کی بیداری، آہ و فغاں اور مناجات کا ثمر ہے، باپ کا دل،پدرانہ شفقت کا امنڈتا ہوا دریا ہوتا ہے - ابراہیم (ع) اسماعیل (ع) سے اس حال میں جدا ہو رہے ہیں کہ دریائے شفقت و محبت طغیانی پر ہے لیکن مجال ہے کہ آنکھیں پُرنم ہوں' زبان شکایتوں کے بول بولے' دل رنجش و گلے کی کڑواہٹ محسوس کرے۔  ہرگز نہیں،یہاں سراپا انقیاد ہے' سر تسلیم خم ہے ۔ چشمِ تصور سے اُس ممتا کی ماری ماں کو دیکھیے جس کا لعل بھوک اور پیاس کی شدت سے بِلبِلا رہا ہے۔ ایڑیاں رگڑ رہا ہے اور ماں ہے کہ شدتِ اضطراب سے،یہاں وہاں، ادھراُدھر ،حالتِ بیقراری میں تڑپ تڑپ کے دوڑ رہی ہے۔جگہ بھی کیسی؟ جہاں نہ آدم نہ آدم زاد،نہ ہمدرد نہ غم خوار ،جہاں اُگنے کے لیے گھاس نہیں،چہچہانے کے لیے پرندے نہیں، تا حد نظر ریت کے سمندر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لیکن نہ ماں شاکی ہے، نہ اس کے پائے ثبات میں لغزش ہے، نہ فکر و عقیدے میں کوئی ارتعاش۔اللہ  کے لاکھوں سلام ہوں تم پر اے انبیاء و اولیاء کی ماں' یہ اسماعیل ہیں۔ پھڑکتی ہوئی جوانی کے حامل بلکہ جو ابھی پوری طرح جوان بھی نہیں ہوئے ہیں،جس کے کھیل کود کے دن بھی ہنوز پورے نہیں ہوئے ہیں، جس نے زندگی کی ابتدائی بہاریں بھی نہیں دیکھیں ،جو ابھی تھوڑے دن پہلے ہی ماں کی آغوش سے نکل کر زمین میں کچھ دوڑ دھوپ کے قابل ہوا ہے ،اقبال بھی حیراں ہیں کہ اس نوجوان کو یہ تابعداری، اللہ کے لیے قربان ہونے کا جذبہ پیدا کہاں سے ہوا ؟  اللہ اکبر  ! عقل واقعی دنگ ہے اسے کیا کہیے۔ فیضانِ نظر یا مکتب کی کرامت۔
سبحان اللہ!ابراہیم کتنے مقدس تھے!اُن کا خانوادہ کتنا مقدس ہے!اللہ تعالیٰ نے بھی اس خانوادے کی قربانی کو رائیگاں نہیں ہونے دیا' جیسا کہ اللہ کا وعدہ ہے
"إن الله لا يضيع أجر المحسنين"حضرت ابراہیم (ع)،حضرت ہاجر (ع) اور حضرت اسماعیل (ع) کی ایک ایک ادا کو اللہ تعالی نے اُسوہ قرار دیا-ان کی ہر حرکت اور چال ڈھال کو منسکِ حج ہونے کا شرف بخشا- ہزاروں پیغمبر آئے، لاکھوں اولیاء پیدا ہوئے، اللہ کے محبوبوں سے ہر زمانے دنیا بھری پڑی رہی لیکن کسی نبی، کسی ولی یا کسی محبوب کو چارہ نہ تھا سوائے اس کے کہ مکہ میں حاضر ہوکر اُسی دیوانگی کو اپنے اوپر طاری کریں جس کے عملی تجربے سے ابراہیم اپنے خانوادہ سمیت گزر چکے تھے۔
ہماری نمازیں فیوض و برکات سے محروم رہ جائیں گی اگر ان میں ہمارے آقا و مولیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے آل و اولاد کے ساتھ ساتھ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خانوادے کو بھی درودوں کی سوغات پیش نہ کی جائے۔
گھر آج بھی بنتے ہیں، خاندان آج بھی تشکیل پاتے ہیں اگرچہ مغربی افکار و نظریات کے تسلط نےخاندانی تصور کو بہت حد تک مجروح کردیا ہے تاہم مشرقی ممالک میں گھر اور خاندان کی روایات کسی نہ کسی صورت میں ابھی بھی موجود ہیں لیکن اب ان خاندانوں میں ابراہیم' ہاجر اور اسماعیل نام کے ہزاروں افراد موجود ہونے کے باوجود عزمِ ابراہیم،قلقِ ہاجر اور صبر اسماعیل کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترستی ہیں۔
اللہ تعالی نے اس خاندان کو دینی قیادت کا منصب یوں ہی نہیں بخشا،اس اعزاز کی تحصیل کے لیے بے آب و گیاہ میدانوں کی گزر بسر، دشت و جنگل کی ویرانی اور گرم لہو کی آنچ سے اپنے خوابوں کو تعمیر کرنا پڑتا ہے۔ اپنے نورِ چشموں سے مفارقت اختیار کرنا پڑتی ہے،آشیانہ بنانے کی آرزووں کو خاک کرنا پڑتا ہے،اپنے اہل و عیال کے ساتھ سکون اور مسرت کی چند گھڑیاں گزارنے کی تمنا بس تمنا ہو کر رہ جاتی ہے۔
حج کوئی سادہ عمل نہیں۔ یہ ایک خانوادے کی اللہ تعالیٰ سے والہانہ اور بے لوث محبت کی بے مثال تاریخ ہے- یہ اُن تمام خانوادوں کیلیے نقشِ اول کا حکم رکھتا ہے جنہوں نے اللہ کی راہ میں سب کچھ لٹا کر یہی سمجھا کہ ہم سب کچھ پا گیے

تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے
پر غیب سے سامانِ بقا میرے لیے ہے
میں کھو کے تیری راہ میں سب دولتِ دنیا
سمجھا کہ کچھ اس سے بھی سوا میرے لیے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالَم سے خفا میرے لیے ہے

آج بھی کتنے خانوادے ہیں جو حج کے مقامات سے گزرتے ہیں،کتنے "ابراہیم " منی میں قربانی کا فریضہ ادا کرتے ہیں، کتنی " ہاجرائیں " صفا و مروہ کی چوٹیاں سر کرتی ہیں، کتنے اسماعیل مناسکِ حج کو ادا کرنے میں منہمک نظر آتے ہیں لیکن پھر بھی روح توحید مفقود ہے،شمعِ دین بجھی ہوئی ہے،دل سوز سے خالی ہیں، عبادتیں رسوم ہو کر رہ گئی ہیں،مساجد ویراں ہیں،احوال پراگندہ ہیں،جمعیت منتشر ہے۔ حسن معاشرت معدوم اور حسن اخلاق مرحوم معاملات تباہ، اتفاق بے تعبیر کا خواب ، ہر طرف معصیت کا سیلاب، ہر شخص اپنی اپنی سطح پر اس میں غرقاب۔
ان حالات میں حج کا مآل کار کیا ہے؟

عازمِ ارضِ مقدس،اے کہ تُو ہے کامیاب
اے ترا عزمِ سفر، میری تمنا کا شباب
اے کہ تیرا کاروان شوق تجھ کو لے چلا
اے کہ تجھ کو مل گیا عرضِ تمنا کا جواب

لیکن
عشق جب تک بے نیازِ مستی صہبا نہ ہو
عش جب تک خوفِ استیلاء سے بے پروا نہ ہو
عشق جب تک کر نہ دے یکرنگ حال و قال کو
عشق جب تک کوچہ و بازار میں رسوا نہ ہو
عشق سے جب تک نہ ٹوٹے جادوئے فرزانگی
عشق جب تک خود تماشا بن کے بے پروا نہ ہو
عشق جب تک ہو نہ جائے رُست خیز و حشر خیز
زندگی میں عشق سے جب تک اثر پیدا نہ ہو
عشق جب تک شرحِ "لا موجود "کر سکتا نہیں
عشق جب تک آشنائے معنیِ الّا نہ ہو
عشق جب تک شیشہِ دل میں رہے صہبائے خام
آہ وہ یکساں ہے تیرے واسطے ہو یا نہ ہو


Views : 301

Admin

آپ کے تاثرات کا انتظار رہے گا کیونکہ آپ کی آراء ہمارے لیے قیمتی ہیں ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مضمون پڑھنے کے بعد آپ ضرور چند سطریں قلمبند کریں گے

2023-06-29 15:09:28


Leave a Comment