Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

Darse Mathnavi


  • Aasi Gulam Nabi
  • Thursday 7th of October 2021 04:20:26 AM

(حق پرستوں اور حق مخالف لوگوں کا الگ الگ انجام)


    گذشتہ قصہ میں مولانا رومی ؒ نے ایک مکار یہودی وزیر کی مکاری کا قصہ بیان کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ایک حاسد اور کینہ پرور انسان کس طرح پہلے اپنے آپ کو اورپھر بندگانِ خدا کومصائب میں مبتلاکر نے کی مذموم کوشش کرتا ہے اور ایسا کر کے خود بھی کس طرح اپنا حلیہ بھی بگاڑتا ہے اور دوسروں کے آزا ر کا سبب بھی بن جاتا ہے اس کے بر عکس حق پرست اور انصاف پسند کس طرح اپنی راحت کا سبب بن جاتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی راحت کے دروازے کھولنے کا سبب بن جاتا ہے۔اس سلسلے میں مولانا ؒ نے عیسائیوں کی ایک حق پرست جماعت کا تذکرہ کیا ہے جو انجیل کا مطالعہ کرتے تھے،جس میں آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے ہی ان کا مقدس نام درج تھا۔چنانچہ انجیل میں حضور ﷺ کے مبارک حلیہ اور شکل کا تذکرہ بھی تھا۔ان کے جہاد اور روزے اور کھانے کا ذکر تھا۔عیسائیو ں کی یہ جماعتن عوسس جب حضور ﷺ کا نام مبارک پڑھتے تو اس متبرک نام کوبوسہ دیتے اور اس پاک تعریف کی جگہ پر اپنا منہ رکھ کر چوم لیتے۔اللہ تعالیٰ نے اس حق پرست جماعت کو مکار یہودی وزیروں کی چالوں سے محفوظ رکھا،جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ حضور ﷺ کی مبارک نام کی پناہ میں پناہ گزین ہوتے تھے۔اُن کی نسل کو بھی اللہ نے بڑھایا کیوں کہ حضور ﷺ کا نور اُن کا ساتھی اور مدد گار بن گیا۔اس کے برعکس جو گروہ حضور ﷺ کے نام کی بے حرمتی کرتا تھاوہ فتنوں کی وجہ سے ذلیل و خوار ہوا۔وہ مذہبی آداب سے محروم ہوئے لہٰذا ان کا مذہب اور ا ن کا قانون تہہ و بالا ہوگیا۔اس مختصر قصہ کے آخر پر مولانا نے دو اشعار میں حضور ﷺ کی تعریف کے ذیل میں ایک اہم بات بیان فرمائی ہے چنانچہ لکھا ہے    ؎
 نام احمد چوں چنیں یاری کند  

تا کہ نورش چو ں مدد گاری کُند 
نام احمد ؐ چوں حصارے شدحصین
 تا چہ باشد ذات آں روح الامین
    (ترجمہ) احمد یعنی حضور ﷺ کا نام مبارک جب اس طرح مدد کرتا ہے تو ان کا نور کس قدر مددکر سکتاہے۔احمد کا نام جب مضبوط قلعہ بنا، تو اس روح الامین کی ذات کس درجہ کی ہو گی؟ حقیقت یہ ہے کہ یہود و نصار یٰ کی پھٹکار کا سبب جہاں اور باتیں بنی وہاں ان کی ذلت و مسکنت میں مبتلاہونے کا ایک بڑ ا سبب حضور ﷺ کی شان میں گستاخی اور ان کی رسالت میں بے رُخی ہے ۔ان ہی واقعات کے ذیل میں مولانا نے لکھا ہے کہ اس یہودی کی نسل سے ایک دوسرا بادشاہ حضرت عیسیٰ ؑ کی قوم کی ہلاکت کی طرف متوجہ ہوا۔یہ در اصل سورہئ بروج کی آیت قُتِلَ اَصْحَابُ الْاُخْدُوْدِ کی طرف اشارہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک لڑکا ایک جادو گر کے پاس جادو سیکھنے کے لیے جاتا تھا۔اس کے راستہ میں ایک خدا رسیدہ راہب کا گرجا گھر تھا۔یہ لڑکا اس راہب سے مانوس ہو گیا اور اس سے فیض حاصل کرنے لگا۔ایک روز یہ لڑکا جارہا تھا۔اس نے دیکھا کہ لوگ ڈرے ہوئے راستہ پر کھڑے ہیں۔آگے جانے  کی ہمت نہیں کر رہے ہیں۔اس نے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایک خون خوار شیر نے راستہ روک رکھاہے۔یہ لڑکا آگے بڑھا اور اس نے خدا کا نام لے کرایک پتھر شیر کو مارا تو شیر ہلاک ہوگیا۔اس واقعہ سے اس لڑکے کی شہرت ہوئی اور لوگ اس کے گرد جمع ہونے لگے اور مومن بننے لگے۔ان واقعات کا بادشاہ کو علم ہوا تو وہ بہت برہم ہوا اس لیے کہ وہ خود خدائی کا مدعی تھا اور اس نے لڑکے کو ہلاک کرنے کا حکم دے دیا۔اس لڑکے کو پہاڑ سے پھینکا گیا،لیکن وہ ہلاک نہ ہوا،اس کو دریامیں غرق کرنے کی کوشش کی گئی،لیکن وہ غرق نہ ہوا۔تب اس لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ اگر تو مجھے ہلاک ہی کرنا چاہتا ہے تو صرف ایک تدبیر ہے کہ تو بِسْمِ اللّٰہِ رَبِ ھٰذَا الْغُلاَم کہہ کر میری طرف تیر چلاتو میری موت واقع ہو جائے گی۔چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور لڑکا شہید ہو گیا۔اس وقت جو مجمع حاضرتھا وہ سب کا سب مومن ہو گیا۔بادشاہ نے ا ن کو ہلاک کرنے کے لیے خندقیں کھدوائیں اور ان میں آگ جلا ئی اور ان مومنوں خو آگ میں جلوایا۔اگر چہ اس بادشاہ نے ان مومنوں کو آگ میں ڈال کر اپنی بُری خواہش پوری کی،لیکن وہ اس راز سے بے خبر تھا کہ یہ مومن آگ میں پہنچ کر اپنے رب کریم کا ایک عجیب آرام و راحت محسوس کرتے ہیں چنانچہ اس یہودی بادشاہ نے ایک عورت کو مع بچے کے لایا اور اس کوایک بُت کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دے دیا۔وہ عورت پاک دین والی مومنہ تھی اس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ظالم بادشاہ نے اس بچے کو اُس سے چھینا اور اُسی کے سامنے آگ میں ڈالدیا عورت ڈرنے لگی اور ایمان سے ہٹنا چاہا۔۔وہ اندر سے بت کے سامنے سجدہ کرنے پر آمادہ ہوگئی،لیکن قسمت نے اسے یاوری کی کہ اسی اثنا میں بچہ آگ میں چیخا اور پُکار کر کہا کہ اے میری ماں میں مرا نہیں۔میں اس جگہ بالکل ٹھیک طرح سے ہوں اگر چہ بظاہر آگ میں ہوں۔آگ نظر بندی کے لیے ایک پردہ ہے ورنہ یہ ایک رحمت ہے۔اے ماں تو بے خطر اس آگ میں کود اور حضرت ابراہیم کے راز دیکھ۔میں نے اس آگ میں وہ دنیا دیکھی جس میں ایک ایک ذرہ حضرت عیسیٰ  ؑ کے سانس کی طرح ہے،جس میں خدا نے یہ تاثیررکھی تھی کہ اُنکے دم سے اللہ کے حکم سے مردہ زندہ ہوتے تھے۔اے ماں تو نے اس یہودی کُتے کی طاقت دیکھ لی۔اب اس آگ میں داخل ہو کر اللہ کی قدر ت اور مہر بانی دیکھ۔اے ماں تو دوسرے مسلمانوں کو بھی اس آگ میں داخل ہونے کے لیے بلاؤ۔بچے کا یہ دلکش کلام سن کر ماں آگ کے اندر کودی اور ہمیشہ کی بازی جیت لی۔اس کے بعد لوگ جوق در جوق آگ میں کود پڑے۔معاملہ یہاں تک قابو سے باہر ہو گیا کہ اب بادشاہ کے سپاہی لوگوں کو آگ میں کونے سے منع کرنے لگے اور یہودی بادشاہ اپنے کام سے خود ہی ذلیل ہوگیا۔اور اس کا منہ ٹیڑھا ہو گیا۔اسی طرح آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جب ایک کمینہ شخص  نے حضور ﷺ کا نام تمسخر کے ساتھ لیا تو اس کا منہ ٹیڑھا ہو گیا،لیکن یہ شخص فوراً واپس آیا اور حضور ﷺ سے درخواست کی اے محمد ﷺ مجھے معاف فرما دیجئے۔میں نے جہالت کی وجہ سے آپ کا مذاق اُڑایاحالانکہ حقیقت یہ ہے کہ میں ہی تمسخر کے قابل تھا۔یہاں پر مولانا نے ایک بہت ہی قیمتی نصیحت فرمائی ہے کہ     ؎
چو خدا خواہد کہ کس پردہ درد ٭ میلش اندر طعنہئ پاکاں برد   
ور خدا خواہد کہ پوشد عیب کس ٭کم زند در عیب معیوباں نفس   

ترجمہ:۔جب خدا چاہتا ہے کہ کسی کی پردہ دری کرے۔اس کامیلان پاک لوگوں پر طعنہ زنی میں کر دیتا ہے۔اور اگر خدا چاہتا ہے کہ کسی کی عیب پوشی کرے تو عیب داروں کے عیب بھی نہیں بیان کرتا۔
    دوسرا اہم نکتہ مولانا یہ بیان فرماتے ہیں کہ     ؎
چوں خدا خواہد کہ ماں یاری کند  
 میل ما را جانب زاری کند 
اے خنک چشمی کہ اُو گریان اُوست   
 وے ہمایوں دل کہ اُو بریان اوست 
    ہر کجا آبِ رواں سبزہ اوبُوَد     
ہر کجا اشکِ رواں رحمت شود 
رحم خواہی رحم کن بر اشکبار   
 رحم خواہی بر ضعیفاں رحم آر 
    ترجمہ:۔ جب خدا ہماری مدد کرنا چاہتا ہے تو ہمیں انکساری کی طرف مائل کردیتا ہے۔بڑی مبارک ہے وہ آنکھ جو اس کے لیے روتی ہے اور وہ دل بہت مبارک ہے جو اس کے لیے جل بُھن رہا ہے۔جہاں کہیں آبِ رواں ہو،سبزہ ہوتا ہے۔جہاں کہیں اشک رواں ہو رحمت ہوتی ہے۔تو رحم چاہتا ہے تو آنسو بہانے والے پر رحم کر۔تو ر حم چاہتا ہے تو کمزروں پر رحم کر۔
    قصہ کے آخرپر مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں کہ آگ کا یہ عجیب معاملہ دیکھ کر یہودہی بادشاہ کو آگ پر غصہ آیااور آگ کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ اے بد مزاج آگ تمہارے جلانے کی وہ فطری عادت کہاں چلی گئی۔تو کیوں نے نہیں جلاتی ہے۔آگ کو خدا نے زبان دی اورآگ نے کہاں کہ میں وہی آگ ہوں۔اندر آجا،تا کہ تو میری گرمی دیکھے۔میں ترکمانی کتوں سے کم تر نہیں ہوں جو خیمہ کے دروازہ پر مہمان کے آگے خوشامد کرتے ہیں اور اگرخیمہ کے پاس سے اجنبی گزرتا ہے تو وہ ان کتوں سے شیروں جیسا حملہ دیکھتا ہے۔پورے قصے کا خلاصہ مولانا نے ان چار اشعار میں بیان فرمایا ہے کہ     ؎
       من ز سگ کم نیستم در بندگی       کم زِ ترکے نیست حق در زندگی 
ترجمہ:۔ میں غلامی میں،کتے سے کم نہیں ہوں اللہ تعالیٰ زندہ ہونے میں کسی ترک سے کم نہیں ہے۔
     چو نکہ غم بینی تو استغفار کن     
غم بامرِ خالق آمد کار کُن 
چو ں بخواہد عین غم شادی شود 
عین بند پائے آزادی شود 
باد و خاک و آب وآتش بنداند
  با من و تو مردہ با حق اندہ اند 
ترجمہ:۔جب تو غم دیکھے،تو توبہ کر۔غم خدا کے حکم سے کام کرتا ہے۔جب وہ چاہتا ہے تو عین غم خوشی بن جاتا ہے۔خود بیڑی آزادی بن جاتی ہے۔ہوا،مٹی،پانی اور آگ غلام ہیں۔میرے اور تیرے اعتبار سے مردہ ہیں،لیکن اللہ کے نزدیک زندہ ہیں۔


Views : 1346

Leave a Comment