دشمنی میں خیر کا پہلو
محمد بن علی بن طبا طبا ایک ساتویں صدی کے آغاز کا مشہور مورخ ہے۔ یہ ابن طقطقی کے نام سے بھی مشہور ہے۔طقطقی کے لغوی معنی ”بہت تیز بولنے والے“کے ہیں۔ انہوں نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”الفخری فی الادآب السلطانیہ و الدول الاسلامیہ“میں حکماء کا یہ قول نقل کیا ہے ”کہ دشمن دو طرح کے ہوتے ہیں۔ایک وہ دشمن جو تم پر ظلم کرے اور دوسرے وہ جس پر تم نے ظلم کیا ہو۔جس دشمن پر تم نے زیادتی کی ہو اس پر کبھی بھروسہ نہ کرو اور جہاں تک ممکن ہو اس سے بچو۔رہا وہ دشمن جس نے تم پر زیادتی کی ہو اس سے زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں۔کیونکہ ایسا دشمن عموماً اپنی زیادتی شرمندہ و نادم ہوکر تلافی کی غرض سے تمہارے لیے خوشگوار کام بھی کر گذرتا ہے اور اگر وہ زیادتی سے باز نہ بھی آئے تو وہ خدا توضرور انصاف کرتا ہے جو تمام مظلوموں کا ملجا و ماویٰ اور جائے پناہ ہے“۔ان سطورمیں ہمارے لیے کافی بصیرت کا سامان موجود ہے کہ آدمی اپنی دور اندیشی سے ناموافق لوگوں اور حالات کو بھی اپنے لیے کارآمد ثابت کر سکتا ہے۔وہ اسطرح کہ اگر کوئی شخص آپ پر حاوی ہوتا ہے اور وہ اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے آپ پر ظلم اور زیادتی کرتاہے توآپ اپنے حوصلہ کو کھونے کے بجائے صبر واستقامت کادامن تھامتے ہوئے ان مواقع کی تلاش میں رہتے ہو جو آپ کے حالات کو بدلنے میں یا بہتر بنانے میں اچھے ثابت ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہیں کہ وحشی سے وحشی انسان میں بھی ایک زندہ ضمیر ہوتی ہے جو وقتی اعتبار سے کبھی غیض و غضب سے مفلوج ہوجاتی ہے اور غیض و غضب کا نشہ اترنے کے بعد وہ از سر نو سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ اور پھر وہ کیے ظلم کی تلافی کے لیے مظلوم کے ساتھ کچھ خیر خواہی کرنا اپنے اوپر ضروری سمجھتاہے۔ اور ظالم کی یہ خیر خواہی آپ کے حالات کو بہتر بنانے میں کافی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ دوستوں کے تلطف سے زیادہ کبھی کبھار دشمنوں کا نامناسب رویہ آدمی کو بلندیوں کے عروج پر پہنچانے میں زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ اس بات کی تائید سکندر کے اس قول سے ہوتی ہے کہ ”میں نے اپنے دوستوں سے بہ نسبت اپنے دشمنوں سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔وہ یوں کہ میرے دشمن مجھے عار دلاتے رہے،میرے عیب کھولتے رہے اور میں ان سے بچتا رہا اور تلافی کرتا رہا اور میرے دوست تو میری غلطیوں پر بھی تحسین کرتے رہے اور مجھے شاباش دیتے رہے۔“بہر حال وہ مسلمان جو دنیا میں کہیں پر بھی مظلومیت کی صورتحال سے دوچارہیں ان کو چاہیے کہ وہ مظلومیت کی ناگفتہ بہ صورتحال کو اپنے انتہائی دانشمندانہ طرز عمل سے بہتر بنانے کے پیہم عمل میں جٹ جائیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑیں۔بقول بشیر بدرؔ
مخالفت سے میری شخصیت سنورتی ہے
میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں
اور بقول انورؔ مسعود
میں اپنے دشمنوں کا کس قدر ممنون ہوں انور
کہ ان کے شر سے کیا کیا خیر کے پہلو نکلتے ہیں
Views : 1310