Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

مثبت دعوت اور اس کا طریقہ کار پر مجلس علمی کا یک روزہ علمی مذاکرہ


  • ڈاکٹر شکیل شفائی
  • Wednesday 16th of August 2023 02:46:11 PM

" مجلسِ علمی ( فتح گڈھ' بارہمولہ) کی دینی تقریب" 

مولانا شوکت حسین کینگ صاحب وادیِ کشمیر کے ان انگشت شمار علماء و فضلاء میں محسوب ہوتے ہیں جنہیں بالعموم برصغیر کی اور بالخصوص کشمیر کی دینی اور ثقافتی تاریخ پر گہری نظر ہے- مجلس علمی کے مؤسس جناب آسی غلام نبی وانی صاحب نے ( جو بلا لحاظ مسلک و مکتب علماء و فضلاء کے بڑے قدر دان ہیں) عرصہ ہوا خواہش ظاہر کی تھی کہ مولانا کو کسی تقریب میں فتح گڈھ مدعو کیا جائے- مولانا شوکت صاحب کو ماقبل ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب (ہُدِی پورہ' بارہمولہ) سے ملاقات کرنے کا ارادہ تھا ' آسی صاحب نے اس کا یہ حل نکالا کہ اپنے ادارہ مجلس علمی کے صدر دفتر پر ایک دینی تقریب کا اہتمام کیا اور اس میں ان دونوں صاحبان کو مدعو کیا- اس طرح" مرج البحر یلتقیان " کی صورت نکل آئی- عزیزم عبدالماجد کرمانی کی وساطت سے مولانا شوکت صاحب سے رابطہ کیا گیا' انہوں نے دعوت کو خندہ جبینی سے قبول کیا- 
۱۳ اگست ۲۰۲۳ روز شنبہ کو راقم سرینگر سے مولانا شوکت صاحب اور عبدالماجد کی رفاقت میں قریباً آٹھ بجے صبح روانہ ہوا- نارہ بل میں مولانا غلام محمد پرے صاحب ہمارا انتظار کر رہے تھے- ہرچند موسم خوشگوار تھا تاہم ہوا میں تمازت محسوس ہورہی تھی- مولانا غلام محمد پرے صاحب نے پہلے ہی ہدایت دی تھی کہ ہمیں ماگام اور سنگھ پورہ وغیرہ علاقہ جات سے صبح نو بجے سے پہلے پہلے گزرنا ہوگا ورنہ بعد میں اہلِ تشیع کے ماتمی جلوس کی وجہ سے نیشنل ہائی وے پر عبور و مرور کی اجازت نہیں ملے گی ' معلوم ہوا کہ ۲۵محرم الحرام کو ان علاقوں میں اہلِ تشیع کے جلوس نکلتے ہیں- خیر ہم نو بجے سے قبل ہی ان علاقہ جات سے گزر گیے- راستے میں جگہ جگہ ماتمی جلوسوں کے لیے سبیلوں کا انتظام کیا جا رہا تھا- فوجی اور نیم فوجی دستے بھی تعینات ہورہے تھے- نارہ بل سے مولانا غلام محمد پرے صاحب کی معیت بھی حاصل ہوئی- 
سفر میں مولانا شوکت صاحب اور مولانا غلام محمد پرے صاحب جیسے اصحاب علم' مجھ جیسا طالب علم اور عبدالماجد کرمانی جیسے علماء کے قدر شناس موجود ہوں تو علمی گفتگو کا واقع ہونا بدیہی امر ہوگا- چنانچہ گفتگو شروع ہوئی- پرے صاحب کی ایک خصوصیت ہے کہ وہ استفسار کی صورت میں کسی علمی مسئلے کی شروعات کرتے ہیں اور یوں گفتگو کا سلسلہ چل نکلتا ہے' موقع کی مناسبت سے انہوں نے یزید کے بارے میں بات چھیڑ دی- ہرچند ذاتی طور پر میں ان مسائل پر ہرگز لب کشائی نہیں کرتا (الا ماشاء اللہ) تاہم اس مقام پر شرکاء مباحثہ زیرک و دانا لوگ تھے لہذا میں نے گفتگو میں حصہ لیا- مولانا پرے صاحب کا رجحان یزید کی تعدیل کی طرف تھا لیکن ہم سب کا رجحان یزید کی جرح کی طرف تھا- مولانا کی دلیل یہ تھی کہ یزید کی جرح کی صورت میں بات دیگر صحابہ کرام تک پہنچے گی- میں نے عرض کیا کہ ایسا علماء نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے ان کے حق میں کفّ لسان واجب ہے کیونکہ وہ صحابہ کا دروازہ ہیں جس کے کھلنے سے دوسرے صحابہ کی ناموس پر انگشت نمائی کا خدشہ ہے - یزید کے بارے میں ایسا کوئی اصول نہیں- یزید کے فسق وفجور پر تو علماء کی اکثریت کا اتفاق ہے- ہاں چند علماء نے بعض روایات کی بنا پر سکوت کو ترجیح دی ہے اور بعض نے بر بنائے احتیاط لعن و تکفیر سے احتراز کیا - بعض علماء نے حسن و قبح کے دونوں پہلو سامنے رکھے اور فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا لیکن جہاں تک فقہاء و محدثین' اولیاء و صوفیاء' مجددین و مصلحین کے سواد اعظم کا تعلق ہے ان کا قلبی رجحان ہمیشہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف رہا ہے نہ کہ یزید کی طرف- 
مولانا شوکت صاحب نے میری بات کی تایید کی بلکہ ایک بہت ہی خوبصورت بات کہی کہ سیدنا معاویہ رض کے دورِ حکومت میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے کسی بھی قسم کے احتجاج یا خروج کا ثبوت نہیں ملتا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک حضرت معاویہ کی حکومت برحق تھی لیکن یزید کے خلاف انہوں نے اقدام کیا جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یزید کی حکومت ان کی نظر میں برحق نہیں تھی- اس موقف کی تایید خود یزید کے بیٹے معاویہ کے طرز عمل سے ہوتی ہے جب وہ حکومت سے آپ ہی دستبردار ہوگیے- 
راقم سطور کا اس بارے میں یہ موقف ہے کہ حضرت معاویہ کی مخالفت رفض ہے اور یزید کی موافقت ناصبیت ہے- (واللہ اعلم بالصواب) 
بہرحال گفتگو یوں ہی چلتی رہی- چونکہ گفتگو کی غرض احقاقِ حق تھی کسی خاص رجحان کا دفاع مقصود نہ تھا لہذا کسی طرح کی بدمزگی پیدا نہیں ہوئی- ( الحمد للہ) 
تاپر کے قریب عزیزی عمر فاروق سے بر لب سڑک ملاقات ہوئی- اس صاحب قلم ہونہار نوجوان پر مولانا شوکت صاحب کی خاص نظر عنایت ہے- انہوں نے گھر چلنے پر اصرار کیا لیکن ہمارے پاس اتنا وقت نہیں تھا- دس بجے فتح گڑھ پہنچنا تھا اور آسی صاحب فون پر مسلسل احوال دریافت کر رہے تھے-
 سوا دس بجے صبح کے قریب گاڑی جناب آسی صاحب کے دولت کدہ کے قریب کھڑی ہوئی- باہر سڑک پر چند خوبرو نوجوان ہمارا انتظار کر رہے تھے- تھوڑی دیر میں آسی صاحب آپ ہی باہر تشریف لائے- علیک سلیک اور معانقہ کے بعد مہمانوں کو مکان کے شرقی جانب ایک کمرے میں اتارا گیا جس کی الماریاں اور طاقچے کتابوں سے بھرے پڑے تھے- آسی صاحب کا گھرانہ خالص علمی گھرانہ ہے جس کے خورد و کلاں سب کسی نہ کسی نسبت سے علم سے جُڑے ہیں لہذا جگہ جگہ کتابوں کے مناظر کوئی مستبعد بات نہیں- آسی صاحب کے فرزنداں و حفیداں سالک بلال' منیر احمد وانی' اقبال صاحب وغیرہم نے ہمارا استقبال کیا- مہمانوں کی تواضع' کشمیر کی تہذیبی روایات کے مطابق'  چائے سے کی گئی جس کی سخت طلب ہورہی تھی-
گیارہ بجے کے قریب مجلس علمی کے دفتر کی طرف چل پڑے - دفتر گھر سے زیادہ دور نہیں ہے لہذا مولانا شوکت صاحب نے پیدل چلنے کو ترجیح دی-  آسی صاحب کے گھر سے چند قدم پر سڑک کے داہنی کنارے پر ایک مسجد نظر آئی- اس کی حال ہی میں تعمیرِ نَو کی گئی ہے - آسی صاحب نے بتایا کہ اس مسجد میں حضرت مولانا قاسم شاہ بخاری اور حضرت مولانا محمد امین بدخشی رحمہما اللہ وعظ و تبلیغ کے لیے تشریف لائے ہیں- 
مجلس کے دفتر میں سامعین کی ایک تعداد موجود تھی- بعد میں اور لوگ بھی آتے گیے یوں ہال تھوڑی دیر میں ہی بھر گیا- ایک بزرگ اردو میں تقریر کر رہے تھے معلوم ہوا کہ یہ جناب محمد سلیم بیگ صاحب ہیں اور ان کی کتاب " راحۃ القلوب " کی آج رسم ِ اجرا ہونے والی ہے- تھوڑی دیر بعد ہی ضابطے کی کارروائی شروع ہوگئی- نظامت کے فرائض سالک بلال نے انجام دیے- سالک صاحب ادھر کئی برسوں سے نظامت کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں لہذا اس میدان میں ماشاء اللہ کافی پختگی حاصل کرچکے ہیں- صدارت کے لیے مولانا غلام محمد پرے صاحب کو نامزد کیا گیا اور مہمان خصوصی مولانا شوکت حسین کنگ صاحب ٹھہرے- ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ بہ سبب مشغولیت کے دوپہر کے بعد ہم سے جُڑیں گے- حافظ جی کی تلاوت اور یونس صاحب کی نعت کے بعد آسی صاحب نے گفتگو شروع کی- انہوں نے اپنا مقالہ تحریری صورت میں شائع کرایا تھا جو موقع پر ہی سامعین کے درمیان تقسیم کیا گیا- اس، میں انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ہمیں اختلاف انگیز کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہئے- انہوں نے اسلامی تاریخ کے تناظر میں اپنا موقف پیش کیا- رسول الله صلى الله عليه وسلم کے بعد خلفائے راشدین کے طریقِ انتخاب پر روشنی ڈالی اور اس ضمن میں واقع ہونے والے اختلاف اور صحابہ کرام کے اخلاص اور قربانیوں پر گفتگو کی- آخر پر مجلس کے فکر و نظر اور عقیدہ و موقف پر بھی بات کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مجلس علمی ایک آزاد غیر سیاسی ادارہ ہے' مسلمانوں کے جمیع طبقات و مکاتب فکر سے معنوی طور پر مربوط ہے اور ہر صاحب علم سے استفادہ کرنا اس کے اجل مقاصد میں شامل ہے- 
آسی صاحب کے بعد راقم الحروف نے چند گزارشات پیش کیں- ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی دعاۃ کو دعوتی میادین میں دل و نگاہ کو بیدار و وسیع رکھنے کی اشد ضرورت ہے- بات بات پر تکفیر و تفسیق کا مزاج نہ پنپنے دیا جائے- اکابر علماء کے بظاہر شریعت سے متصادم اقوال کی حتی المقدور خوبصورت تاویل کی جائے - احقر نے اس ضمن میں شیخ محی الدین ابن عربی اور شیخ شبلی رحمہما اللہ کی مثالیں پیش کیں- 
میرے بعد مولانا شوکت حسین کینگ صاحب نے گفتگو فرمائی جو ہر بار کی طرح متوازن تھی اور مجموعی طور پر برصغیر کے پورے علمی منظر نامے کا احاطہ کر رہی تھی- مولانا نے اسلامی دعوت میں مثبت سوچ پیدا کرنے کے حوالے سے کئی سبق آموز واقعات بیان کیے- غرض اپنی مختصر گفتگو میں علمی جواہر پاروں کے دریا بہا دیے- 
اخیر پر مولانا غلام محمد پرے صاحب نے صدارتی کلمات بیان کیے- انہوں نے بھی فی الجملہ اسلوبِ دعوت میں وسعت نظر پیدا کرنے پر زور دیا- 
اس کے بعد راحۃ القلوب کی رسمِ اجرائی ہوئی- راحۃ القلوب دراصل تصوف کی چند بنیادی اصطلاحات کی تشریح پر مبنی ہے- مرتب نے مستند کتب تصوف سے اپنا مواد لیا ہے- میں نے تاہنوز کتاب کو بالاستیعاب نہیں دیکھا لہذا کوئی رائے پیش نہیں کر سکتا تاہم سرسری طور پر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ کتاب یقیناً مفید ہوگی- 
کتاب کے مصنف خاصے پڑھے لکھے ہیں' استاد کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دی ہیں- ایک علمی اور صوفی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اگرچہ وہ بات بات پر کہہ رہے تھے کہ میں ایک معمولی آدمی ہوں' دور افتاد بستی سے تعلق رکھتا ہوں' بے علم ہوں لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسرِ نفسی سے کام لے ریے ہیں- 
مجلس کے اختتام پر بعض مخلص احباب سے بالمشافہہ ملاقات ہوئی- ان میں محترم انظر نبی کا نام یاد آ رہا ہے جو سنٹرل یونیورسٹی میں ڈاکٹر شکیل الرحمان کے جمالیاتی نظریات پر تحقیقی مقالہ لکھ رہے ہیں- دوسرے نوجوان عامر احمد نائیک تھے- یہ بھی سنٹرل یونیورسٹی میں صحافت کے شعبے میں زیرِ تعلیم ہیں- دونوں نوجوانوں کے چہرے مہرے بتا رہے تھے کہ یہ علمی و ادبی ذوق رکھتے ہیں- بارہمولہ کے محمد امین صاحب سے بھی ملاقات ہوئی- یہ بڑے مخلص احباب میں سے ہیں- مجمع میں کئی نامی گرامی لوگ بھی تھے- شرکاء مجلس نے بڑے غور سے تقاریر سماعت کیں- 
ظہر کی نماز مقامی جامع مسجد میں ادا کی گئی- مہمانوں کو آسی صاحب کے دولت کدہ میں ٹھہرایا گیا جہاں ان کی پُرتکلف دعوت سے تواضع کی گئی- تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب بھی تشریف لائے- وہ سب سے بڑے تپاک سے ملے- ڈاکٹر صاحب موصوف کہنا چاہیے کہ اسلامی معلومات کا دائرۃالمعارف ہیں- یہ صاحبِ تصانیف بھی ہیں- جب بولتے ہیں تو علم کی ندیاں بہاتے ہیں - میں نے تقریباً ان کی تمام تصانیف کی ورق گردانی کی ہے اور بفضلہ تعالیٰ کافی فائدہ اٹھایا ہے- ان کی موجودگی سے مجلس زعفرانِ زار بن گئی- مختلف موضوعات پر اہل علم کی نگارشات و تحقیقات سامنے آئیں- ڈاکٹر غلام قادر صاحب' مولانا شوکت صاحب اور محترم آسی صاحب تنیوں اصحاب فارسی کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں انہوں نے دوران گفتگو حافظ' سعدی' رومی' جامی' عطّار' سنائی' غالب وغیرہ اکابر کے بکثرت فارسی اشعار پڑھے- کچھ دیر کے لیے محسوس ہوا کہ زمانے نے ہزاروں کروٹیں لے کی ماضی کا رُخ کیا ہے اور ہم قدیم ایران کی کسی ادبی مجلس میں بیٹھے ہیں اور ان بزرگوں سے مستفید ہو رہے ہیں- ہماری حالت سعدون المجنون کے ان اشعار کی سی ہو رہی تھی: 

 يا طالب العلم ههنا و هنا
و معدن العلم بين جنبيكا
ان كنت تبغي الجنان تدخلها
فاذرف الدمع فوق خديكا
و قم اذا قام كل مجتهد
وادع لكيما يقول لبيكا

( اے علم کے طلبگار! یہاں تمہاری پسلیوں کے درمیان علم کا خزانہ ہے ' اگر جنت میں داخلہ چاہتے ہو تو رخساروں کو آنسووں سے تر کردو' اٹھو جب (میدانِ علم کا) ہر محنتی اٹھے اور (علم کی طرف) آواز لگاؤ تاکہ وہ لبیک کہہ سکے-

ڈاکٹر غلام قادر صاحب کی ہر بات سے اتفاق ہونا ضروری نہیں البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ وادی کے علمی و ادبی منظر نامے میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا ایک سمندر ہیں- 
مجلس یوں ہی چلتی رہی' وقت کا پتہ ہی نہیں چلا کیسے گزرا تاآنکہ عصر کی نماز کی اذان ہوئی- ہم نے عصر آسی صاحب کے دولت کدہ پر ہی ادا کی-
مولانا غلام محمد پرے صاحب کو راجوری کا سفر درپیش تھا انہوں نے اس دوسری مجلس میں شرکت نہیں کی- 
عصر کے بعد قافلہ بطرف سرینگر روانہ ہوا- واپسی پر پھر سے عمر فاروق سے ملاقات کا ارادہ تھا انہیں فون کے ذریعے مطلع بھی کیا لیکن ممکن نہیں ہوسکا کیونکہ اہل تشیع کے ماتمی جلوس کی وجہ سے تاپر سے آگے پولیس اور فوج نے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی- نتیجتاً ہمیں براہِ نائید کھائی سے ہوکر آنا پڑا- کافی لمبا سفر کرکے' ڈیڑھ گھنٹے کا سفر تین گھنٹوں میں طے کرکے بالآخر عشاء کے وقت ہم سرینگر کے حدود میں داخل ہوگیے- ہرچند تعب و تکان سے بدن چور تھا تاہم مولانا شوکت صاحب سے استفادہ نے راحت کا سامان کیا- 

(شکیل شفائی)


Views : 294

Leave a Comment