"پوچھ کر چلو "
پوچھ کر چلو ایک ایسا جملہ ہے جو سراسر حکمت پر مبنی ہے- لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کن سے پوچھ کر چلنا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ اہل علم اور مجرب لوگوں سے ۔ اس پر قرآن کریم کی آیت "فسعلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون" بھی دلالت کرتی ہے۔تاہم آجکل مسلم معاشرےمیں اس چیز کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ وہ نبی علیہ السلام سے پوچھ کر ہرعمل کرتے تھے ۔وہ وہی عمل کرتے تھے جسکی تائید قول نبی ،فعل نبی یا تقریر(تائید) نبی سےہوتی تھی۔پوچھ کر چلنے کا زیادہ اہتمام تلقی دین(دین لینے) کے حوالے سے زیادہ ہی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ دین کا تعلق ہماری آخرت سے ہے اور مسلمان کو آخرت کے معاملے میں بہت ہی حساس رہنا چاہیے۔اسی پس منظر میں صاحب ہدایہ سے منقول ہےکہ پہلےزمانے میں شاگرد اپنا تعلیمی معاملہ استاد کے سپرد کرتا تھا ۔ اسکی تائید حضرت عبد اللہ بن عباس ؓکےاس مقولےسے بھی ہوتی ہے کہ علم کا احاطہ نہیں ہو سکتا،لہٰذا علم میں انتخاب سے کام لو،اور تعلیم المتعلم میں لکھا ہے کہ علم کا انتخاب اپنی رائے سے نہ کرے بلکہ استاذ ہی سے انتخاب کروانا چاہیے۔ اسی طرح دنیاوی معاملات میں کسی مجرب یعنی تجربہ کار سے پوچھنا بھی شارح علیہ السلام کی سنت سے ثابت ہے ۔اس معاملے میں مصنوعی زیرہ پوشی یعنی پولینیشن والی روایت ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔آپ ﷺ نے کچھ لوگوں کوزیرہ پوشی کا مصنوع طریقہ اختیار کرتے دیکھا تو فرمایا کہ اگر تم لوگ ایسا نہ کرو تو شایدبہتر ہو ! آپ ﷺ کے ایسا فرمانے پر لوگوں نے اس سال وہ عمل نہ کیا تو اس کے نتیجے میں فصل واضح طور پر کم ہوئی۔ اس پر ان لوگوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ اس سال ہم نے تابیر نخل کے مروّجہ طریقے پر عمل نہیں کیا تو ہماری فصل کم ہوئی ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاَمْرِ دُنْیَاکُمْ یعنی آپ لوگ اپنے دنیوی امور کے بارے میں مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ حضور ﷺ کے اس فرمان کا مقصد اور مفہوم یہی ہے کہ دنیوی معاملات کے مختلف شعبوں میں تم لوگوں کو ایسے تجربات حاصل ہیں جو مجھے حاصل نہیں اور میں تم لوگوں کو ان معاملات میں تعلیم دینے کے لیے مبعوث بھی نہیں ہوا۔ میں تم لوگوں کو زراعت کے اصول سکھانے کے لیے نہیں آیا۔ میں تو تم لوگوں کو ہدایت دینے کے لیے آیا ہوں اور یہی میری رسالت کا بنیادی مقصد اور موضوع ہے۔لہذا دنیوی امور میں تم اس کے ماہرین سے مشورہ کیا کریں اور دینوی امور میں میری اتباع کرو کیونکہ دین کے معاملات میں, میں وہ جانتا ہوں جو آپ نہیں جانتے۔
اس مختصر سی تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ دینی معاملات میں بھی ٹھیک اسی طرح اہل علم و تجربہ کا پابند رہنا چاہیے جس طرح ہم دنیاوی امور میں اس کے ماہرین کی آراء کا پابند رہتے ہیں ۔اللہ ہم عمل کی توفیق عطا فرمائے۔