اسلام کے آفاقی اصول ہی اسلاف کا مسلک تھا
ز اجتہاد عالمان کم نظر
اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
یہ علامہ اقبال رحمہ اللہ کا شعر ہے ۔ اس شعر میں علامہ رفتگان یعنی اسلاف کی اقتداء کرنے کو ایمانی اعتبار سے محفوظ تر بتاتے ہیں۔ اس کے کئی وجوہ ہو سکتے ہیں ایک وجہ یہ کہ ان کی تحقیق کا مقصد احقاق حق ہوتا تھا اور وضوح حق کے بعد پھر اس کے مطابق عمل کرتے تھے ۔ وہ اپنی تحقیق کو بایں معنی قابل عمل سمجھتے تھے کہ وہ اس میں اقرب الی الصواب ہونے کے تمام اوصاف تحقیقی شرائط کے ساتھ پاتے تھے۔ لہذا وہ اپنے آپ کو صواب پر سمجھتے ہوئے دوسروں کی تحقیق کو یکسر رد کیے بغیر ان کی تحقیق کو محتمل بالخطا سمجھتے تھے۔ اور جس چیز میں محقق کو یہ احتمال ہو کہ اس میں خطا کا امکان ہے اس پر واجب ہے کہ رفع احتمال تک اس پر عمل نہ کرے ۔اگر وہ رفع احتمال کے بغیر کسی امر کو قبول کرتا ہے تو محقق نہ رہا ۔ لہذا محقق اپنے ہم عصر علماء کی تحقیقات کو قبول نہ کرنے میں تب تک معذور سمجھا جائے گا جب تک وہ تحقیقی اور علمی اعتبار سے مطمئن نہ ہوجائے۔
یہی وجہ ہےکہ وہ دوسروں کے اجتہادات کی تردید کیے بغیر اپنے موقف پر ڈٹے رہتے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حق تک پہنچنے میں خالص نیت کے ساتھ جو تحقیق و تنقیح کی جاتی ہے اس میں خطا پر بھی اجر ملتا ہے ۔ لہذا جس خطا پر ثواب ملے وہ خطا نہیں رہی جب تک کہ اس کا وضوح خطا کندہ پر نہ ہوجائے۔ لہذا ایسے خاطئین کسی بھی حال میں قابل ملامت نہیں۔
ہمارے اسلاف اپنے مخالف موقف رکھنے والوں کے اخلاص پر کبھی شک نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو معذور سمجھتے تھے کیونکہ تحقیقی میدان میں شاگرد کو اپنے استاد سے اختلاف کرنے کا حق ہوتا ہے اور اختلاف کرنے کےباوجود بھی وہ شاگرد ہی رہتا ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمھما اللہ کا حضرت امام اعظم رحمہ اللہ سے بہت سارے مسائل میں اختلاف ہے ۔اس اختلاف رائے نے ان کو ایک دوسرے سے کبھی الگ نہیں کیا ۔
علامہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مولانا رضا احمد خان صاحب نے دیانتا سمجھا کہ ہم (کسی معاملہ میں) حق پر نہیں ہے اگر رد نہ کرتا تو عند اللہ مجرم ٹھرتا ۔۔۔۔۔۔ لیکن جو الزامات ہمارے اوپر لگائے گئے ہیں ہم ان سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔امام شافعی رحمہ اللہ کا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مرقد مبارک پر رفع یدین کا ترک کرنا اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق نماز ادا کرنا اپنی تحقیق جو کہ ان کے نزدیک راجح تھی کے برعکس مرجوح پر عمل کرنا اس بات کی بین دلیل ہے کہ ہمارے اسلاف کے نزدیک اکرام سلف راجح تر تھا۔ علامہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی مجلس میں ایک غیر مقلد آیا اور انہوں نے علامہ کا علمی دباؤ محسوس کیا اور نمازمیں رفع یدین کو ترک کیا ۔علامہ نے ان کو کہا کہ آپ نے رفع یدین کو میرے وجہ سے کیوں ترک کیا ۔ آپ کے نزدیک یہ سنت ہے اور آپ میری وجہ سے سنت کو ترک کر رہے ہیں ۔ایسا مت کرو ،رفع یدین کیجیے۔ مولانا قاسم شاہ بخاری رحمہ اللہ سے ہمارے علاقے کے ایک محب نے وظیفہ شیئا للہ اور ندائے یا رسول اللہ صلعم سے متعلق پوچھا تو حضرت نے اس سے کچھ جواب نہیں دیا بلکہ کچھ دیر بعد اس سے کہا کہ میرے کوٹ میں ایک ٹیبلٹ ہے ذرا اسے نکال کر لاؤ ۔ اس نے کوٹ سے ٹیبلٹ نکالا اور حضرت کو پیش کرنے لگا ۔حضرت نے اس سے کہا کہ کھاؤ اس نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت یہ تو آپ کی گولی ہے اور یہ آپ ہی لے سکتے ہیں میں کیونکر لوں ۔ حضرت نے درجواب فرمایا کہ جس طرح آپ میری یہ گولی نہیں کھا سکتے اسی طرح آپ کے لیے یہ وظیفہ نہیں یہ اخص الخواص کے لیے ہے یعنی ان کے لیے اس کی گنجائش ہوسکتی ہے اور آپ کے لیے قطعا نہیں ۔ کیونکہ اس کا تعلق حال سے ہے اور حال کے لیے صاحب حال ہونا ضروری ہے اور فی الحال آپ صاحب حال نہیں ۔ جس طرح یہ ٹیبلٹ مجھے نفع دے گی اور کو آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔اسی طرح یہ وظیفہ خواص کو نفع دے سکتا ہے اور عوام کو نقصان ۔ اسی طرح حضرت شاہ ہمدان رحمہ اللہ کا رائج فقہ حنفی کی رعایت کرنا اور باشندگان کشمیر کو فقہ حنفی کے تحت دین سکھانا جبکہ وہ خود فقہ شافعی کے پیروکار تھے سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ رفتگان کا مذہب و مشرب کسی خاص فکر یا مسلک کی آبیاری نہیں بلکہ وہ اسلام کے آفاقی اصولوں اور اقدار کے ترجمان تھے۔
البتہ ایضاح حق ہونے کے بعد خطا پر اسرار کرنا اچھی بات نہیں۔ فورا حق کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور یہ رجوع اس کی خطا کو محو کرتا ہے ۔کسی عرب شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
إن يــــــــؤبْ لا ولا عليه ملامهْ
حسنات الرجوع تذهبُ عــــنهُ
سيئاتِ الــخطا وتنفي الملامه
إنما المخطـئ المسيئ من إذا ما
وضــــح الحق لج يحمي كلامهْ