Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

امام صاحب کا فقہی منہج قرآن،سنت،تعامل صحابہ اور پھر قیاس(اجتھاد)


  • سالک
  • Wednesday 20th of December 2023 03:59:36 PM

امام صاحب کا فقہی منہج قرآن،سنت،تعامل صحابہ اور پھرقیاس(اجتھاد)

ابو عبد اللہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ایک بڑے پایہ کے فقیہ و محدث تھے ۔ وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے معاصرین میں سے تھے ۔انہوں نے ضبط و روایت میں اس قدر شہرت پائی کہ شعبہ بن حجاج ، سفیان بن عیینہ اور یحیی بن معین جیسے محدثین نے آپ کو امیر المومنین فی الحدیث کے لقب سے سرفراز کیا ہے۔ ان کے زہد و ورع اور ثقاہت پر سب کا اتفاق ہے۔جن ائمہ فقہ وحدیث کوزمرۂ تبع تابعین کا گل سرسبد کہا جاسکتا ہے، ان میں ایک امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بھی ہیں علم وفضل کے لحاظ سے ان کا شمار ان ائمہ مجتہدین میں ہوتا ہے جوایک جید فقہی مسلک کے بانی تھے۔ اتنے بڑے امام ہونے کے باوجود وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اپنے زمانے میں افقہ و اعلم مانتے تھے ۔ ان کے علمی مقام کو تسلیم کیا۔ ان کی کتابوں سے استفادہ کرتے تھے ۔ محمد بن بشیر کہتے ہیں کہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ کے پاس آتا جاتا رہتا تھا۔ جس وقت میں امام صاحب کے پاس آتا تو وہ فرماتے کہاں سے آرہے ہو تو میں جواب دیتا سفیان ثوری ر حمہ اللہ کے پاس سے آرہا ہوں اس وقت امام صاحب فرماتے تم ایسے شخص کے پاس سے آرہے ہو کہ اگر اس زمانہ میں علقمہ رحمہ اللہ اور اسود رحمہ اللہ موجود ہوتے تو اس جیسے شخص کے محتاج ہوتے ۔اور پھر جب میں سفیان رحمہ اللہ کے پاس جاتا تو وہ دریافت کرتے کہا سے آرہے ہو تو میں کہتا کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پاس سے آرہا ہوں تو سفیان رحمہ اللہ فرماتے کہ تم ایسے شخص کے پاس سے آئے ہو جو روئے زمین کے لوگو ں میں افقہ ہے۔ چونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کااپنے زمانے کا افقہ ترین شخص ہونا امام صاحب کے معاصر فقہاء نے تسلیم کیا ہے لہذا امام صاحب کے معاندین نے امام صاحب پر الزام لگایا کہ وہ قیاس کو قرآن و سنت پر ترجیح دیتے تھے اور اس طرح یہ مضموم کوشش کی کہ ان کا سارا فقہی ذخیرہ ان کی ذاتی رائے کا کھیرہ ہے ۔ تاہم یہ علمی اعتبار سے ثابت نہیں ہو سکا ۔ بر صغیر کے ایک جید محقق ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ نے موفق اور صمیری کے حوالہ سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ جب ان پر اجتہاد کرنے کا اعتراض کسی نے کیا تو انہوں نے کہا کہ"میں قرآن ہی کو لیتا ہوں اگر اس میں حکم ملے ،اور اگر اس میں نہ ملے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتا ہوں ۔اور اگر قرآن اور سنت میں۔ حکم نہ ملے تو آپ کے صحابہ رضہ اللہ عنھم اجمعین کے اقوال پر نظر ڈالتا ہوں اور اگر ان میں باہم اختلاف ہو تو خود کسی ایک کو ترجیح دیتا ہوں ۔لیکن اگر صحابہ رضہ اللہ عنھم اجمعین اور غیر صحابہ میں اختلاف ہو تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے اقوال کو ہرگز نہیں چھوڑتا ہوں ۔ہان جب رائے ابراھیم رحمہ اللہ اور شعبی رحمہ اللہ اور حسن بصری رحمہ اللہ اور ابن سیرین رحمہ اللہ اور سعید بن المسیب رحمہ اللہ وغیرھم کی ہو تو جس طرح ان کو اجتہاد کا حق ہے ،مجھے بھی ہونا چاہیے

اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کبھی بھی قرآن ،سنت اور تعامل صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر اپنی رائے کو ترجیح نہیں دی ہے ۔ البتہ انکے یعنی امام صاحب کے معاصرین کے اجتہاد پر ان کا اجتہاد کئی ایک وجہ سے قابل ترجیح اسلیے تھا کہ ایک تو ان کا اپنے دور میں افقہ ہونا اس دور کے کبار مجتہدین نے تسلیم کیا ہے تھا دوسرا یہ کہ وہ اپنی رائے پر اپنی قائم کردہ فقہہ اکیڈمی میں اپنے شاگردوں سے جو کہ وقت کے کبار فقہاء تھے سے بھی بحث تمحیص کرتے تھے اور جب سب اس کے ساتھ اتفاق کرتے تھے تو پھر اس پر فیصلہ سنایا جاتا تھا ۔ اب یہ انفرادی رائے نہیں رہتی بلکہ ایک اجماعی فیصلہ بن جاتا تھا ۔اور انفرادی رائے پر اجتماعی فیصلہ کو فوقیت دینے پر تمام اصحاب علم متفق ہیں۔ امام ابوحنیفہ اس فقہی منہج سے متعلق صدر الائمہ موفق بن احمد مکی (متوفی 578 ھجری) نے اپنی کتاب "مناقب ابی حنیفہ للموفق" میں لکھا ہے کہ وہ (اپنی اکیڈمی کے تمام فقہاء کے سامنے مسئلہ) پیش کرتے اور ہر ایک کی معلومات اس کے حل کے لیے دریافت کرتے اور اس مسئلے سے متعلق اپنی رائے بھی پیش کرتے اور مہینہ بھر بلکہ اس سے بھی زیادہ مناظرہ جاری رہتا اور جب کسی رائے کے دلائل پوری طرح واضح ہو جاتے تو پھر ابو یوسف اس کو لکھ لیتے ۔

اس تمام تر تفصیل کے لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حدیث پر قیاس کو ترجیح دیتے یہ صرف اور صرف مسلکی تحذب کا شاخسانہ ہے جس کی کوئی تاریخی حقیقت نہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے اسلاف کی تنقید کرنے سے بچائے۔اور ان کے نقوش پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


Views : 288

Leave a Comment