Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

احسن الشعر اکذبہ کی معنوی جہتیں


  • Dr Shakeel Shifaie
  • Sunday 26th of November 2023 11:27:29 AM

" أحسن الشعر أکذبه " کی معنوی جہتیں

رسمی طالب علمی کے زمانے میں' اس سبب سے کہ شاعری سے غایت درجہ شغف تھا' أحسن الشعر أكذبه ( سب سے بہترین شعر وہ ہوتا جو جھوٹ پر مبنی ہو) سے بڑی پریشانی لاحق ہوتی تھی- مذہبی پسِ منظر رکھنے کی وجہ سے خواہش یہی رہتی تھی کہ یہ قول شعری منظر نامے میں موجود نہ رہے کیونکہ اس قول کی حقیقی معنوی جہتوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بڑے کبار مرتاض بزرگ شعراء کو جھوٹا ماننا لازم آتا تھا- ایک مدت تک یہ قول فکر و نظر میں کھٹکتا رہا اور اسے نقل کرنے میں بھی حد درجہ بخل برتتا رہا لیکن رہوارِ عمر کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی معنوی جہتیں بھی کھلتی چلی گئیں- 
یہ قول مختلف الفاظ کے ساتھ نقل ہوا ہے مثلاً " أعذب الشعر أكذبه " ( سب سے زیادہ پُر لطف شعر جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے) " أجمل الشعر أكذبه " (سب سے خوبصورت شعر جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے) 
اموی دورِ خلافت کے شاعر زیاد بن ابیہ کا یہ قول بھی نقل ہوا ہے : 

" الشعر كذب و هزل و أحقّه بالتفضيل أكذبه " 
( شعر جھوٹ اور مذاق ہوتا ہے - پھر ان دو میں بھی افضل ہونے کا حقدار وہ شعر ہے جو جھوٹ ہو) 
اس قول کے یہ معنی بیان کیے گئے ہیں :
" الشعر يتصف بالكذب من خلال قدرة الشاعر على اختلاق الأشياء و توليدها من العدم " 
(  شعر اس معنی میں جھوٹ ہوتا ہے کہ شاعر فن شاعری پر اپنی قدرت سے اشیاء کو عدم سے وجود میں لاتا ہے) 
اس کا مطلب یہ ہے کہ شاعر اپنے تخیل کی بلند پروازی اور فن شعر پر قدرت کے سبب بہت سی چیزوں کو تخلیق کرتا ہے جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہوتا- اس کی وضاحت عباسی خلیفہ ہارون رشید کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے اصمعی سے کہا تھا : 

١" إن كنت صادقاً فقد أتيت عجباً و إن كنت كاذباً فقد أتيت أدباً "

( اگر تم ان (قصوں کو بیان کرنے) میں سچے ہو تو تم نے عجائب بیان کیے ہیں اور اگر تم جھوٹے ہو (مطلب اگر یہ قصے محض تمہارے ذہن کی پیداوار ہیں) تو تم نے ادب پیدا کیا ہے) 

قدامہ بن جعفر نے بھی شعر میں غلوّ کی تحسین کی ہے- جب تک شعر میں غلو نہ پایا جائے اس میں تاثیر پیدا نہیں ہوتی- 
شاعری میں فن شعر پر عبور ہونے کے علاوہ نقّادوں نے جن امور کو ضروری قرار دیا ہے ان میں ایک تخیل کی بلندی ہے - شاعر کا تخیل جتنا بلند ہوگا وہ اتنے ہی بلند مضامین پیدا کر سکتا ہے- اس کا نقضِ اخلاق سے کوئی تعلق نہیں- بعض نقّادوں نے اس قول سے گھبرا کر شعر میں سچائی کی غیر ضروری شرط عائد کردی- جب شاعر اپنے تخیّل سے کام لے کر کوئی مضمون پیدا کرتا ہے خواہ اس کا تعلق عشق سے ہو' ذات سے ہو' کائنات سے ہو' حالات سے ہو یا اخلاق سے ہو تو اس میں تخیّل کی کارفرمائی بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے - اب ظاہر ہے تخیّل سے جو شے تولید ہوگی خارج میں اس کے وجود کے امکانات بہت ہی کم ہوں گے- اس اعتبار سے وہ جھوٹ پر مبنی ہوگا اور یہی جھوٹ شعر کی جان قرار پاتا ہے-
شاعر اپنی قوّتِ تخیّل سے غیر مرئی اشیاء کو مرئی بناتا ہے' بے جان چیزوں میں جان ڈالتا ہے' درخت محوِ رقص ہوتے ہیں' پرندے غزل خواں ہوتے ہیں' بادل جھومتے ہیں' دریا باتیں کرتے ہیں' حیوانات گفتگو پر قادر ہوتے ہیں یہاں تک کہ ہر اچھی بُری صفت مختلف پیکروں میں ظہور پاکر ہماری فکر و نظر کا حصہ بنتی ہے - حقیقت ِ نفس الامری میں یہ سب جھوٹ ہوتا ہے لیکن اسی جھوٹ میں شعر کا حُسن پوشیدہ ہوتا ہے - 
شیخ سعدی نے اپنی کتاب " گلستان " میں بہت سے حکایتیں بیان کی ہیں- ان میں حسنِ اخلاق کے دُرّ اور پند و نصائح کے جواہر بکھیر دیے ہیں ان حکایات میں اصلاً کوئی سچائی نہیں ملتی - لیکن اسی " کذب " میں بلند اخلاقیات کی جمالیات مخفی ہے-  یہ " کذب " نہ ہو تو  شعری اظہار کے رویوں میں مضامین کی ترسیل کرنا تقریباً ناممکن ہے- 
گلستان کا ایک مشہور قطعہ ہے:

گِلے خوشبوئے در حمّام روزے
رسید از دستِ محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دلِ آویزِ تُو مستم
بگفتا مَن گِلے ناچیز بودم
ولیکن مدّتے با گُل نشستم
جمالِ ہم نشیں در مَن اثر کرد
وگرنہ مَن ہماں خاکم کہ ہستم

( ایک دن حمام میں ایک خوشبو دار مٹی میرے ہاتھ میں ایک محبوب کے ہاتھ سے آئی -میں نے اُس سے کہا کہ تُو مشک ہے یا عبیر ہے کہ تیری دلکش خوشبو سے مست ہو رہا ہوں - اُس نے کہا کہ میں ایک ناچیز مٹی تھی لیکن ایک زمانے تک میں پھول کے ساتھ رہی- ساتھی کے حُسن نے مجھ میں اثر کیا ورنہ میں تو وہی مٹی کی مٹی ہوں) 

قطع نظر اس سے کہ اس قطعے میں حقیقت ِ حیات کے ایک  دلآویز پہلو کی داستان بیان ہوئی ہے سوال یہ ہے کہ یہ مکالمہ سعدی اور مٹی کے مابین حقیقت ِ واقعہ کا اظہار ہے یا قوّتِ تخیّل کی پرواز- جواب یہی ہے کہ یہ حقیقت ِ واقعہ کا اظہار نہیں ہے کیونکہ مٹی سے عالمِ حقیقت میں گفتگو خارج از امکان ہے لہذا یہ تخیّل کا کرشمہ ہی ہوسکتا ہے - تو کیا ہم یہ مان کر چلیں کہ سعدی نے جھوٹ گھڑ لیا ہے جس پر وہ عنداللہ ماخوذ ہوسکتے ہیں- ممکن ہے بعض ظاہر بین ایسا ہی سمجھیں لیکن اس کا کسی شرعی جھوٹ سے کوئی تعلق نہیں- یہ مضمون سعدی نے شعر کے اسلوب میں کسی مقصد کے لیے پیدا کیا- اسے ظاہر پر محمول کرنا غلط ہے-  " گلستان" اس قسم کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے- 
عنترہ بن شداد بڑے قادر الکلام عرب شعراء میں گزرے ہیں- کہتے ہیں :

أشارت  إليها  الشمس  عند غروبها
تقول إذا اسودّ الدجىٰ فاطلعى بعدى
و قال  لها  البدر  المُنير  ألا اسفري
فإنك مثلي في الكمال و في السعد
( آفتاب نے غروب ہوتے وقت میرے محبوب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب راہ سیاہ ہو جائے تو تُم میرے بعد طلوع ہونا( اور اپنے حُسن کا نور بکھیر دینا) اور چودھویں کے روشن چاند نے میرے محبوب سے کہا تُو اور چمک ' بیشک تُو کمال اور سعادت مندی میں میری طرح ہے) 

یہ مکالمہ بھی حقیقت کی دنیا کا نہیں ہے بلکہ شاعر کے تخیّل کے کمالات میں سے ہے- محبوب کے حسن و جمال اور خوبصورتی کو بیان کرنے کا شاعرانہ اعجاز ہے- محبوب کی یہ تعریف نثری پیرائے میں کرکے دیکھ لیں تو مضمون اپنے مقام سے گرتا ہوا نظر آئے گا- 
علامہ اقبال کے کلام میں یہ مکالمات و حکایات بکثرت پائی جاتی ہیں- انہوں نے ادبِ اطفال میں جو تخلیقات پیش کیں بیشتر اسی اسلوب میں ہیں- ایک پہاڑ اور گلہری' ایک پرندہ اور جگنو' ایک گائے اور بکری بلکہ  شکوہ جوابِ شکوہ بھی اسی قبیل سے ہے- 
" ایک پرندہ اور جگنو " سے نمونتاً چند شعر نقل کرتا ہوں:

سرِ شام اک مرغِ نغمہ پیرا
کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا
چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر
اُڑا طائر اسے جگنو سمجھ کر
کہا جگنو نے او مرغِ نوا ریز
نہ کر بے کس پہ منقارِ ہوس تیز
تجھے جس نے چہک' گُل کو مہک دی
اُسی اللہ نے مجھ کو چمک دی
لباس نور میں مستور ہوں میں
پتنگوں کے جہاں کا طور ہوں میں

بخوبی طوالت اسے پورا نقل نہیں کر سکتا- یہ نظم شاعر کی قُوّتِ تخیّل کا شاہکار ہے لیکن یہ بھی عالمِ حقیقت کا اظہارِ بیان نہیں بلکہ ایک مضمون ( کہ انسان اپنی طاقت کے نشے میں کسی پر ظلم روا نہ رکھے - دنیا کی متنوع اور مختلف اشیاء میں تخالف کی نہیں توافق کی نسبت تلاش کرنی چاہیے) کا شعری اظہار ہے- ہر چند بظاہر یہ واقعہ جھوٹ پر مبنی ہے لیکن اسی سے شاعری عبارت ہے- افلاطون نے یہی حقیقت سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ورنہ وہ یہ نہ کہتا :
"شاعری ہر جھوٹ کی ماں ہے"

غالب کا ایک نہایت عمدہ شعر ہے  :

" کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گُم کیجے ہم نے مدّعا پایا

شعر کا اسلوب مکالماتی ہے- محبوب کے مبہم اقرار کو مکالمے کی صورت میں پیش کیا- ورنہ یہ شعر حقیقت ِ واقعہ کے مطابق نہیں ہے - محبوب کا یہ کہنا " دل اگر پڑا پایا " خلافِ واقعہ ہے - دل راستے پر پڑا ہوا نہیں ہوتا- پھر غالب کا فرمانا " دل کہاں کہ گُم کیجے " میں دو باتیں خلافِ واقعہ ہیں: (۱)" دل کہاں؟ " مطلب میرے سینے میں دل ہی کہاں ہے؟ گویا غالب کے سینے میں دل نہیں ہے (۲) " گُم کیجے " اس کا مطلب دل گُم بھی ہو سکتا ہے - غالب کے سینے میں چونکہ دل نہیں ہے لہذا وہ گُم بھی نہیں ہوا- پورا شعر ہی جھوٹ پر مبنی ہے لیکن اس کے باوجود غالب کے بہترین شعروں میں ایک ہے جس میں نہایت عمدہ اور معجزانہ پیرایے میں عشقیہ واردات کے ایک پہلو کو بیان کیا گیا ہے کہ محبوب بظاہر انکار کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ بھی گرفتار ِ محبت ہوتا ہے- 
شاعری میں جھوٹ کی معنوی جہتوں کا اسلوب مختلف ہوسکتا ہے- کبھی تمثیل کے ذریعے' کبھی حُسن تعلیل کی صنعت کو استعمال کرکے مضمون کی ترسیل ہوتی ہے' کبھی تشبیہ و استعارہ سے کام لیا جاتا ہے' کبھی کلام مجاز کے پیراہن میں ظہور کرتا ہے' کبھی اشارات و کنایات سے معنی کی تخلیق ہوتی ہے- ان سب اسالیب و ہیئات میں ضروری نہیں کہ بیان کیا گیا واقعہ' حقیقت' خبر وغیرہ نفسِ حقیقت کے کسی متعین رُخ پر مبنی ہو - یہ صحیح ہے کہ اس سے مستفاد و مستنبط نتیجہ ہماری حقیقی دنیا ہی سے متعلق ہوتا ہے تاہم شاعری کو صرف اس بنا پر راندہِ درگاہ قرار دینا کہ اس میں " جھوٹ " کی آمیزش ہوتی ہے پورے شعری منظر نامے سے بے خبری اور عدمِ آگہی کو مستلزم ہے- ایسے " خدا پرستوں " سے میں یہی کہوں گا:

 و كم من كلامٍ قد تضمّن حكمة
  نال الكساد بسوقِ من لا يفهم 

( کتنی ہی حکمت سے لبریز باتیں کساد بازاری کا شکار ہوگئیں کیونکہ انہیں سمجھنے والا کوئی نہیں تھا) 

(شکیل شفائی)


Views : 403

,Syed Nasir ul islam Andrabi

ماشاءاللہ علمی تبصرہ

2023-11-26 23:26:01


Leave a Comment