کورونا بیماری ایک تنبیہ ہے عذاب نہیں
عقائد کے اعتبار سے بندگان خدا کی قسمیں دنیا کے اندر مختلف قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔کچھ لوگ اس کائنات کو بے خدا کائنات مانتے ہیں ایسے لوگوں کو ڈکشنری کی زبان میں دھریہ Athiest کہتے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خدا کی اس کائنات میں کچھ شرکاء partners بھی ہیں ان کو مشرک polythiest کہتے ہیں،کچھلوگ کائنات کو صرف ایک خالق اور مالک کی تخلیق مانتے ہیں۔ کچھ لوگ کائنات کو صرف ایک خالق اور مالک کی تخلیق مانتے ہیں ان کو مواحد کہتے یعنی Monothiest کہتے ہیں۔ان لوگوں کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ کائنات پیدا کرنے کے بعد وہ اس سے لاتعلق نہیں ہوگیا۔اس کے علاوہ اور ایک قسم کو لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اتنا تو مانتے ہیں کہ کائنات کو پیدا کرنے والا صرف ایک خدا ہے لیکن پید ا کرنے کے بعد وہ اس کائنات سے ایسے ہی لاتعلق ہوگیا بلکہ وہی ہر وقت اس سارے نظام کو کنٹرول کر رہا ہے۔ جیسے ایک گھڑی ساز گھڑی بنانے کے بعد اپنی بنائی ہوئی گھڑی سے لا تعلق ہوجاتاہے اور گھڑی خود بخود چلتی رہتی ہے۔ انچار قسم کے لوگوں میں سے ہمارا مخاطب وہ طبقہ ہے جو خدا کو خالق کائنات ماننے کے بعد اس بات پر پورا یقین رکھتا ہے کہ وہی تنہا اس پورے عالم کو کنٹرول کررہا ہے۔اور اس نے پورے عالم کو ایک منصوبے کے تحت صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے اس کے علم میں داخلی طور جو خوب و زشت تھا اور جس کو وہی جانتا تھا اس کو خارجی وجود بخشنے اور دونوں صفات کو ایک خارجی وجود بخش کر مشاہدہ میں لائے۔ اس بات کو مولانا رومی ؒ نے مثنوی دفتر دوم میں بادشاہ کا دو غلاموں کے امتحٓن کرنے کے ذیل میں اس طرح بیان کیا ہے کہ
گفت شاہ حکمت در اظہارِ جہاں
آنکہ دانستہ بروں آید عیاں
(ترجمہ) شاہ نے فرمایا کہ دنیا کو پیدا کرنے کہ حکمت یہ ہے کہ اللہ کا جانا ہوا مشاہدہ میں آجائے۔(ظاہر ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ اسکو پیدا نہ کرتا جس کو وہ جانتا تھا تو سب کچھ پوشیدہ ہی رہتا۔انسان کو کام پر اسی لیے مجبور کیا تاکہ اسکی پوشیدہ نیکی اور بدی وجود اور مشاہدہ میں آجائے) دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ ؎
بہر اظہار ہست ایں خلق جہاں
تا نماند گنج حکمتہا نہاں
یعنی دنیا کو پیدا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ داخلی حکمت کے خزانوں کا خارجی انبار میں صاف و شفاف طریقے سے اظہار ہوجائے۔ مختصر یہ کہ اللہ کو اپنی معلومات کو جاری وجود بخشنا تھااسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسانوں کو آزمائش کے مراحل سے گذارنا چاہا۔اس پوری آزمائش سے اللہ کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کرنا چاہتا ہے اور ہر ایک کو اس کے کیے کے مطابق اسکے منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے۔ کہ وہ کس انعام یا سزا کا مستحق ہے چنانچہ ہم روز مرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ کسی ایک ہی منصب پر کوئی آدمی فائز کیا جاتا ہے تو وہ پوری دیانت داری کے ساتھ اس منصب کے ساتھ پورا انصاف کرتا ہے اور دوسرا شخص اسی منصب پر فائز ہوکر لوت کھسوٹ اور تباہی مچا دیتا ہے۔اللہ کو اپنے کامل علم کی بنا پر عالم غیب میں سب معلوم تھا اسی معلوم کو مشہود شکل میں پیدا کرکے یہ دکھا نا چاہتا ہے کہ کس صفت کا کونسا سا منطقی انجام ہوتا ہے۔ اب کوئی شخص سوچ سکتا ہے کہ جب اللہ ہی خالق ہے تو وہ خیر کوہی پیدا کیوں نہیں کرتا ہے ساتھ ساتھ شر کو بھی کیوں پیدا کرتا ہے۔ تو اس کاجوجواب مولانا رومی اس طرح دیتے ہیں کہ یہ اللہ کا نقص نہیں بلکہہ کمال ہے۔اگر خا بدصورت کو پیدا نہ کرسکے تو ناقص ہے چنانچہ کورونا بیماری ایک تنبیہ ہے عذاب نہیں!
:عقائد کے اعتبار سے بندگان خدا کی قسمیں
دنیا کے اندر مختلف قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔کچھ لوگ اس کائنات کو بے خدا کائنات مانتے ہیں ایسے لوگوں کو ڈکشنری کی زبان میں دھریہ Athiest کہتے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خدا کی اس کائنات میں کچھ شرکاء partners بھی ہیں ان کو مشرک polythiest کہتے ہیں،کچھلوگ کائنات کو صرف ایک خالق اور مالک کی تخلیق مانتے ہیں۔ کچھ لوگ کائنات کو صرف ایک خالق اور مالک کی تخلیق مانتے ہیں ان کو مواحد کہتے یعنی Monothiest کہتے ہیں۔ان لوگوں کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ کائنات پیدا کرنے کے بعد وہ اس سے لاتعلق نہیں ہوگیا۔اس کے علاوہ اور ایک قسم کو لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اتنا تو مانتے ہیں کہ کائنات کو پیدا کرنے والا صرف ایک خدا ہے لیکن پید ا کرنے کے بعد وہ اس کائنات سے ایسے ہی لاتعلق ہوگیا بلکہ وہی ہر وقت اس سارے نظام کو کنٹرول کر رہا ہے۔ جیسے ایک گھڑی ساز گھڑی بنانے کے بعد اپنی بنائی ہوئی گھڑی سے لا تعلق ہوجاتاہے اور گھڑی خود بخود چلتی رہتی ہے۔ انچار قسم کے لوگوں میں سے ہمارا مخاطب وہ طبقہ ہے جو خدا کو خالق کائنات ماننے کے بعد اس بات پر پورا یقین رکھتا ہے کہ وہی تنہا اس پورے عالم کو کنٹرول کررہا ہے۔اور اس نے پورے عالم کو ایک منصوبے کے تحت صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے اس کے علم میں داخلی طور جو خوب و زشت تھا اور جس کو وہی جانتا تھا اس کو خارجی وجود بخشنے اور دونوں صفات کو ایک خارجی وجود بخش کر مشاہدہ میں لائے۔ اس بات کو مولانا رومی ؒ نے مثنوی دفتر دوم میں بادشاہ کا دو غلاموں کے امتحٓن کرنے کے ذیل میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ؎
گفت شاہ حکمت در اظہارِ جہاں
آنکہ دانستہ بروں آید عیاں
ت شاہ نے فرمایا کہ دنیا کو پیدا کرنے کہ حکمت یہ ہے کہ اللہ کا جانا ہوا مشاہدہ میں آجائے۔(ظاہر ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ اسکو پیدا نہ کرتا جس کو وہ جانتا تھا تو سب کچھ پوشیدہ ہی رہتا۔انسان کو کام پر اسی لیے مجبور کیا تاکہ اسکی پوشیدہ نیکی اور بدی وجود اور مشاہدہ میں آجائے) دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ
بہراظہار ہست ایں خلق جہاں
تا نماند گنج حکمتہا نہاں
یعنی دنیا کو پیدا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ داخلی حکمت کے خزانوں کا خارجی انبار میں صاف و شفاف طریقے سے اظہار ہوجائے۔ مختصر یہ کہ اللہ کو اپنی معلومات کو جاری وجود بخشنا تھااسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسانوں کو آزمائش کے مراحل سے گذارنا چاہا۔اس پوری آزمائش سے اللہ کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کرنا چاہتا ہے اور ہر ایک کو اس کے کیے کے مطابق اسکے منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے۔ کہ وہ کس انعام یا سزا کا مستحق ہے چنانچہ ہم روز مرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ کسی ایک ہی منصب پر کوئی آدمی فائز کیا جاتا ہے تو وہ پوری دیانت داری کے ساتھ اس منصب کے ساتھ پورا انصاف کرتا ہے اور دوسرا شخص اسی منصب پر فائز ہوکر لوت کھسوٹ اور تباہی مچا دیتا ہے۔اللہ کو اپنے کامل علم کی بنا پر عالم غیب میں سب معلوم تھا اسی معلوم کو مشہود شکل میں پیدا کرکے یہ دکھا نا چاہتا ہے کہ کس صفت کا کونسا سا منطقی انجام ہوتا ہے۔ اب کوئی شخص سوچ سکتا ہے کہ جب اللہ ہی خالق ہے تو وہ خیر کوہی پیدا کیوں نہیں کرتا ہے ساتھ ساتھ شر کو بھی کیوں پیدا کرتا ہے۔ تو اس کاجوجواب مولانا رومی اس طرح دیتے ہیں کہ یہ اللہ کا نقص نہیں بلکہہ کمال ہے۔اگر خا بدصورت کو پیدا نہ کرسکے تو ناقص ہے چنانچہ مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں
ہر دوگونہ نقش استادی اوست
زشتی او نیست آں رادی اوست
تا کمال دانشش پیدا شود
منکر استادیش رسوا شود
ورنہ تانند زشت کردن ناقص است
زیں سبب خلاق گبر و مخلص است
(ترجمہ)
دونوں قسم کے نقش اسکی مہارت کی دلیل ہے یہ اسکی برائی نہیں ہے اسکی دانائی ہے۔
تاکہ اسکی دانش کا کمال طاہر ہوجائے اسکی استادی کا منکر رسوا ہے۔
مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں
ہر دوگونہ نقش استادی اوست
زشتی او نیست آں رادی اوست
تا کمال دانشش پیدا شود
منکر استادیش رسوا شود
ورنہ تانند زشت کردن ناقص است
زیں سبب خلاق گبر و مخلص است
(ترجمہ)
دونوں قسم کے نقش اسکی مہارت کی دلیل ہے یہ اسکی برائی نہیں ہے اسکی دانائی ہے۔
تاکہ اسکی دانش کا کمال طاہر ہوجائے اسکی استادی کا منکر رسوا ہے۔
اگر وہ بدصورت کو نہ پیدا کرسکے تو ناقص ہے اسی لیے وہ کافر اور مومن کا پیدا کرنے والا ہے۔
ان دلائل سے واضح ہوجاتاہے کہ اپنی داخلی معلومات کو خارجی وجود بخشنے کا اسکو کامل حق ہے اور خیر و شر کو پیدا کرنا اسکی کی کمال دانشمندی اور مہارت کی دلیل ہے۔
:تخلیق سے اللہ کیا چاہتا ہے
قرآن کے مطابق اس قسم کی تخلیق سے اللہ یہ چاہتاہے کہ مجسمہ خیر انسان کو اللہ اپنے فضل سے جنات کی عالیی شان دنیا میں بسائے اور مجسمہ شر انسان کو اسکے کیے کا مزہ جہنم میں چکھائے۔اس تخلیق سے اللہ کو اپنا کوئی فائدہ مقصود نہیں بلکہ اصحاب خیر پر اپنے فضل و کرم کی بارش برسانا مطلوب ہے۔
من نہ کردم خلق تا سودے کنم
بلکہ تا بر بندگاں جودے کنم
(ترجمہ) میں نے اسلیے نہیں کیا کہ تم سے کوئی نفع حاصل کروں بلکہ بندوں پر جود و کرم کرنا چاہتا ہوں۔
دنیا آزمائش کی جگہ ہے
قران سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے الذی خلق الموت و الحیوٰۃ لیبلوکم ایکم احس عملا ً۔ اللہ نے موت وحیات کو اس لیے پیدا کیا تاکہ وہ بندوں کو آزمائے کہ ان میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔معلوم ہوا کہ ہم اس دنیا میں ایک آزمائشی وہلہ سے گذر رہے ہیں۔آزمائش دو طرح کی ہوسکتی ہے ایک اس طرح کہ کون شخص اپنے آقا کی نعمتوں کو پاکر شکر کرتا ہے اور کون آقا کی طرف سے تھو ڑی بہت مشقت میں ڈالنے پر صبر کرتا ہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آقا اپنے غلام کو جب وافر مقدار میں نعمتیں عطا کرتا ہے تو غلام بھٹکتا ہے تو آقا اپنی نعمتوں میں کمی کرتا ہے تاکہ بندہ بندہ پھر صحیح راستے پر آجائے جیسا باپ اپنے بیٹے کو کسی غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے،یا مارتا ہے۔تو اس ڈانٹ ڈپٹ کا مقصد اپنے بچے پر ظلم کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ صحیح تربیت کرنا مقصود ہوتا ہے۔
کرونا بیماری ایک وارننگ ہے یا عذاب
کچھ لوگ اپنی لاعلمی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ کرونا وائرس ایک عذاب ہے۔لیکن جہاں تک اللہ کی طرف سے عذاب آنے کا تعلق ہے تو قرآن میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے جن قوموں پر عذاب آیا تو وہ لوگ ہلاک ہوئے۔حضرت نوحؑ کے زمانے جو عذاب آیا اس میں وہ سب کے سب ہلاک ہوگئے۔ ایسی بیماری جس میں سب کے سب نہیں مرتے ہیں بلکہ بہت سارے بیماری لگنے کے بعد صحتیاب بھی ہوتے ہیں ایک وارننگ تو ہوسکتی ہے مگر عام عذاب نہیں۔کبھی کبھی اللہ تعالیٰایسی صورتحال اس لیے بھی پیدا فرماتے ہیں تاکہ بندوں کو آزمائے۔چنانچہ ولیبلونکم تا آخر میں یہی بات فرمائی گئی ہے۔
وارنگ کا مطلب یہ ہوتا ہیکسی کو خطرے سے آگاہ کیا جائے یا کسی کو کوئی کام نہ کرنے کی نصیحت کی جائے یا اس قسم کا مشورہ دینا کہ اس قسم کا کام کرنا خطرناک ہو سکتا ہے یا اس کے نا خوشگوار نتائج نکل سکتے ہیں۔کبھی کسی شخص کی موت کو دوسرے کے لیے سامان عبرت بناتا ہے۔تو یہ وقت بندوں کے سنبھلنے کا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس قسم کے حالات ڈال کر بندوں کو یہ سبق دینا چاہتا ہے کہ اللہ کچھ بھی کر سکتا ہے اور کسی کو مغلوب یا مقہور کرنے کے لیے اسکو کسی ساز و سامان کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ وہ نامعلوم جرثوم کے ذریعے کسی حد تک بھی لوگوں کی جان لے سکتاہے اور دنیا کی بڑی سے بڑی سلطنتیں اس جرثومے کو قابو میں نہیں لا سکتے ہیں لوگوں کی تمام تدبیروں کو شکست دے سکتاہے۔اس وقت پورے عالم میں مجموعی اعتبار سے ہم نے اپنے خالق و مالک بھلا ڈالا ہے۔اسی کی بنائی ہوئی کائنات میں رہ کر اسی کی نافرمانی کرتے ہیں اور وہ جس مطلوب جگہ یعنی جنت میں ہمیں پہنچانا چاہتا ہے ہم اسی کی تلاش میں سرگرم رہیں۔اور اس کی عطا کردہ آسانیوں اور انعامات کا بھر پور شکر بجا لائیں۔اس اعتبا ر سے ایسی ڈانٹ اجتماعی طور پر پوری انسانیت کے لیے خیر کا سبب بن جاتی ہے۔لیکن اگر ہم پھر ببھی نہ سدھریں گے تو کسی کا کچھ نہیں بگاڈیں گے بلکہ اپنا ہی نقصان کریں گے۔لہٰذ موجودہ حالات مسلمانوں کو مثبت انداز میں لینے کی ضرورت ہے۔اور اگر ہم اس صورت حال کو اس کے صحیح تناظر میں لینے یا سمجھنے سے قاصر رہیں تو آگے چل کر اس سے کسی اور بڑی آفت میں پھنسنے کا امکان بھی ہے۔
وما علینا الا البلاغ
Views : 787