تحریر و تصنیف کا عمل انسانی فکر و نظر کی ترسیل و تبلیغ میں ایک اہم ترین وسیلہ اور سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ ہے۔ابتدائے آفرینش سے ہی انسان نے تحریر کے ذریعے اپنے خیالات کو دوسرے ہم جنسوں تک پہنچانے کی سعی کی ہے۔اگر چہ ما فی الضمیر کی ادائیگی پہلے صور و اشکال کے ذریعے ہوتی رہی،لیکن بہت جلد حروف نے ان کی جگہ لی اور پھر لکھنے پڑھنے کا وہ طویل سلسلہ چل پڑا جو آج کے دور تک ممتد ہے اور مستقبل پر بھی سایہ فگن ہو رہا ہے۔
تحریر و تصنیف کا کام پہلے پہلے بہت سست رفتاری کے ساتھ جاری رہا۔در اصل ا ُس زمانے میں ایسے وسائل اور ذرائع دستیاب نہ تھے جن کی مدد سے تحریری کام میں سرعت لائی جاتی،اسی لیے اس زمانے میں زیادہ تر حفظ و یاداشت پر لوگوں کا انحصار رہا؛لیکن پیغمبر اسلام ﷺکی بعثت کے بعد علمی دنیا میں وہ انقلاب پیدا ہوا جس کا عروج climax آج ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔قرآن کریم نے اپنا تعارف بحیثیت ایک کتاب کے دیا۔لفظ کتاب کے بارے میں قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی ؒ نے اپنے قرآنی لغت قاموس القرآن میں لکھا ہے:کتاب:لکھنا،لکھا ہوا خط،مضمون،نامہ اعمال،صحیفہ ئآسمانی (پہلے معنی میں مصدر اور دوسرے معنی میں فعال بمعنی مفعول۔جمع کتب)۱؎ معلوم ہواکہ لفظ کتاب ”مکتوب کے معنی ٰ دیتا ہے یعنی لکھا ہوا۔اسی لیے رسول محترم ﷺنے نزول قرآن کے ابتداء ہی سے قرآن کو تحریری قالب میں ڈالنے کا اہتمام فرمایا۔
قرآن کی پہلی آیت ہی نے قلم کا طاقتور تصور پیش کیا وہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں دور دور تک کوئی پڑھا لکھا نظر نہ آتا تھا۔یہ قوم معدودے چند آدمیوں کو چھوڑ کر،مجموعی طور پر پڑھنے لکھنے سے بالکل عاری تھی۔اس کا سارا سرمایہ اس کی یاداشتیں تھیں عرب میں کاغذ ہی نایاب تھا تحریر کا کام کہاں سے ہوتا۔لیکن قرآن نے”قلم“کا لفظ اپنی پوری قوت،توانائی اور بے حد و شمار
امکانات کے ساتھ کچھ اس طرح استعمال کیا کہ قلم ہی آنے والے وقت میں اس امت کی شناخت قرار پایا۔بلکہ پیغمبر اسلام ﷺ نے قلم کو اتنا تقدس بخشا کہ سب سے پہلی مخلوق جو عالم کون و مکان کے سلسلہ ہائے دراز میں اپنا وجود پاتی ہے قلم ہی ہے۔آپ ؐنے فرمایا:
”اول ما خلق القلم فأمرہ ان یکتب ما ھو کائن الیٰ یوم القیامۃ“
(ترجمہ)سب سے پہلی چیز قلم پیدا کی گئی پھر اللہ نے اسے حکم دیا کہ قیامت تک جو کچھ پیش آنے والا ہے اسے لکھ۔۲؎
قلم انسانیت کا خطیب بھی ہے،واعظ بھی ہے اور طبیب بھی ہے۔قلم کے ذریعے سے کتابت انسان کے لیے فخر و شرف کی بات ہے۔قلم نے علوم کو بقا بخشا،اگر قلم نہ ہوتا تو علوم صفحہ ئہستی سے ہی معدوم ہو گئے ہوتے۔خلف کے پاس سلف کے علوم و معارف نہ پہنچتے۔سعید بن عاص نے کیا خوب کہا ہے:
من لم یکتب فیمینہٗ یسری
(ترجمہ)جو لکھتا نہیں اس کا داہنا ہاتھ تکلیف میں مبتلا ہوگا۔
معن بن زائدہ کہتے ہیں:
اذا لم تکتب الید فھی رجل
(ترجمہ) اگر ہاتھ نہ لکھے تو پھر وہ پاؤں ہے۔
تصور قلم کی اس عظمت نے تحریر و تصنیف کا وہ دوربعثت محمدی ﷺکے بعد شروع کیا جو اپنی مثال آپ تھا۔یہ و ہ دور تھا جس میں کتاب کی عظمت قلوب کے اندر موجزن تھی۔مسلمانوں کے کتب خانے آباد تھے گھر گھر علم و دانش کے چرچے تھے۔کتاب نے ہر دور میں تعلیم و تربیت کا حق ادا کیا ہے۔ممکن ہے کہ اس کی ہیئت ہمیشہ ایک جیسی نہ رہی ہو۔ایک عہد سے دوسرے عہد تک،ایک دماغ سے دوسرے دماغ تک علم کو منتقل کرنے کے لیے انسان نے تحریر کا سہارا لیا۔کبھی پتھروں پر نشان بنائے،کبھی پیڑوں کی چھال استعمال کی کبھی چمڑا کام میں لایاکبھی کپڑوں نے انسان کی مدد کی۔انسانی ذہن کی ترقی کے ساتھ ساتھ طریقے بھی بدلتے ہے۔کا غذ ایجاد ہوا تو وہ چیز وجود میں آئی جس کو کتاب کہتے ہیں۔ ۵؎
کتاب واحد ذریعہ ہے جس سے علم کی تحصیل ہوتی ہے علم دوست انسان علم کے سوا دوسری کوئی گفتگو کبھی پسند نہیں کرتا۔وہ کتابوں کو نظر کے سامنے رکھتا ہے۔کتاب کو ہی اپنا رفیق و ہمدم بناتا ہے۔
کسی باذوق اور صاحب علم کاقول ہے کہ عمدہ کتاب حیات ہی نہیں بلکہ ایک لافانی چیز ہے اور یہ خود ہی لافانی نہیں بلکہ اپنے مصنف کو بھی لا فانی بنا دیتی ہے۔اور کبھی کبھی تو اس کا قاری بھی لافانی ہو جاتا ہے۔عمدہ کتابوں کے عمدہ اثرات انسانی فکر و نظر اور طبیعت و اخلاق پر مرتب ہوتے ہیں۔خیالات میں عظیم تغیر واقع ہو جاتاہے۔واقعہ یہ ہے کہ کتاب ہی نے ملکوں اور قوموں کی کایا پلٹ دی ہے۔
کتاب معلومات کا خزانہ ہوتی ہے۔تھوڑی سی وقت میں پوری دنیا کا علم سمیٹ کر سامنے کر دیتی ہے۔۔کتاب اپنے اندر ایک مکمل دنیا ہوتی ہے۔اس میں آپ ماضی کی شخصیات سے ملاقات کرتے ہیں،ان کی صحبت اٹھاتے ہیں،ان سے استفادہ کرتے ہیں،ان کے علوم حاصل کرتے ہیں،یہ آپ کو ماضی کی طرز معاشرت،سماج،رہن سہن،وضع قطع،رسوم و عادات، ایک ایک چیز کا ذہنی مشاہدہ کرواتی ہے۔تھوڑٰ ی دیر کے لیے آپ بھول جاتے ہیں کہ آپ کہاں ہیں؟زمان و مکان کی قید اُٹھ جاتی ہے۔
علامہ مسعودی ؒ نے کتاب کی قدر و قیمت کی فصیح و بلیغ اور جامع تعریف کی ہے۔فرماتے ہیں:
”اے میری کتابو!تم میری جلیس و انیس ہو،تمھارے ظریفانہ کلام سے نشاط اور تمھاری ناصحانہ باتوں سے تفکر پید ا ہو تا ہے۔تم پچھلوں اور اگلوں کو ایک عالم میں جمع کر دیتی ہو۔تمھارے منہ میں زبان نہیں لیکن تم زندوں اور مردوں کے افسانے سناتی ہو۔تم ہمسایہ ہو لیکن ظلم نہیں کرتیں۔عزیز ہو لیکن غیبت نہیں کرتیں،دوست ہو لیکن مصیبت میں ساتھ نہیں چھوڑتیں۔۶؎
حضرت ہشام کہتے ہیں کہ میرے والد عروہ ؓکی کتابیں یوم حرہ میں جل گئی تھیں۔بعد میں حضرت ہشام ؒکے والد برابر فرمایا کرتے تھے۔
”کاش اہل و عیال،مال و دولت کی جگہ میرے پاس میری کتابیں رہ گئی ہوتیں“
حضرت حسن بصری ؒکہتے ہیں:
”ہمارے پاس کتابیں ہیں،جنہیں ہم برابر دیکھا کرتے ہیں“
ایک شاعر نے یہاں تک کہہ دیا:
”فمحبوبی من الدنیا کتابی“
”دنیا میں میری محبوب ترین چیز کتاب ہے“
مست ہوکر دیکھتے ہیں طالبان معرفت
بادہئ اسرار کا لبریز ساغر ہے کتاب ۷؎
عصر حاضر تصنیف و تالیف
کتاب نے ہر زمانے میں انسانی فکر و نظر پر گہرے اثرات چھوڑے چاہے یہ اثرات مثبت تھے یا منفی۔اٹھارویں اور انیسویں صدی میں مغربی دنیا میں جو انقلابات رونما ہوئے ان کے پس پشت کوئی نہ کوئی کتاب موجود تھی۔انسان کی پیدائش اور ابتداء کے بارے میں مغربی دنیا میں جو ایک نیا نظریہ ”ارتقا“کے نام سے رائج ہوا جو علمی سطح پر ناکام ہونے کے باوجود آج بھی مغربی معاشرہ کیا دنیا کے ہر معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوطی سے پیوست رکھے ہوئے ہے اس کے پیچھے ڈارون کی کتاب of species origin تھی۔کمیونزم کے نام سے ایک طاقتور تحریک پیدا ہوئی جس نے دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں انسانوں پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے یہاں تک کہ اس نظریے کی بنیادپر روس میں ایک مستقل ریاست وجود میں آئی اسکے پیچھے کارل مارکس کی Das Capital تھی۔مغرب کا مکمل طور پر الحاد کی آغوش میں گر پڑنے کا غیر محمود کارنامہ بھی کتابوں کے ذریعے ہی وجود میں آیا۔اس سلسلے میں Shelley کا رسالہ The necessity of Aatheism، الن واٹ (Allan Watt )کی کتاب
The nature of conciousnece ، رسل( Russel )کی Does God exist?،سٹفن ہاکنگ( Stephen Hawking )کی Grand design پیش کی جاسکتی ہیں۔طبعیات کی دنیا میں بھی انقلاب کتابوں کے ذریعے آیا جنہوں نے بعد میں ایٹم بم اور دیگر مہلک ہتھیاروں کے لیے راستے کھول دیے۔اس سلسلے میں حکیم آئن سٹائن کی کتابیں،,The evolution,
"Relativity the special &the general theory"
,"Ideas and opinions of physics",
The world as I see it" "کو پیش کیا جاسکتا ہے۔
عصر حاضر انفارمیشن ٹکنالوجی کا زمانہ کہلاتا ہے لیکن کتاب اور تحریر و تصنیف کی اہمیت آج بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔آج بھی قوموں کے عروج و زوال کا تصنیف و تالیف سے گہرا رشتہ ہے۔آج بھی لاکھوں کی تعداد میں کتابیں لکھی اور شائع کی جاتی ہیں۔آج بھی انسان کا نظام فکر و عمل کتابوں کے اثرات و نقوش قبول کرتا ہے۔مغرب میں ٹکنالوجی کہکشاوں کو چھو رہی ہے لیکن مغربی نظام فکر و عمل کا پورا تانا بانا وہاں کے مصنفین کی تحریرات و تصنیفات کا مرہون ِ منت ہے۔مغربی ممالک پورری دنیا کے متعلق جس قسم کی بھی سیاسی،معاشی،حربی،معاشرتی،تعلیمی پالیسی وضع کرتے ہیں اس کے پس منظر میں وہ طاقتور کتابیں ہوتی ہیں جن کو مغربی مفکرین Western Braintrust تصنیف کرتے ہیں۔
مغربی ممالک نے مسلم ممالک،تہذیب،کلچر،تمدن،سیاست وغیرہ پر جس مثبت و منفی رویّے یا رد عمل کا پچھلی ربع صدی سے اظہار کیا اس کے پیچھے بھی وہ افکار و نظریات ہیں جن کو مختلف کتابوں میں فنی چابکدستی سے پیش کیا گیا تھا۔ذیل میں ان چند کتابوں کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں جنہوں نے فکر مغرب پرگہرے اثرات مرتب کیے اور جن کی روشنی میں اہل مغرب نے اپنی پالسیاں اور پروٹوکال protocol وضع کیا۔
۱؎ Modernization as Idiology از Micheal E.Lathan: یہ کتاب سرد جنگ کے نئے گوشوں کو روشنی میں لاتی ہے۔کتاب میں ان سماجی نظریات پر بحث کی گئی ہے جنہوں نے امریکی پالیسی کو کنیڈی دور میں صورت پذیر ہونے میں کلیدی رول ادا کیا۔
۲؎Sacred Interests از Karine V Wather :اس کتاب میں اسلام کی نسبت امریکہ کی پالیسی پر اظہار خیال کیاگیا ہے۔انیسویں صدی کی ابتدا ہی میں امریکہ مسلم دنیا سے روشناس ہوا۔مسلم تمدن،سیاست،مذہبی عقائد نے امریکی سوچ کو مسلمانوں کے تئیں ایک نیا موڑ لینے پر تیار کیا۔اس میں دکھا یا گیا ہے۔کہ کس طرح منفی نفسیات کے تحت مسلم کش
پالیسی کو امریکی سماج میں رائج کیا گیا۔
۳؎Capital in the 21st century ازThomas Piketty:یہ ایک فرانسیسی ماہر اقتصادیات ہے۔اس کتاب نے مغربی ذہن پر بے پناہ اثرات چھوڑے۔اس میں 2014ء میں تجارتی معاملات پر گفتگو کی گئی ہے۔
۴؎The Human Stain از Philop Roth: اس کتاب میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے جنسی سکینڈل اور سیاسی موقف پر گفتگو کی گئی ہے۔
۵؎Return of Islam ازlouis Bernad:یہ در اصل لوئس کا مقالہ ہے۔لوئس مشہور امریکی مستشرق ہیں۔اسلام اور مسلم دنیا اس کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے۔اس کتاب سے نہ صرف مسلم دنیا کی اسلامی تحریکات کے موجودہ رحجان اور اس کے بعض عوامل کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ اسلامی دنیاکے مغربی ادراک پر روشنی ڈالنے میں اسے کلیدی اہمیت کا حامل مضمون قرار دیا جاسکتا ہے۔
۶؎Clash of civilizations از Samuel P. Huntington:ہنٹنگٹن ہارورڈیونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔سابق امریکی صدر جمی کارٹر انتظامیہ میں National security Counsil میں سلامتی سے متعلق منصوبہ بندی کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔Foreign Policy کے مؤسس اور شریک مدیر رہے ہیں۔Clash of civilizations در اصل ان کا ایک طویل مضمون ہے جو امریکی رسالے Affiars Foreign کے summer ایشو میں 1993ء میں شائع ہوا۔
ہنٹٹنگٹن نے اس کتاب میں ایک نئی پیش گوئی کی جو جغرافیائی اور علاقائی بنیادوں سے ہٹ کرتہذیبی بنیاد پر ہو گی اور جو نئی تہذیبیں اس میں نمایاں رول ادا کریں گی ان کی تشکیل میں مذہب کا رول سب سے اہم ہو گا بلکہ تہذیبوں کی شناخت مذہب سے ہوگی۔ہنٹٹنگٹن نے تہذیبوں کی اپنی تقسیم میں نہ صرف اسلامی تہذیب کا تذکرہ کیا ہے بلکہ مذہب ہی کی بنیاد پر مغرب اور اسلام کے درمیان ایک آویزش اور کش مکش کے بر پاہونے کی پیش گوئی بھی کی ہے۔
۷؎ fred Halliday کی کتاب Islam and the myth of confrontation: فریڈ ہالی ڈے کا شمارمغرب کے ان مفکرین میں ہوتا جو مغرب اور اسلام کے درمیان تہذیبی تصادم کے مفروضے کو مسترد کرتے ہیں فریڈ ہالی ڈے لندن اسکول آف اکنامکس میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں پروفیسر ہیں انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مشرق وسطی یا پوری دنیا مسلم دنیا کو باقی دنیا اور اس کے مسائل سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا نا چاہیے۔اس لیے اسے کسی اور ایک متحد خطے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔مشرق وسطی اور پوری مسلم دنیا مختلف معاشروں کا مجموعہ ہے جن میں آپسی اختلاف کے ساتھ ساتھ بعض مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔اس کے مطابق مشرقِ وسطی اور مسلم دنیا بھی تیسری دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح ہی معاشی ترقی اور سیاسی تبدیلی جیسے متعدد عالمی سطح کے مسائل سے دو چار ہے۔
۸؎John L.Esposito کی کتاب The Islamic threat -Myth or reality :جان ایل اسپوزٹوامریکہ کی جارج ٹاون یونیورسٹی میں مذہب اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہیں۔اسپوزٹوMiddle East Studies Association کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں
اس کتاب میں اسپوزٹونے مغربی دانشوروں کے خدشات پر بحث کی ہے۔مثلاً ان کا یہ مفروضہ کہ اسلام اور مغرب تصادم کے راستے پر گامزن ہیں۔اسپوزٹو مغربی دانشوروں کے درمیان گردش کرنے والی اس بحث پر بھی اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے کہ اسلام جارحیت پسند مذہب ہے۔اسپوزٹوکا سب سے زیادہ زور اس بات پر ہے کہ اسلام یا اس کے حوالے سے اسلامی تحریکات یا مسلم دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کو مغربی دنیا میں خطرہ باور نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اسلامی دنیا یا مسلم سماج میں آنے والی کسی بھی تبدیلی کو ایک چلینج کے طور پر قبول کیا جانا چاہیے۔۸؎
یہ وہ کتابیں ہیں جو پچھلے پچیس تیس برسوں میں منصہئ شہود پر آئی ہیں۔مغرب میں کثرت سے پڑھی گئیں اور مغربی فکر و نظر پر اپنا گہرا اثر ڈالنے میں کامیاب رہی ہیں۔
برصغیر ایک نظر میں
برصغیر کی تاریخ میں بڑے بڑے انقلابات تحریر و تصنیف ہی کے ذریعے رونما ہوئے ہیں۔اکبر کے دور الحاد میں اسلامی تعلیمات کو سر زمین ہند کی جڑوں میں دوبارہ پیوست کرنے اور اسلامی
تہذیب کی حفاظت و صیانت کے لیے مجدد الف ثانی ؒنے جو کوششیں صرف کیں وہ مکتوبات امام ربانی کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ہندی ذہن نے ان مکتوبات کا خاصا اثر قبول کیا ہے۔
برصغیر کی ایک اور اہم ترین شخصیت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اسلامی تعلیمات کی عقلی معنویت،اسلامی تمدن اور ریاست کی آفاقیت اور اسلامی احکام کی حکمت پر تصنیفات کا قابل قدر ذخیرہ چھوڑا جن مین حجۃ اللہ البالغہ ایک منفرد مقام کی حامل ہے۔اس کتاب اور شاہ صاحب کی دوسری کتابوں نے برصغیر کے نظام فکر و عمل پر اتنے گہرے نقوش ثبت کیے کہ بڑے بڑے مدارس اور علمی تحریکا ت،جنہوں نے برصغیر کی تاریخ کا رخ موڑدیا انہی گہرے نقوش کاثمرہ تھیں۔سیرت النبی ﷺ پر معرکۃ الآرا ء کام بھی کتابی شکل میں علامہ شبلی ؒ اور علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کی تحریری و تصنیفی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔مسلمانوں کے ادبار و انحطاط سے عالم انسانیت نے کیا کھویا اس کی علمی اور فکر ی تاریخ اور تجزیہ پیش کرنے کا فخر بھی ایک کتاب ہی کو حاصل ہے جو ”ما ذا خسر العالم بانحطاط المسلمین“کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔اس کتا ب نے عربی ذہن پر گہرے اثرات چھوڑے بعد میں اس موضوع پر لکھی جانی والی کتابوں کا یہ نقش اول ثابت ہوئی۔
دنیا بھر کے ممالک میں لاکھوں کروڑو ں مسلمانوں کو عمل صالح پر کھڑا کرنے کا کارنامہ بھی ایک کتاب ہی کے حصے میں آیا ہے جو ”فضائل اعمال“کے نام سے مسجد مسجد اور گھر گھر پڑھی جاتی ہے۔
برصغیر میں شہر شہر گاؤں گاؤں مرد و زن کو دینی تعلیم سے آگاہ کرنے کا فریضہ بھی تحریر و تصنیف ہی کا مرہون منت ہے۔”بہشتی زیور“اس سلسلے کی نمایاں کتاب ہے۔عہد فرنگ میں بدعات و خرافات کی دلدل سے نکال کر توحید کی سیدھی شاہراہ پر گامزن کرنے،عیسائی میشنریوں کے سادہ لوح مسلمانوں کو مالی لالچ دیکر نصرانی بنانے کی کوششوں پر قد و غن لگانے اور دیانند سرسوتی کی شدھی تحریک کے زیر اثر مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کاوشوں کو ناکام بنانے کا صد افتخار کارنامہ بھی کتابوں ہی نے انجام دیا۔یہ کتابیں بالترتیب تقویۃ الایمان (مولانا محمد اسماعیل دہلوی شہیدؒ) اظہار الحق (مولانارحمۃ اللہ کیروانی ؒ)اور حقانیت اسلام (حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی ؒ) کے نام سے شائع ہو کر داد تحسین حاصل کر چکی ہیں۔
جب قادیان سے ایک جعلی نبی نے ایک جھوٹی نبوت کا دعوی کر کے ختم نبوت پر ضرب لگانے کی ناکام کوشش کی تو اس فرنگی سازش کو بے نقاب کرنے اور عقیدہ ئختم نبوت کو اظہر من الشمس واشگاف کرنے میں علمائے حق نے تحریر و تصنیف کا سہارا لیا۔اس سلسلے کی اہم کتابیں ”خاتم النبیین“علامہ انور شاہ کشمیری ؒ ”ختم نبوت“مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ اور”ختم نبوت“مولانا ابو الاعلی مودودی ؒ وغیرہ ہیں۔تحریر و تصنیف کے اثرات اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ کبھی کبھی کتاب خود اپنے مصنف کو تختہ دار کا راستہ دکھاتی ہے۔مصر کو لیجیے۔مصر کے ایک نامور ادیب،مصنف،دانشور اور مفسر قرآن سید قطب ؒ کو ”معالم فی الطریق“کی تصنیف پر ہی پھانسی کا پھندا نصیب ہوا۔
سرزمین خلافت کو مغربی تہذیب کے پنجہئ استبداد سے آزاد کر کے پھر سے اسلامی آغوش میں امن و سکون اور ترقی و بہبود عطا کرنے کا سہر ا بھی کتابو ں کے سر جاتا ہے۔بھلا شیخ بدیع الزمان نورسی ؒ کے ”رسائل نور“کو کون بھلا سکتا ہے۔
مختصر یہ کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی انقلابات آئے،حکومتیں بنیں یا بگڑیں،نیکی کو فروغ ملا یا بدی پھیلی،امن کو استحکام ملا یا فساد پھیلا،خیر کا استقبال ہوا یا شر نے قرار پکڑا،حق غالب آیا یا باطل نے آنکھیں دکھائیں۔خدا پرستی کو عروج ملا یا الحاد نے پر پھیلائے۔پاکیزگی کی ہوا چلی یا تعفن اخلاق کی باد مسموم ان سب کے پیچھے کوئی نہ کوئی کتاب ضرور تھی۔اسی سے عصر حاضر میں تصنیف و تالیف اور تحریر و تسوید کی اہمیت نگاہوں میں سماجاتی ہے
مسلمان اہل علم کی ذمہ داریاں
آیئے اب اخیر پر دیکھیں کہ موجودہ زمانے میں تحریر و تصنیف کے حوالے سے مسلمان اہل علم کے کیا فرائض ہیں:
٭تصنیف و تالیف میں جدید اسلوب اور طرز تحریر اختیار کیا جائے۔
٭ثانوی مآخذ کے بجائے اصلی مآخذ سے استفادہ کیا جائے۔یہاں ”ثانوی مآخذ“اہل مغرب اور ان کے مرعوب مقلدوں کا تصور ثانوی مآخذ مراد نہیں ہے۔اہل مغرب اور ان کے مرعوب مقلد تو اس مآخذ کوثانوی بتاتے ہیں جو ان کے مزعومہ افکار سے میل نہیں کھاتے۔اس سلسلے میں
ان کے تعصب کا یہ حال ہے کہ ابو الفضل کی ”دربار اکبری“کو اصلی مآخذ اور ملا عبد القادر بدایونی کی ”منتخب التواریخ“کو ثانوی مآخذ قرار دیتے ہیں۔یہاں اصلی مآخذسے مراد یہ ہے کہ اگر ہم مثلاً کسی کتاب کا کوئی اقتباس دوسری کسی کتاب سے نقل کریں تو یہ کوشش کریں کہ اصلی کتاب کو حاصل کر کے اس اقتباس کا براہ راست مطالعہ کریں تاکہ اس کی صحت کی توثیق ہو سکے۔قرآن،حدیث،فقہ،ادب،تاریخ،تصوف،سیاست،معیشت غرض ہر موضوع کے بارے میں اصلی مآخذ تک رسائی کرنے کی کوشش کریں اور محض نقل ہی پر کلی اعتماد نہ کریں۔
٭علماء پر لازم ہے کہ وہ انگریزی زبان میں اتنی قابلیت بہم پہنچائیں کہ انگریزی کتابوں کا براہ راست مطالعہ کرسکیں۔
٭مسلمان اہل باطل قوتوں اور تحریکوں کی معرفت حاصل کریں اور ان کی کتابوں کے دلائل کو گہرائی سے سمجھ کر ان کا رد لکھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔
٭مسلمان اہل علم متین، باوقاراور سلیس زبان میں اپنا مدعا پیش کریں،منفی اور رد عمل کی قسم کی تحریروں سے اجتناب کریں۔
٭مسلمان اہل علم اپنے اسلاف سے پوری طرح مربوط رہیں۔اسلاف کی روح اپنے اندر پیدا کریں۔اسلامی تعلیمات اور حقانیت پر ان کا ایمان اور ایقان غیر متزلزل ہو۔ ورنہ وہ اسلام کی خدمت بجا کیا لائیں خود غیروں سے متاثر ہو جائیں گے۔
٭مسلمان اہل علم اپنے اکابر و اسلاف کے علوم کو سادہ اور عصری زبان میں منتقل کرنے کی کوشش انجام دیں۔غیر ضروری طور پر ہر مسئلے میں خود ہی اجتہاد کرنے کی حماقت نہ کریں۔
٭مسلمانوں کی ایک معتد بہ تعداد تحریر و تصنیف کے کا م سے وابستہ رہے باخصوص جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قلمی صلاحیت عطا ہوئی ہے۔
٭تحریر و تصنیف کے مراکز قائم کیے جائیں اور علماء کی سرپرستی و نگرانی میں یہ کام انجام پائیں۔
٭جدید موضوعات پر مقالے،کتابیں،مضامین،رسالے،کتابچے لکھنے کے لیے جواں سال مصنفوں کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا جائے۔
بہر حال چند نکات ہیں۔اہل علم کی طرف سے اور بھی تجاویز آسکتی ہیں۔اس مختصر تحریر میں ساری تفصیلات سمائی نہیں جاسکتیں۔ہاں اگر اس مقالے کے مطالعہ کے بعد کسی شخص کے دل میں حمایت اسلام اور احقاق حق کے لیے تحریر و تصنیف کا داعیہ پیدا ہو تو گویا وہی اس مضمون کی قیمت ہے۔
مآخذ
۱؎ مولانا زین العابدین۔قاموس القرآن ص۹۳۴دار الاشاعت اردو بازار کراچی۔ط ۴۹۹۱ء
۲؎یہ حدیث متعدد صحابہ کرامؓسے مروی ہے جیسے ابن عمر ؓ،عباد ۃبن صامتؓ،ابن عباس ؓ
ابو ھریرۃؓوغیرہ سے مرفوعاًمنقول ہے اور ابن عباس ؓاور ابن مسعودؓ سے موقوفاً مروی ہے۔
اس کی تخریج امام احمد نے اپنی مسند (۵/۷۱۳)میں،بخاری نے التاریخ الکبیر (۶/۲۹)اور ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف (۷/۴۶۲)میں کی ہے اور حدیث جمیع طرف سے صحیح ہے۔
۳؎خطبہ شیخ سعود بن ابراہیم الشریم۔(www.startrimes.com)
۴؎ایضاً
۵؎مولانا روح اللہ نقشبندی۔طالب علم کے شب و روز۔ص۴۸۱،مکتبہ الحق۔یوگیشوری
۶؎ ؎ایضاً
۷؎؎ایضاً
۸؎اس حصے کی زیادہ تر معلومات ڈاکٹر محمد ارشد کی کتاب ”مغرب اور بنیاد پرستی“مطبوعہ البلاغ پبلکیشنز دھلی۔ط:اول اکتوبر ۳۰۰۲ء سے ماخووذ ہیں۔
Views : 774