محبت انسان کی فطرت میں ہے ۔ اس کے دل میں کوئی نہ کوئی چیز اس طرح گھر کر جاتی ہے کہ انسان کا خود کو اس سے علاحدہ کرنا ناممکن بن جاتا ہے ۔ اس حوالے سےانسانوں میں چار قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ایک طبقہ وہ ہے جن کے قلوب میں مال کی بے انتہا محبت ہوتی ہے اور وہ اسی زاوئے سے غلط اور صحیح کا تعین کرتے ہیں اور ان کی تمام تر ترجیحات اس کے ارد گرد گھومتی ہیں ۔ مال سے اس قسم کاشدید محبت حب مال کہلاتا ہے ۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جن کوشہرت مال سے زیادہ عزیز ہوتی ہے ان لوگوں کو شہرت حاصل کرنے کے لیےاگر اپنا مال بھی قربان کرنا پڑے تو بے دریغ کرتے ہیں اور یہ مال کا زیاں ان کے یہاں کوئی معنی ہی نہیں رکھتا کیونکہ ان کی ترجیح جاہ ہوتی ہے۔شہرت سے اس بے انتہا محبت کو حب جاہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جن کے پاس مال بھی ہوتا اور کسی حد تک جاہ بھی ہوتی ہے تاہم ان میں ایک کمزوری یہ ہوتی کہ وہ شہوت پرست ہوتے ہیں ۔ان کو اس کی طرف حد سے زیادہ رغبت ہوتی ہے اور یہ شدید رغبت کبھی کبھار ان کو اندھا کر دیتی ہے اور وہ اس کو ناجائز طریقے سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شہوت کو پورا کرنے کی اس محبت کا نام حب باہ کہلاتا ہے۔ آخری طبقہ وہ ہے جن کی محبت کا تمام تر کنسرن صر ف اللہ ہوتا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو چاروں قسم کے لوگوں کی محبت میں شدت ہوتی ہے تاہم پہلے تین طبقوں کی محبت مذموم ہے جب کہ آخری قسم کے طبقے کی محبت میں شدید ہونا مندوب اور قابل تعریف ہے۔
آخرالذکر طبقہ اللہ کے دین اوراس کے بندوں کے حوالہ سے مخلص ترین طبقہ ہوتا ہے ۔ ان کی تمام تر ترجیحات اللہ کی رضا کے حصول کے ارد گرد گھومتی ہیں ۔ یہی لوگ اللہ کے کاز کے صحیح رضا کار ہوتے ہیں ۔یہ لوگ اپنی ہر چیز یعنی جائز مال ،جائز جاہ اور جائز باہ کو اللہ کے دین کے لیے قربان کرتے ہیں ۔ جائز مال کو قربان کرنے کی مثال حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا اپنا سارا جائز مال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھنا ہے ۔جائز جاہ کو قربان کرنے کی مثال حضرت حسن رضی اللہ کا امت کے وسیع تر مفادکو مد نظر رکھتے ہوئے خلافت سے دست بردار ہونا ہے ۔ اور جائز باہ کو قربان کرنے کی مثال یہ ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا شادی کے پہلے ہی دن جہاد میں نکلنا اور شہید ہونے کی ہے۔ ان تمام مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی سے محبت کرنے والوں کی تمام تر ترجیحات اللہ کی خوشنودی ہی ہوتی ہے۔
اللہ سے محبت کرنے والے لوگ زیادہ تر غرباء ہوتے ہیں اور ان ہی غرباء نے اسلام کے ابتدائی زمانے میں دین اسلام کی بےلوث خدمت کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہی لوگ آخری زمانے میں دین کے ممد و مددگار ہونگے۔ اس معاملے میں ان کی محبت اور انداز انوکھا ہوتا ہے ۔ اول الذکر تین قسم کے لوگ ان کو اجنبی تصور کرتے ہیں۔ یہی لوگ دینی تحریکوں اور خدمات کے حوالے سے مخلص ہوتے ہیں ۔ دینی تحریکات میں ان ہی لوگوں کی آراء کو ترجیح دینی چاہیے ۔گذشتہ تین طبقوں میں سے حب مال اور حب باہ والے دو طبقے دینی تحریکات کے لیے اتنے مضر نہیں جتنے حب جاہ والے لوگ ہیں ۔ کیونکہ حب مال والے احباب کو مال چاہیے اور وہ یہاں نہیں ہے ۔یہاں مال کو خرچ کیا جاتا ہے اور کمانے کا احتمال بہت کم ہے۔ حب باہ والے جب کسی دینی تحریک میں آتے ہیں تو قوی امکان ہے کہ وہ توبہ کے لیے آتے ہیں کیونکہ وہ پچھلی زندگی پر نادم ہوچکے ہوتے ہیں ۔ تاہم حب جاہ والے لوگ دینی تحریکات میں اس لیے آتے ہیں کہ ہمیں شہرت ملے ۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ غرباء اللہ کے لیے ہر ایک کے ساتھ تواضع سے پیش آتے ہیں ۔ یہ بزرگوں کی خدمت کرتے ہیں ۔ بزرگوں کے پیچھے ان سادہ لوح اصحاب کا تانتا بنا رہتا ہے ۔ یہ شہرت،عزت اور ہٹو بچو دیکھ کر یہ رشک کرتے ہیں کہ ہمیں بھی یہ چیز حاصل ہو لہذا وہ ان بزرگوں سے اپنا تعلق بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو ہدایا اور تحفے دے کر اثر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ غرباء ان اصحاب باہ کو بزرگوں کے مقرب متصور کرتے ہیں اور اس طرح ان کا اکرام کرتے ہیں اور ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں ۔ اگر بزرگ اثر انداز کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو تحریک کی دینی روح متاثر نہیں ہوگی اور اگر ان کی صحیح تربیت نہ ہوئی تو یہی لوگ پھر تحریک کے دینی سپرٹ کو برباد کرتے ہیں ۔ اسی تناظر میں پروفیسر ایم مجیب نے ہندوستانی مسلمان نامی کتاب میں تبلیغی جماعت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا اصحاب ثروت لوگ تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کریں گے ۔اس وقت دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ تبلیغی جماعت کے زمہ دار ان لوگوں کو کیسے قابو کرتے ہیں۔ اگر قابو کرنے میں کامیاب ہوئے تو محنت صحیح ڈگر پر رہے گی ورنہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ کہیں یہ محنت رخ تبدیل نہ کرے۔ کیونکہ اصحاب ثروت جن کے اندر حب جاہ ہوتا ہے کا مقصد جلب منفعت (وہ بھی جاہ کی قبیل سے) ہوتا ہے نہ کہ دین کو نفع پہنچانا۔ بہر حال مختلف دینی تحریکات اور شعبوں کے زمہ داروں کو چاہیے کہ اس پہلو کو نظر انداز نہ کریں۔