سوشل میڈیا پر اس وقت مشاجرات صحابہ کے حوالے سے ایک ٹرینڈ چل رہاہے کہ" کون گروہ حق پر تھا اور کون نہیں ۔ کس نے زیادتی کی اور کون مظلوم ہے"۔ اس چیز نے اب اتنی بھیانک صورت حال اختیار کی ہے کہ اب ہرایرے غیرے صحابہ رضی اللہ عنھم کے اوپر تنقید کر رہا ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں ۔ایک وجہ جو میری سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ ناصبی اور خارجی خیالات کے حاملین استشراقی تحقیقی انداز کو اپنا کر ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو متاثر کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا ہدف بھی یہی طبقہ ہے کیونکہ اس طبقے کو دینی علوم میں رسوخ نہیں ہوتا ہے ۔ امت کا یہ طبقہ اصول اور فروع میں تمیز نہیں کر پاتے ہیں ۔ ان کو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ شریعت میں اصل کا مقام کیا ہے اور فرع کا کیا ۔ اصول سے منحرف فرد کو ہدف تنقید بنایا جا سکتا جبکہ فرع میں اختلاف اکثر اجتہادی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اور اجتہادی نوعیت کے مسائل میں ہر مجتہد اپنی مجتہدانہ صلاحیت کو بروئے کار لاکر کسی ایسے نتیجے پر پہنچتا ہے جو اس کے نزدیک صواب اور اصول دین کے عین مطابق ہوتا ہے ۔اگر مجتھد خطا کر تا ہے تو اللہ تعالی اس کو جب بھی ثواب سے نوازتا ہے کیونکہ وہ صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لیے کوشش کرتا ہے اور یہ کوشش کرنا بذات خود ایک اچھا عمل ہے ۔ اور صحیح اجتہاد کرنے والے کو دہرا ثواب ملتا ہے ایک کوشش کا اور دوسرا صحیح نتیجے کا۔
جہاں تک صحابہ کے مشاجرات کا تعلق ہے وہ اجتہادی نوعیت کے تھے ۔ اصول میں صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں تھا ۔ اصول یعنی دین کے اعتبار سے ان میں کوئی متہم نہیں بلکہ سب مامون ہیں ۔ یہی بات امام ابو الحسن اشعری رح سے الابانہ میں منقول ہے وہ فرماتے ہیں : فاما ما جری بین علی و زبیر و عائشہ رضی اللہ عنھم اجمعین فانما کان علی تاویل و اجتہاد وعلی الامام و کلھم من اھل الاجتہادو قد شہد لھم النبی صلی اللہ علیہ وسلم و بالجنہ والشھادة فدل على أنهم كانوا على حق فى اجتهادهم و کذالک ما جری بین علی و معاویہ رضی اللہ عنھم اجمعین کان علی تاویل و اجتہادو کل صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین ائمة مامون غیر متهمىن فى الدين و قد أثنى الله و رسوله على جميعهم و تعبدنا بتوقيرهم تعظيمهم و موالاتهم و التبرى من كل من ینقص أحد منهم رضى الله عنهم اجمعىن(الابانه ص ٢٢٤/٢٢٥)
(ترجمہ)
اور جو کچھ علی ،زبیر ،عائشہ رضی اللہ عنھم اجمعین کے درمیان ہوا وہ تاویل و اجتھاد کی بنیاد پر تھا ۔ حضرت علی امام تھے اور وہ سبھی مجتھدین میں سے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں جنت اور شہادت کی خبر دی ہے ۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے اپنے اجتہاد میں حق پر تھے۔ اسی طرح جو کچھ حضرت علی و معاویہ رضہ اللہ عنھم کے مابین رونما ہوا وہ بھی تاویل و اجتہاد کی بنا پر تھا ۔تمام صحابہ امام و مامون ہیں دین کے بارے میں متہم نہیں ۔اللہ تبارک و تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کی تعریف کی ہے اور ہمیں ان کی توقیر و تعظیم اور ان سے محبت کرنےاور جو ان میں سے کسی کی تنقیص کرےان سے بیزاری کا مکلف بنایا ہے ۔ اللہ تعالی ان سب سے راضی ہے
یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے لہذا جو لوگ صحابہ رضی اللہ عنھم سے متعلق بے دریغ زبان استعمال کرتے ہیں وہ جمہور اہل سنت و الجماعت کی راہ سے تجاوز کر رہے ہیں ۔ اللہ ہمیں جمہور اہلسنت کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین