دین الٰہی کے ترجمان کی حیثیت سےزندگی کے ہر شعبے میں میں نبوی منہج کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اخلاق کا مظاہرہ کرنامسلمان کا منصبی فریضہ ہے ۔ اہلیان ایمان میں جو بھی حضرات اس صفت سے متصف ہیں وہی دین کا کام مثبت طریقے سے کر پائیں گے اور ان کی دعوت کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہونگے۔ بصورت دیگر کاروانوں میں دعوت کا کافی شور ہوگا لیکن دعوت کے شعور سے افراد خالی ہونگے ۔
اس وقت دعوت فہمی کا فقدان بایں معنی نظر آرہا ہے کہ لوگ دعوتی جوش و جذبہ رکھنے والے سادہ لوح نوجوانوں کی علمی توانائی کو فروعات کی تبلیغ پر صرف کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جبکہ مقاصد الشریعہ کے تحت فروعات کی تبلیغ کو اپنے فقہی دائرے میں مقید کر کے رکھنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے ۔ وقتی مصالح کو مد نظر رکھ کر امت کے عظیم تر مفاد کے تحت اپنے مسلک کی ترویج نہ کرنا ہمارے منہج اسلاف کی خاص صفت نظر آرہی ہے۔
حضرت میر سید علی ہمدانی کا شافعی مسلک کے ساتھ منسلک ہونا اور کشمیر میں آکر حنفیت سے ٹکراؤ نہ کرنا دعوتی فہم اور فکری توسع کی بین دلیل ہے ۔ فکری اور فقہی اختلافات تاویل اور ترجیحی بنیادوں پر امت کے اکابر فقہاء اور ائمہ کے درمیاں رونما ہوئے ہیں ۔ تاویلات اور ترجیحات کی تاریخ اجتہاد سے جڑی ہوئی ہے ۔ مجتہدین صواب اور خطا دونوں صورتوں میں ماجور عند اللہ ہوتے ہیں ۔ یہ بات حدیث سے ثابت ہے۔لہذا تاویلات اور ترجیحات کی بنیاد پر اختلاف کا موجود ہونا علمی اور اجتہادی حیات کی دلیل ہے۔ علمی اور تحقیقی دنیا میں اجتہادی اختلاف کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ امت من حیث الکل ذہنی جمود کی شکار ہے ۔ اجتہاد فکر و نظر کا وہ دریچہ ہے جس سے علماء ہر زمانے میں نئے رونماء ہونے والے مسائل کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر ان کا حل تلاشتے ہیں ۔ اس اعتبار سے یہ اختلاف امت کے لیے رحمت ہے ۔ دوسری بات جو مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضور علیہ السلام کی ہر سنت کو قیامت تک زندہ رکھنا ہے لہذا فقہی مدرسوں کے وجود نے سنت سے ثابت ہر عمل نبی پر تعامل کو یقینی بنایا ۔ راجح اور مرجوح دونوں طرح کے اقوال ،افعال اور تقاریر پر تعامل کسی نہ کسی طرح ہوتا ہے۔ اسطرح اسوہ حسنہ کی کاملیت کا اظہار ہو رہا ہے ۔ اگر اس مثبت سوچ سے اختلاف ائمہ اور فقہاء کو لیا جائے تو کثرت میں وحدت والا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ۔