Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

امام ابوبکر جصاصؒ کاتفسیری منہج (قسط ۳)


  •  ڈاکٹرشکیل شفائی
  • Tuesday 31st of January 2023 05:47:14 PM

امام ابوبکر جصاصؒ کاتفسیری منہج (قسط ۳) 
امام ابوبکر جصاص نے اپنے تفسیری منہج میں نو(9)امور سے تعرض کیاہے۔ڈاکٹر صفوت مصطفٰی نے اپنی کتاب”الإمام ابوبکر الجصاص ومنھجہ فی التفسیر“ میں اس پرتفصیلی بحث کی ہے۔یہاں میں اسکی تلخیص اپنیالفاظ میں پیش کروں گا۔بیچ بیچ میں اپنی توضیحات اور دوسریعلماء کی تحقیقات بھی درج کروں گا۔جو نو امور امام جصاصؒ  کے تفسیری منہج کوواضح بنیاد فراہم کرتے ہیں وہ یہ ہیں:
اول:تفسیر القرآن بالقرآن
دوم: تفسیربالماثوروتفسیربالرائیکیدرمیان موافقت
سوم: لغت اور اس سے متعلق علوم سیاستفادہ
چہارم: فقہی احکام سے اعتناء
پنجم: بعض عقائد کی توضیح
ششم: اصول الفقہ اور علوم القرآن سے تعرض
ہفتم:اسبابِ نزول
ھشتم: قراآت کا اہتمام
نہم: اسرائلیات وموضوعات سے اجتناب۔
تفسیر القرآن بالقرآن:اس عنوان کے تحت امام نے تین امور پر گفتگو کی ہے
اول:قرآن کی تفسیر قرآن سے
دوم:  لغت سے استشہاد
سوم: احکام القرآن میں موضوعی تفسیر
قرآن کی تفسیر قرآن سے: یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ قرآن مجید کے مضامین ایجاز و اطناب ' اجمال و تبیین،عام و خاص اور مطلق و مقیّد پر مشتمل ہیں۔ایک بات کسی مقام پر مجمل آئی ہے اور دوسری جگہ اس کی وضاحت ملتی ہے۔ ایک حکم کسی سورہ یا آیت میں مطلق وارد ہوا ہے لیکن کسی دوسری سورہ یا آیت میں اس کو مقیّد گیا ہے۔ ایک چیز عام وارد ہوئی لیکن پھر آگے اس کی تخصیص بھی وارد ہوئی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پہلے قرآن کی تفسیر کو قرآن ہی میں تلاش کیا جائے۔اسی کو تفسیر القرآن بالقرآن کہتے ہیں۔ اس سے کسی بھی مفسر کو مفر نہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے قرآن کی تفسیر قرآن سے کی۔ بخاری شریف میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ”الذین آمنوا ولم یلبسوا إیمانہم بظلم أولئک لہم الأمن و ہم مہتدون“ (سورۃ انعام 82)”جن لوگوں نے ایمان لایا اور اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا انہی کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔“تو یہ آیت اصحابِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر شاق گزری کیونکہ آیت کا ظاہر یہی بتا رہا تھا کہ امن و ہدایت انہی کے لیے ہے جو کسی بھی طرح کے ظلم سے پاک رہے ہوں اور یہاں ظلم سے ہر طرح کی معصیت مراد ہے اسی لیے انہوں نے عرض کیا:
أیما لم یظلم نفسہ”ہم میں ایسا کون ہے جس نے خود پر ظلم نہ کیا ہو“۔
تو آپﷺ نے فرمایا:”لیس کما تظنون إنما ہو کما قال لقمان لابنہ:”یا بُنی لا تشرک باللہ شیئاً ان الشرک لظلم عظیم“ (ترجمہ) بات ایسی نہیں ہے جیسی تم سمجھتے ہو بلکہ یہ ایسا ہے جیسا لقمان نے اپنی بیٹے سے کہا اے میرے بچے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا کہ بے شک شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔
تو معلوم ہوا کہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔گویا ایک جگہ ظلم کا لفظ وارد ہوا جو ہر طرح کی معصیت کو مستلزم ہے لیکن پھر دوسرے مقام پر اس کو شرک کے ساتھ مخصوص کیا گیا یعنی پہلی آیت کی تفسیر دوسری آیت سے ہوئی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن میں جہاں جہاں ظلم کا لفظ وارد ہوا ہے وہاں ہر مقام پر اس سے مراد شرک ہے۔قرآن سے قرآن کی تفسیر کرنے کا جواز ہمیں اس روایت سے پتہ چلتا ہے جو امام احمد نے اپنے مسند میں زیر رقم6415 نقل کی ہے کہ ایک بار حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تقدیر کے مسئلے میں جھگڑ رہے تھے۔ ایک صاحب ایک آیت سے استدلال کر رہا تھا اور دوسرا صاحب دوسری آیت سے ' تو آپ (ص) ان پر بہت غصہ ہوئے۔ آپﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوا،آپﷺ نے ان پر مٹی پھینکی اور فرمایا:
"مہلاً یا قوم! بہذا أہلکت الأمم من قبلکم باختلافہم علیٰ انبیاۂم و ضربہم الکتب بعضہا بعضاً۔ إن القرآن لم ینزل یکذب بعضہا بعضاً بل یصدّق بعضہا بعضاً ''
 (ترجمہ) ٹھہرو اے میری قوم!  اسی طرز عمل سے تم سے پہلے امتیں ہلاک ہوئیں ' انہوں نے اپنے نبیوں کے بارے میں اختلاف کیا۔ کتاب کے ایک حصے کو دوسرے حصے کے ساتھ خلط ملط کیا - قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تکذیب کرے بلکہ اس لیے نازل ہوا ہے کہ ایک حصہ دوسرے حصے کی تصدیق کرے۔
دوسری مثال:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قولوا للناس حسناً  (سورہ بقرہ 83)
اس آیت میں وارد لفظِ'' حسن '' کو دوسری آیت واضح کرتی ہے۔
'' ادع إلی سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ ''  (سورہ نحل  125)
امام ابوبکر جصاص فرماتے ہیں: ”الإحسان المذکور فی الآیۃ إنما ہو الدعاء إلیہ و النصح فیہ لکل أحد“۔ اس آیت میں احسان سے مراد ہے اللہ کی طرف بلانا اور اس میں ہر ایک کے لیے خیر خواہی ہے۔تو گویا'' قولوا للناس حسناً ''کا مطلب ہوگا کہ لوگوں کو جذبہِ خیر خواہی کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ۔
لغت سے استشہاد:  امام ابوبکر جصاص قرآن کی تفسیر قرآن سے کرنے میں لغوی معنی سے استشہاد کرتے ہیں، یہ معنی بھی قرآن میں وارد ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ ان آیات کو ایک مقام پر جمع کرتے ہیں جن میں کوئی لفظ اسی معنی میں وارد ہوا ہے جو معنی زیرِ تفسیر لفظ کے ہیں۔ مثال کے طور سورہ بقرہ آیت 234 میں وارد ہوا ہے:
والذین یتوفون منکم و یذرون أزواجاً یتربصن بأنفسہن أربعۃ أشہر و عشرا“ (ترجمہ)تم میں سے جو لوگ وفات پائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑیں تو چاہیے کہ وہ عورتیں چار مہینے دس دن انتظار کریں ''(اس کے بعد وہ دوسرا نکاح کر سکتی ہیں)یہاں ”تربص“ سے امام جصاص نے انتظار مراد لیا ہے اور دلیل میں چند آیات نقل کی ہیں۔
''فتربصوا بہ حتیٰ حین''
"ومن الأعراب من یتخذ ما ینفق مغرماً و یتربص بکم الدوائر"
"أم یقولون شاعر نتربص بہ ریب المنون"

ان تینوں آیات میں ”تربص“کا لفظ انتظار کے معنی میں آیا ہے لہذا یہاں بھی اس کے معنی انتظار کے ہیں۔ پس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالی بیوہ خواتین کو حکم دیتا ہے کہ وہ شوہر گزرنے کے بعد چار مہینے اور دس دن عدت میں گزاریں اور تب تک ان کے لیے دوسرا نکاح جائز نہیں۔
احکام القرآن میں موضوعی تفسیر: تفسیر موضوعی ایک جدید اصطلاح ہے لہذا قدماء کے یہاں نہیں ملتی - اس کی مختصر تعریف یہ کی گئی ہے:” جمع الآیات المتفرقۃ فی القرآن المتعلقۃ بالموضوع الواحد لفظاً أو حکماً و تفسیرہا حسب المقاصد القرآنیۃ“(ترجمہ) قرآن کی ان الگ الگ آیات کو ایک ہی مقام پر جمع کرنا جو ایک ہی موضوع سے تعلق رکھتی ہوں چاہے لفظی اعتبار سے یا حکم کے لحاظ سے پھر قرآنی مقاصد کے مطابق ان کی تفسیر کرنا۔اس میں کئی امور کا بیان ہے
مختلف سورتوں سے ایک ہی موضوع پر دلالت کرنے والی آیات کو جمع کرنا۔
 یہ آیات ایک موضوع سے بحث کرتی ہوں یا ایک اصطلاح سے یا پھر ان الفاظ سے جو ایک موضوع یا اصطلاح سے مشابہ اور متقارب المعنی ہوں۔
 پھر مفسر ان کی موضوعی تفسیر کرے نہ کہ تحلیلی۔
یہ طریقہ ہمیں جصاص کی تفسیر میں ملتا ہے۔ وہ ایک موضوع یا اصطلاح پر دلالت کرنے والی تمام آیات کو ایک ہی جگہ جمع کرتے ہیں ' پھر ان کا ایک عنوان بھی تجویز کرتے ہیں۔ مثلاً ”باب فرض الأمر بالمعروف و النھی عن المنکر“، ”باب صلاۃ الخوف“ وغیرہ۔ اگر عنوان شدہ آیت کی کوئی نظیر بھی پائی جاتی ہو تو اسے بھی ذکر کرتے ہیں۔ پھر ان سب کی تفسیر کرتے ہیں۔ مثال کے طور انہوں نے ایک عنوان قائم کیا ہے: ”رفع الحرج و المشقۃ فی الدین“اس بات کے تحت انہوں نے ان تمام آیات کو جمع کیا ہے جن سے عنوان مذکور پر دلالت ہوتی ہے
"یرید اللہ أن یخفف عنکم و خلق الإنسان ضعیفا“،”و یضع عنہم اصرہم و الاغلال التی کانت علیہم“،”وما جعل علیکم فی الدین من حرج“،”ما یرید اللہ لیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطہرکم"
اس سلسلے میں ایک حدیث بھی نقل کی ہے”بعثت بالحنیفیۃ السمحۃ“ (مسند احمد) 
پھر ان آیات سے متبادر ہونے والے مضمون کی تفسیر بیان کی ہے اور شرح و بسط سے اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ حرج و مشقت کی تعریف کیا ہے اور ان کا انتفاء کن اصولوں کے تحت ہو سکتا ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

 


Views : 349

AnPTIbzsLW

ebhYPnuJ

2024-01-09 01:04:01


hgzJKFbSAWC

UnrGVHZfwDjicPv

2024-01-09 01:03:57


Shakil Shifayi

Insha Allah, the series will continue.

2023-06-14 23:09:29


Talib

محترم ڈاکٹر شکیل شفائی صاحب کا سلسلہ بڑا معلوماتی ہے ۔ تاہم اس کا سلسلہ منقطع ہوا ہے ۔اگر یہ سلسلہ جاری ہوجائے تو ہمیں۔ کافی فایدہ ہوگا

2023-06-14 22:59:48


Leave a Comment