Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

امام ابوبکر جصاص (رح) کا تفسیری منہج۔قسط دوم


  • Dr. Shakeel Shifayi
  • Sunday 22nd of January 2023 02:44:55 AM

امام ابوبکر جصاص (ح) کا تفسیری منہج - قسط ( 2)
ہر چند امام ابوبکر جصاص کی تفسیر بنیادی طور پر احکامی نوعیت کی ہے یعنی انہوں نے اُن آیات کی تفسیر لکھی ہے جن میں یا تو وضاحتاً شرعی احکامات بیان ہوئے ہیں یا پھر استنباطاً  شرعی احکام برآمد ہوتے ہیں لیکن اس تفسیر میں صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ اس میں شرعی احکام کے تفصیلی دلائل بھی ملتے ہیں ' آیات سے مستنبط ہونے والے نِکات و فوائد پر بھی روشنی پڑتی ہے' لغوی بحثیں بھی ہیں ' عقائد پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے - امام جصاص تفسیر کے مقدمے میں لکھتے ہیں :
" و قد قدّمنا في صدر هذا الكتاب مقدمة تشتمل علىٰ ذكر جُملٍ مما لا يسع جهله من أصول التوحيد ' و توطئةٍ لما يحتاج إليه مِن معرفة طرق استنباط معاني القرآن ' و استخراج دلائله' و أحكام الفاظه وما تتصرف عليه أنحاء كلام العرب' و الأسماء اللغوية ' و العبارات الشرعية إذ كان أولى العلوم بالتقديم معرفة توحيد الله و تنريهه عن شبه خلقه' و عما نحله المفترون من ظلم عبيده والآن انتهى بنا القول إلي ذكر أحكام القرآن و دلائله" کتاب کے شروع میں ہم نے ایک مقدمہ درج کیا ہے جو اصول توحید کے اُن جملوں پر مشتمل ہے جن سے لا علم رہنے کی کوئی سبیل نہیں نیز قرآن سے معانی مستنبط کرنے کے طریقوں کی معرفت ' اس کے دلائل کا استخراج اور اس کے الفاظ کے احکام کی احتیاج مزید برآں کلامِ عرب کی جہتیں' اسماء لغویہ ' عبارات شرعیہ جن امور میں دخل پاتے ہیں اُن کو سمجھنا آسان کردیا ہے - یہ معلوم ہے کہ سب علوم سے مقدم توحید الٰہی کی معرفت ہے اور اللہ تعالیٰ کو تمام تشبیہات اور جو کچھ بندوں کے ظلم نے اس کی طرف منسوب کیا ہے منزہ قرار دینا ہے یہاں تک کہ بات احکام القرآن اور اس کے دلائل تک منتہیٰ ہوئی "
ڈاکٹر صفوت مصطفیٰ اپنی کتاب" امام ابو بکر الجصاص و منھجه في التفسير " کے صفحہ 151 پر لکھتے ہیں " فالواضح من کلامه أنه اهتم في هذا الكتاب اهتماماً بالغاً بآيات الأحكام و دلائلها و أن تفسير هذه الآيات و استنباط الأحكام الفقهية هو أهم موضوعات تفسيره "( دارالسلام - قاهرة ط 2008)"  اُن کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے احکامی آیات اور ان کے دلائل کا زبردست اہتمام کیا ہے اور یہ کہ ان آیات کی تفسیر اور ان سے فقہی احکام کا استنباط اس تفسیر کا اہم موضوع رہا ہے "امام ابوبکر جصاص آیات کی تفسیر کو سورتوں کی ترتیب کے مطابق درج کرتے ہیں - پھر ان سے احکام مستنبط کرتے ہیں اور دلائل بھی دیتے ہیں؛ جو موقف اختیار کرتے ہیں اس کی صحت کو ثابت کرنے میں دوسری مماثل آیات ' احادیث نبوی, صحابہ و تابعین کے ارشادات ,علمائے فقہ اور علمائے لغت کے اقوال اور اشعار نیز فلسفہ و منطق سے بھی استدلال کرتے ہیں -ڈاکٹر محمد حسین ذھبی نے اپنی کتاب " التفسیر و المفسرون" میں لکھا ہے کہ جصاص صرف ان آیات سے تعرض کرتے ہیں جن کا تعلق احکام سے ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر صفوت مصطفی ان سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام صاحب ان آیات کو بھی نقل کرتے ہیں جو عقائد سے متعلق ہوتی ہیں - اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر پر تفصیلی گفتگو کرتے ہیں جن کا ذکر کائنات میں اللہ تعالیٰ کی سنتوں کو بیان کرنے والی آیات میں وارد ہوا ہے اس کے علاوہ اسی ضمن میں باطل فرقوں پر رد بھی کرتے ہیں ' ان کے فاسد معتقدات کو واضح کرتے ہیں' نبوت محمدیہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی صداقت کے دلائل بھی پیش کرتے ہیں -مثال کے طور پر سورہ بقرہ کی آیت 163 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " و الهكم اله واحد لا اله الا هو الرحمن الرحيم"اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :" وصفه تعالىٰ لنفسه بأنه واحد انتظم معاني كلها مرادة بهذا اللفظ ' منها :أنه واحد لا نظير له ولا شبيه ولا مثل ولا مساوىَ في شيئ من الأشياء فاستحق من أجل ذلك أن يوصف بأنه واحد دون غيره " اللہ تعالیٰ نے اپنا وصف بیان کیا کہ وہ واحد ہے - اس لفظ نے تمام مرادی معانی کو سمیٹ لیا - ان میں یہ ہے :وہ اکیلا ہے' اس کی کوئی نظیر نہیں' کوئی شبیہ نہیں ' کوئی مثیل نہیں' نہ وہ کسی چیز کے جیسا ہے - پس اس بنا پر وہ اس کا مستحق ہے کہ اُسے اپنے غیر سے " واحد" موصوف کیا جائے -نکات و فوائد کا سلسلہ اسی پر ختم نہیں ہوتا - آگے لکھتے ہیں :" و منها :  أنه واحد في استحقاق العبادة والوصف له بالالوهية لا يشاركه فيها سواه" ان میں یہ بھی ہے :وہ اکیلا ہے ' عبادت کا مستحق ہونے اور صفتِ الوہیت میں کوئی اس کا ساجھی نہیں"و منها  : أنه واحد ليس بذي ابعاض ولا يجوز عليه التجزي و التقسيم لأن من كان ذا ابعاض و جاز عليه التجزي و التقسيم فليس بواحد على الحقيقة"ان میں یہ بھی ہے :وہ اکیلا ہے اور اس کے حصے نہیں اور نہ اس پر اجزاء و انقسام کا اطلاق کیا جا سکتا ہے کیونکہ جس کے حصے ہوں اور اس پر اجزاء و انقسام کا اطلاق درست ہو تو وہ درحقیقت  "واحد" نہیں ہوتا "و منها :  أنه واحد في الوجود قديماً لم يزل منفرداً بالقِدم لم يكن معه وجود سواه - فانتظم وصفه لنفسه بأنه واحد هذه المعاني كلها" ان میں یہ بھی ہے :وہ اکیلا ہے ' اپنے وجود میں قدیم ہے اور ازل سے منفرد ہے' وہ تھا اور اس کے ساتھ کوئی اور نہ تھا - پس اللہ تعالیٰ کا اپنی ذات کو واحد سے موصوف کرنے نے ان تمام معانی کا احاطہ کر لیا -
قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ" واحد" کی کتنی شاندار تفسیر لکھی ہے - اللہ تعالیٰ کی ہر عیب سے تنزیہہ بھی کی' توحید کا عطر بھی کشید کیا ' اللہ کی تعریف و توصیف بھی ہوئی ' باطل فرقوں کا تعاقب بھی کیا' مجسمین و مشبہین اور منکرین صفات کی لغویت بھی واضح ہوئی ' فلاسفہ کا رد بھی ہوا - ان آیات کی تفسیر میں امام جصاص کی ذہانت بول رہی ہے - امام جصاص نے عقائد کے علاوہ جن دوسرے امور سے تعرض کیا ہے ان میں قراءات' لغت ' شعر' حدیث' جرح و تعدیل ' ناسخ و منسوخ' اسبابِ نزول اور تاریخ وغیرہ شامل ہیں - ڈاکٹر صفوت مصطفی لکھتے ہیں"إن القارئ في كتاب" أحكام القرآن " يمر بصفحات كثيرة منه ' وهو لا يشعر أنه يقرأ كتاباً وضع أصلاً لبيانِ آيات الأحكام و إنما يجد نفسه في جوّ تفسيري رائع و كأن الإمام الجصاص كان يحس بأن التعرض لكتاب الله لا ينبغي أن يكون مقتصراً علىٰ جانب واحد من جوانبه الكثيرة و لذلك حاول أن يعوض - قدر الإمكان - ما استغرق منه الجانب الفقهي - فساق في كتابه - من حين إلى حين آخر - بعض هذه النفحات التفسيرية العامة " احکام القرآن کا قاری کئی صفحات سے گزرتا ہے اور اسے یہ شعور بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک ایسی کتاب پڑھ رہا ہے جو اصلاً احکامی آیات کی وضاحت کے لیے لکھی گئی ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو ایک خوبصورت تفسیری فضا میں پاتا ہے - گویا امام جصاص کو اس بات کا احساس تھا کہ کتاب اللہ سے تعرض ایک ہی جانب پر مکتفی نہ ہو اسی لئے انہوں نے یہ کوشش کی کہ بقدر امکان فقہی جانب کے ساتھ ساتھ کتاب میں وقفے وقفے سے بعض عمومی تفسیری جھونکے بھی شامل ہوں
امام جصاص جب کسی لفظ کے معنی اور تفسیر بیان کرتے ہیں  تو ساتھ ہی اس لفظ کے مقتضیات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں - اگر اس سے کوئی حکم ' نکتہ' فائدہ مستنبط ہو رہا ہو تو اس کی علت بھی بیان کرتے ہیں - سورہ فاتحہ کی تفسیر میں متعلقہ مباحث کو نقل کرنے کے بعد سورہ فاتحہ کے نکات درج کرتے ہیں - پہلے اپنی سند سے وہ حدیث نقل کی ہے جو امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں ابو سعید خدری سے روایت کی ہے جس میں ایک صاحب کو سانپ کے کاٹنے پر دم کرنے کا ذکر ہے - پھر لکھتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کی تفسیر میں ہم نے جو احکامات بیان کیے ہیں ان کا مقتضا یہی ہے کہ ہم اللہ کی حمد کرنے والوں میں سے ہوں - اس کی تعلیم خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی کہ ہم اس کی حمد و ثنا کیسے کریں اور اس کے حضور دعا کیسے کریں - یہ دلیل ہے اس حقیقت کی کہ دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ہونی چاہیے - سورہ میں پہلے حمد آئی ہے پھر ثنا اور اخیر میں دعا - یہ الحمد للہ سے لیکر مالک یوم الدین تک ہے - إياك نعبد دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ عبادت صرف اللہ کو سزاوار ہے کسی غیر کو نہیں - إياك نستعين میں استعانت کا مطلب یہ ہے کہ اپنی عبادت کی انجام دہی نیز تمام دینی و دنیوی امور میں صرف اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی جائے  ' پھر اھدنا الصراط المستقيم میں دعا کی طرف رہنمائی ہے اور یہ کہ مستقبل میں اس پر استقامت نصیب ہو اور یہ اللہ کی توفیق ہے جس سے کفار محروم ہیں لہذا وہ غضب و عقاب کے مستحق قرار پائے -
سورہ فاتحہ کا ایک نام ام الکتاب بھی وارد ہوا ہے - امام جصاص یہاں پر لفظِ أم پر گفتگو کرتے ہیں - أم کے معنی بیان کرنے میں وہ ایک مصرعہ سے دلیل لیتے ہیں جس میں شاعر کہتا ہے  : " الأرض معقلنا و كانت أمّنا" ( زمین ہمیں باندھے ہوئی ہے اور وہ ہماری أم ہے) یہاں زمین کو أم کہا کیوں کہ زمین ہی سے ہماری ابتدا ہوئی ہے - اسی طرح سورہ فاتحہ کو أم القرآن کہا جاتا ہے - پھر اس سلسلے میں احادیث اور سلف کے اقوال نقل کیے ہیں -
اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت 102 میں جہاں سحر کا ذکر آیا ہے انہوں نے اس کا ایک مستقل باب قائم کیا "باب السحر و حکم الساحر" اس میں تفصیل کے ساتھ سحر کے معنی اور اقسام بیان کیے 'اس کے احکام پر روشنی ڈالی - لکھتے ہیں :
"قد تكلمنا في معنىٰ السحر و اختلاف الفقهاء بما فيه كفاية في حكم الساحر و نتكلم الآن في معاني الآية و مقتضياتها"
" ہم نے سحر کے معنی اور ساحر کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف پر کافی گفتگو کی اب ہم اس آیت کے معنی اور اس کے مقتضا پر بات کریں گے -

...................(جاری)...................

 


Views : 361

Leave a Comment