مقصد تخلیق انسان


Asi Ghulam Nabi Wani
Monday 2nd of January 2023 05:56:43 PM
               

مقصد تخلیق انسان
    اللہ نے ابتداء میں تمام مخلوق کو پیدا کر کے سامنے لایا ان سے مخاطب ہوا اور کئی ایک باتوں سے پردہ اُٹھایا۔ اللہ نے اپنا ایک ارادہ ظاہر کیا کہ میں اپنی ذات کو چھپا نا چاہتا ہوں۔اور ظاہر میں کسی کو نظر نہیں آؤں گا یہاں تک کہ کسی کو بظاہر کھلے طریقے سے پتا نہ چلے گا کہ کون مالک ہے او ر کس کا مالک ہے۔ مخلوق کو بظاہر دور رہنا ہوگا جیسے وہ ایک اندھیرے میں ہیں لیکن انہیں اس ظلمت کو مٹانا ہوگا اور میں گھات لگا ان کا نظارہ کر
رہاہوں گا۔ لیکن ان کا کمال یہ ہوگاکہ وہ مجھے اس گھات میں رہنے کے باوجود دریافت کریں۔ اس بات کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں نے سنا۔خدا  کے اس اعلان کو جنوں اور انسانوں نے بھی سنا۔سبھوں کے سامنے اپنی مشیّت ظاہر کر کے ایک بڑی خوشخبری سے بھی اپنی مخلوق کو آگاہ کیا کہ جو مخلو ق چھپ کر رہنے کے باوجود مجھے دریافت کرے اس کو میں کائنات کے سب سے بڑے انعام سے نوازوں گا ۔ اللہ کا یہ اعلان زمینوں، آسمانوں، پہاڑوں اور غیر متحرک اشیاء نے سنا۔ جنوں اور انسانوں نے سنا۔ لیکن انسان کے بغیر سبھوں نے نہایت ہی ادب سے عرض کیا کہ اے اللہ کون ہے جو ایسی بے جا جرأت کرے۔ ایک طرف آپ اُسے چھپ کر ہی روزی عطا کریں گے اور اس پر کوئی بھی چاہے اچھا ہو یا بُرا یعنی کچھ بھی کرنے کی اس کو آزادی ہوگی ایسی صورتِ حال میں پھنس کر یہ ایک نہایت ہی مشکل امتحان ہو گا اس میں پھنسنا ہماری صبر اور طاقت سے باہر ہے۔سبھوں نے اپنے مہربان دوست یعنی اللہ سے اس قسم کی جدائی کو برداشت کرنے کے متعلق اپنا اپنا عذر پیش کیا اور مدنظر یہی بات تھی کہ اگر پیدا کرنے والا ہی چھپ کر  رہے گاتو اُس کو ڈھونڈنا کس کے ہمت کی بات ہے۔اللہ تعالیٰ کی یہ زبردست تقریرسن کر صرف انسان آگے بڑا اور کائنات کے سب سے بڑے انعام کی لالچ میں آکر آزمائش کے اس بوجھ کو اُٹھانے پر تیار ہوا۔اللہ کی اس مشیت پر انسان کا آگے بڑھنا اور اس بوجھ کو اپنے کندھوں پر اُٹھانے کی ذمہ داری لینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اس پر اللہ نے دیگر مخلوقات کے سامنےفخریہ ایک طرح سے فخریہ انداز میں کہا کہ لوجی یہ بندہ میری مشیت کا خریدار ہے لیکن ذمہ داری لے کر اگر ابن آدم اس کو نبھانے میں کامیاب نہ ہوا تواُس کے پیشِ نظر اس کو ظلوماً جہولا کے خطاب بھی نوازا۔ کیوں کہ آقا سے دورپڑ کر تاریکیوں بھٹکنا کوئی معمولی عہد و پیمان نہیں تھا اور پھر ان اندھیریوں میں بھٹک کر اپنے آقا کو تلاش کرتے رہنا کوئی کھیل تماشا نہیں تھا۔ اُس کے خوف کو دل میں بٹھاتے ہوئے اس کے وعدوں پر جیتتے ہوئے زندگی گزارنا جان جھوکوں کا کام تھا لیکن انسان چونکہ اس قسم کی پُر خطر ذمہ داری سرپر لینے کے لیے تیار ہوا لہٰذا اللہ نے انسان کو اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ اب تجھے اس دیگر پیدائش پر فوقیت حاصل ہے۔ اور ان سب کو تیری ماتحتی میں رکھوں گا اور سب دیگر مخلوقات تمہاری تابع ہو گی اس کو مخول نہیں سمجھنا۔انسان کو خبردار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ میری تلاش اور جستجو کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا اور اگر ایسا کرو گے تو تمہیں آگ میں جلا دوں گا۔ بگاڑ کا طور طریقہ اختیار نہ کرنا۔ میری مصنوعات کو خدا کا درجہ نہ دینا مثلاً چاندی، سونا،سورج اور چاند وغیرہ۔ میرا شریک کسی کو نہ بنانا۔ انسان نے اس سب پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا  اور اللہ نے ساری دیگر مخلوقات کو اس پر گواہ بنایا۔انسان سے پہلے چونکہ ملائکہ وجود میں آئے تھے اور خاموشی کے ساتھ اللہ کی تابعداری میں مصروف تھے۔انہوں نے شور اُٹھایا۔ کہ اے اللہ کہیں یہ مٹی کا پتلا دنیا کو آلام و مصائب سے نہ بھر دے اور فساد برپا نہ کرے۔ ہم چونکہ حضور کے غلام نہایت ہی مطیع و فرمانبردار ہیں لہٰذا ہم کوہی ذکر و فکر کیاس ڈیوٹی پر معمور فرمادیجئے جو ہم بہت پہلے سے جناب کی بارگاہ میں ٓں انجام دے رہے ہیں۔ فرشتوں کا یہ خدشہ چونکہ بالکل بے حقیقت بھی نہ تھا کیوں کہ بعد میں سبھوں نے دیکھا کہ واقعی انسانیت کے مختلف ادوار میں انسانوں کی اکثریت نے دنیا کو خون خرابے سے بھر دیا لیکن فرشتے چونکہ اللہ رب العزت کے اصل منشاء سے باخبر نہ تھے۔ وہ انسانوں کو اور ان کے افعال و اطوار کو ان کی اکثریت کے لحاظ سے دیکھ رہے تھے اس پر اللہ نے فرمایا کہ تم اس بات کو نہیں جانتے ہو جو میں جانتا ہوں۔ انسانوں کا اتنا بڑا ہجو م اصل میں ہمارا مطلوب نہیں ہے بلکہ چُن چُن کر صرف وہی افراد مطلو ب ہیں جو اس آزمائش میں پورے اُتریں گے اور بظاہر  میری غیرموجودگی میں میرا خوف اور مجھ ہی سے امید باندھ کر خلافت ونیابت کا بوجھ اُٹھائیں گے ان کو ہی چُن چُن کر جنت میں پہنچانا مطلوب ہے اور جو ظاہر میں تو اس وقت اس امانت کے بوجھ کو اُٹھانے کا وعدہ کر رہے ہیں اور پھر اپنے وعدے سے بے فکر بن جائیں گے ان کو اُن کے کو کیفرکردار تک پہنچاکر ہی رہوں گا اور اس طرح اپنی مشیت کو پورا کروں گا کہ صالحین سے جنت سجاؤں گا اور بغاوت کرنے والوں کو اپنی شان قہاریت کے تحت جہنم رسید کروں گا۔لہٰذا جو کچھ میں جانتاہوں تم نہیں  جانتے ہو اور آپ کو بجُز رضا و تسلیم کے آگے بڑھنے کی جسارت نہ کرنی چاہیے۔ صالحین اور غیر صالحین کا سارامنظر اس دُنیا میں مشاہد ہ کرکے جب میں چاہوں گا تب اِس دنیا کو زیر وزبر کروں گا اور اپنی جمالی و جلالی شان کا اظہار کروں گا۔خداکی یہ تقریر سن کر کائنات کا ذرّہ ذرّہ حیرت میں ڈوب گیا۔ کائنات کے خالق ومالک نے حکم دیا کہ اب اس آدم کے آگے سجدہ کرو۔ سبھوں نے سجدہ کیا لیکن ایک نہ ماننے والا کھڑا رہا اوراس نے سجدہ نہ کیا۔ خدانے فرمایا کہ جلدی سجدہ کرو۔ یہ ابلیس جن تھا اُس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ مجھے کچھ گزارشات کرنے کی مہلت دیجئے اور فوری طور ہلاک کرنے سے بچنے کی مہلت عطا فرما دیجئے تاکہ میں دل کی بات بلا کسی خوف و خطرکے عرض کر سکوں۔میں حضور کا ایک نہایت ہی قدیم عبادت گذار ہوں۔ذرا میری گذشتہ عبادت کوبھی یاد فرمادیجئے اگر چہ میرا کلام ایک ناروا حجت ہے اس کے باوجود اپنی عطا سے کچھ میرے حال پر مہربانی فرما دیجئے۔ خدانے فرمایا کہ جلدی اپنے دل کی بات ظاہر کرو ورنہ میں روگردانی کرنے کی پاداش میں تمہارے کان اُکھاڑوں گا۔ اس کے بعد ابلیس نے کہا کہ مجھے آپ کا پہلا حکم یہی تھا کہ وہ کافر ہے جو میرے بغیر کسی اور کو سجدہ کرے اب جب آپ مجھے دوسرا حکم دے رہے ہیں مجھے اس کے معنی و مطلب سے آگاہ فرمادیجئے۔ میں دوہری مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ پھر بات یہ بھی ہے کہ آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا کیا آگ مٹی کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے گی؟ اللہ نے فرمایا تمہارا دریافت کرنا بالکل نامناسب ہے کیا تم نے میری تقریر جو سبھوں کے سامنے کی نہ سنی کہ میں اُن باتوں کو جانتا ہوں جوتم نہیں جانتے ہو۔۔ ابلیس کے ساتھ مکالمے کو ختم کرتے ہوئے اللہ کی پاک ذات نے مجھے خلعتِ خلافت سے نوازا۔ مجھے زمین وآسمان پر فوقیت عطا کی۔ پانی، آگ اور ہوا  پر اختیار دیا کہ تو آگ کو استعمال کرکے طرح طرح کی نعمتیں پکائے گا اور اگر اسی آگ کا غلط استعمال کرنا چاہے گا توا یک دیا سلائی سے ایک دنیا کو راکھ میں بدل دے گا۔ ہوا پر ایسی حکمرانی عطاکی کہ دوسرے عناصر کی مدد سے ہوا کے کندھوں پر سوار ہوجاؤں مثلاً ہوائی جہاز وغیرہ کے ذریعے سے۔ پانی سے پھولوں اور کانٹوں کو تازہ کرسکتاہوں یا اس کے برعکس پانی کی ایک بوند کے لیے کسی کو تڑپا تڑپا کر مار بھی سکتاہوں۔ مٹی پر یہ اختیار دیا کہ اس سے میوے اور  اناج حاصل کروں یا اسی کو رزاق مان کر دھرتی ماتا ہی کی پوجا پاٹ کروں۔ جڑی بوٹیوں سےچاہوں تو اعلیٰ قسم کی ادویات تیار کرسکوں یا اُن سے وہ زہر بنا لوں جو دوسروں کی جان لے لے۔ لوہے پر یہ اختیار دیا کہ کاٹنے والی شمشیر بنا ؤں یا اس کے برعکس خدا کے فرمانبردار بندوں کوہی ماروں یا امانت میں خیانت کرنے والوں کو ماروں۔ اگر اس عطائی طاقت سے چاہوں تو خدا کے ساتھ بغاوت کرنے والوں کا ماروں یا چاہوں تو خدا کے فرمانبردار بندوں کے ہی سر جُدا کروں۔ بنائی ہوئی شمشیر کو کچھ بھی اختیار نہیں کہ وہ میرے حکم و ارادہ سے روگردانی کرے چاہے میں مارنے میں حق بجانب ہوں یا نا حق پر ہوں۔ مجھے لسانی قوت عطا کی۔ بول چال کا اختیار دیا۔ مجھے سچ بولنے کا اختیار بھی دیا تاکہ سب سے اعلیٰ پالنہار کی تعریف کروں یا اُسی کے بھیجے ہوئے دین و مذہب پر حملہ کروں۔ پوری کائنات میں زبان سے بولنے کا اختیار مجھے دیا گیا مگر یہ لسانی طاقت مجھے اس لیے عطا کی گئی ہے کہ میں دنیامیں اس با ت کی گواہی دوں کہ میرا پالنہار سب سے اونچا اور سب سے بڑاہے۔ اتنی طاقتوں کا مالک بنانے کے بعد اگر میں اس کو اپنے خالق و مالک کی طرف سے عطاکردہ عزت واکرام سمجھوں تو میں نے بازی جیت لی اور مجھے اپنے مطلب کو پانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ ان عطائی قوقوں کے احسان کو بھول کر اگر میں اپنے آپ کو کسی کا نائب نہ سمجھوں بلکہ ایک آزاد آقا کی طرح اپنے آپ کو تصور کروں تو مجھ سے زیادہ اور کوئی نقصان میں پڑنے والانہیں ہے دیگر مخلوقات نے عرض کیا کہ اے جہانوں کے خدا آپ سارے  پیداکرنے والوں سے بہتر پیدا کرنے والے ہیں۔ آپ نے پیاری شکل کا انسان پیدا کیا بقیہ سب کائنات کو اس کی خدمت میں لگایا۔ ہماری ایک استدعا بھی سن لیجئے۔ اگر ایسی صفات کا انسا ن بہرے کانوں والا بنے گا اور کتاب سن کر اس کو یاد نہ کرے گا تو چونکہ آپ قانوناً رحمان و رحیم بھی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن بھی آپ ایسے  رحیم و کریم بن جائیں گے کہ حساب لینے کے بغیر ہی اور کسوٹی پر پرکھے بغیر ہی اس کو چھوڑ دیں گے اور اس طرح ہماری ساری خدمت ضائع ہوجائے گی۔ فرمانبردار کائنات کی یہ سنجید ہ بات چیت سن کر میں کانپنے لگا اور اسی دوران میرے مالک نے مجھ سے فرمایا کہ دیکھتے ہو۔ کہ کائنات کس درجہ آپ کی رقیب بنی ہوئی ہے۔اگر چہ میں اپنے ہی قانون کے مطابق قیامت کے روز حساب لینے والا ہوں اور وہ قانو ن میں نے خود ہی وضع کیا ہے اور لکھ کر خشک بھی ہوا ہے لیکن تمہاری  قسمت اورعزت کی شان کو دیکھ کر انہیں رشک آتا ہے اور یہ بے ضرورت بات کہی۔ مالک نے پھر تاکیداً فرمایا کہ اچھی طرح دیکھ اور ان باتوں کو سن۔ خبردار ہوجا اور غیب میں جاکر وعدہ خلافی نہ کرنا۔ ہوش و حواس سے کام لینا۔ میں قیامت کے دن اعلیٰ پایہ کی عدالت قائم کروں گا نہ تم پرکسی کو تہمت لگانے کی ہمت ہوگی اور نہ ہی کوئی تمہارا بیجا سفارشی ہو گا۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ میری اجازت سے کوئی سفارش کرے۔لیکن عمومی طور سے قانونی با ت یہی ہے کہ کوئی خواہ مخواہ کی تہمت تیرے اوپر نہ باندھے گا۔ نہ آپ کے خلاف کوئی چغل خوری کرے گا۔ اگر نیکی کا پلڑا بھاری ہو گا اور زمین کے ساتھ لگ جائے۔ یاد رکھنا تب تو تم جیت گئے اور تم عقل مند اور ماننے والوں میں سے شمار ہوگے۔ حکم ہوگا اپنی نیکیوں کا کھاتہ دائیں ہاتھ میں لے لو۔ حوریں تیری منتظر ہیں مٹھیاں بند کر کے دوڑو۔ اگر بُرے کرتوت غالب آگئے اور وہی پلڑا جھک گیا تو سمجھ لینا تمہاری حالت ایسی ہار سے بہت بُری ہوگی۔ تجھ سے کہا جائے گا کہ نکالو بایا ں ہاتھ اور اپنے بُرے کرتوتوں کا کھاتہ پیٹھ پیچھے بائیں ہاتھ میں لے لو۔ آگ تمہاری منتظر ہے اپنے آپ کو بھی کہیں چھپا کر یہ اعمال نامہ دکھاؤ۔ ہائے افسوس اُس وقت میں دیگر مخلوق کے سامنے نہایت ہی شرمندہ اور غمگین ہوگا۔ میری جو گت بن جائے گی اُس کو دیکھ کر میرے ماتھےپر شکن نمودار ہوں گے۔ وہ فرشتے کس قدر خو ش ہوں گے جنہوں نے ابتداء میں ہی کہا تھا کہ یہ انسان فساد ی اور خون خرابہ ثابت ہوگا۔ ابلیس خوش ہوجائے گا کہ انسان ہارا اور اپنی شکایت دہرائے گا کہ میں نے نہیں کہا تھا کہ انسان کم عقل ہے۔ایسی صورتِ حال میں کون ہوگا جو میری سفارش کرے گا۔ اللہ نے فرمایا میرے ساتھ اس وقت کا یہ وعدہ اچھی طرح یاد رکھوتاکہ حساب کرنے کے وقت تمہارا کوئی گلہ نہ رہے۔ جوکوئی قیامت کے دن وعدہ خلاف ثابت ہو گا چاہے وہ عورتوں میں سے ہو یا مردوں میں سے اور جو کوئی مشرک ثابت ہوگا اُ ن کا ٹھکانا بلا شک و شبہ آگ ہے اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ ایماندا ر جو اپنی نافرمانیوں سے واپس لوٹ کر سچے دل سے توبہ کریں گے اور نافرمانوں کے طور طریقے چھوڑکر میری طرف لوٹیں گے اور بزبانِ حال اعتراف کریں گے کہ اے اللہ اپنی کمزوریوں کے باعث ہم کبھی اس طرف گئے اور کبھی اُس طرف۔ آپ سے دوری اختیار کرکے ظلوما جہلولا  کی میراث میں پھنس کر نفس اور شیطان کے دھوکہ میں آئے لیکن تیرے فضل نے ہماری دستگیری فرمائی اور ہمیں اس بات کی سوجھ بوجھ نصیب ہوئی کہ ہم اپنی جان کے دشمنوں کی تابعداری ہی کرتے  ہیں۔ اپنے  گذشتہ بے ادبی سے پھر کر واپس آئے اب تو ہمارے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کر کیوں کہ ندامت کی آگ سے  ہمارا جسم جل گیا ہے۔ تیری دستگیری سے  ہماری آنکھوں میں روشنی آئی اور تمہارے ساتھ کیاگیا وعدہ  یاد آیا اب تو ہماری حالت زار پر رحم فرما کہ ہم ٹوٹے ہوئے دل لے کر آپ کی خدمت میں شرمندہ رو حاضر ہیں۔ ایسے شرمندہ اقراری مجرموں کی رقت آمیز گفتگو پر مجھے رحم آئے گا جو اگر چہ وہ  بہت دیر سے ہی راہِ نجات کی طرف لوٹے ہونگے،پھر بھی اس قسم کے لوگوں کو وہ حقوق جو میری طرف سے ان پر عائد تھے معاف کروں گا لیکن حقوق العباد کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے جس کی طرف اسی دنیامیں دھیان دے کر اس کا سد ِ باب کرنا چاہئے وگرنہ یہ ایک فتنہ بن کر قیامت کے روز گلے میں لٹکے گا۔

مراد ما نصیحت بود و کردیم
حوالت با خداکردیم و رفتیم

 ترجمہ:ہماری خواہش یہ تھی کہ تجھے نصیحت کریں وہ تو ہوگئی اب تجھے خدا کے حوالے کرتے ہیں اور تم سے رخصت ہوجاتے ہیں۔
ختم شدہ

 


Views: 1724

Last Comments