Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

میرے استاد عبد الرحمٰن حُّراصاحب


  • Salik Bilal
  • Thursday 18th of August 2022 07:18:27 AM

میرے استاد عبد الرحمٰن حُّراصاحب 
میں معلم ہوں کہ تدریس ہے میرا شیوہ 

نا مہذب کو میں تہذیب کی ضو دیتا ہوں 

منگلوار16 اگست2022عیسوی علی ا لصبوح  میں اپنے ایک شفیق استاد محتر م عبد الرحمٰن حُراصاحب کے ساتھ ملاقات کرنے کی غرض سے ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوا ۔موصوف کے پاس میں نے ثانوی جماعتوں میں انگریزی مضمون پڑھا ہے اور بعد ازاں ان سے  مجھے بی۔ایڈ میں پھر سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ میں موصوف کو بحیثیت ایک شفیق استاد جانتا ہوں۔ چونکہ نوے کی دہائی میں حالات بہت کشیدہ تھے تعلیم و تعلم کا عمل عملی طور پر کشمیر میں مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔چند ہی اساتذہ ایسے ہونگے جو اپنی بے لوث محنت اور لگن سے طلباء پر اپنی شخصیت کا اچھا تاثر مرتب کرنے میں من حیث الکل کامیاب ہوئے۔میرے نزدیک ان ہی اساتذہ میں ایک محترم موصوف ہیں۔ جہاں تک میری یاداشت مجھے ساتھ دے رہی ہے میں نے ان کو ہمیشہ اپنی ڈیوٹی کا پابند پایا۔اسکول میں میں نے ان کو ہمیشہ کتاب کے ساتھ مشغول پایا۔اگر حرّا صاحب کو ڈھونڈنا ہے تو”لائبرری میں جاو،  وہیں ہونگے“یہ طلباء میں ایک عام سا رحجان تھا۔بچوں کے ساتھ ایک جیسا برتاو کرتے تھے۔ کمزور اور ذہین دونوں قسم کے طلباء کو عزیز رکھتے تھے۔کمزور طلباء کو ذہین طلباء کی سطح تک پہنچانے کی انتہائی کوشش کرتے تھے۔ کبھی بچوں کو اضافی وقت دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔میں نے اضافی وقت میں ہی ان سےانگریزی فونیٹکس سیکھیں۔جس دن میں کلاس اٹینڈ نہیں کرتا تھا تو دوسرے دن پوچھتے تھے کہ کل کلاس اٹینڈ کیوں نہیں کی۔بس یوں محسوس ہوتا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد یہ سمجھا ہے کہ مجھے اللہ نے تعلیم و تعلم کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ بہر حال و بہر کیف ایسے استادوں کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنا کسی نعمت مترقبہ سے کچھ کم نہیں ہے۔ 

جونہی میں مشفق استاد کے مکان کے نزدیک پہنچا میرے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی طالب علمی کا زمانہ یاد آیا بس یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں اسکول میں ان کا کلاس اٹینڈ کرنے کے لیے داخل ہو رہا ہوں۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کچھ دیر بعد حُرا صاحب نکلے جونہی انہوں نے مجھے دیکھا میں نے ان کے چہرے پر بشاشت کے نمایا ں اثرات دیکھے۔مجھے گلاب کی طرح کھلتے چہرے سے خوش آمدید کہہ کر گلے لگایا۔اب ہم دونوں کمرے میں داخل ہوئے اور میں مشفق استاد کے سامنے با ادب بیٹھا۔باقاعدہ مجلس شروع  ہوئی۔ اس مجلس میں موصوف نے اپنے بچپن سے لے کر آج تک کی اپنی تمام زندگی کا خلاصہ بیان کیا۔ اس آپ بیتی سے میں حر ا صاحب کی زندگی کے ان پہلووں سے آگاہ ہوگیا جن سے اب تک میں بالکل ناواقف تھا۔ محترم ایک کھاتے پیتے خاندان یعنی حُرا خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے پاس کافی زمین تھی اور خاندان کے اکثر احباب گورنمنٹ ملازم تھے لہٰذا اس زمین کی دیکھ ریکھ کرنا ان لیے ممکن نہیں تومشکل ضرور تھا۔چونکہ موصوف انگریزی لٹریچر کے ساتھ کافی دلچسپی رکھتے تھے میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے یہ زبان کس سے سیکھی تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے ابتدائی مہارت اپنے چچا جان سے حاصل کری کیونکہ کہ ان کو اس مضمون میں کافی مہارت حاصل تھی۔اس کے بعد میں نے دو انگریز وں جو مشنری اسکول سینٹ جوزف میں بحیثیت فادر کے فرائض انجام دے رہے تھے سے بالترتیب انگریزی گرامر پڑھا۔ جب میں نے موصوف سے ان کے طریقہ تعلیم   سے متعلق پوچھا تو بتایا کہ وہ گرامر کی کوئی شق مثلا  فعل اٹھاتے تھے اور پھر اس کی تعریف کرتے تھے اور کچھ مثالیں بیان کرتے تھے اور اس کے بعد ہم کو مشق میں مشغول کرتے تھے۔ اس طرح ہمیں کامل طریقے سے اس پر عبور حاصل ہو جاتا تھا۔ان انگریزوں کے طریقہ تعلیم کی داد دیتے تھے۔
میں نے ان سے سوا ل کیا کہ مذہبی اعتبار سے آپ کا جکاؤ کس مکتبہ فکر سے ہے تو  اِس کا جواب انہوں نے بہت طویل انداز میں دیا۔ فرمایا کہ جب میں کالج میں پڑھ رہا تھا تو ان دنوں کمیونزم کا کافی لٹریچر یہاں تقسیم ہورہاتھا۔ہم نے بھی اس لٹریچر کو پڑھا اور آہستہ آہستہ اس کے اثرات ہمارے اوپر بھی مرتب ہوئے یہاں تک کہ ہم اس فلسفے کے گرویدہ بن گئے۔ہمیں خدا کی ذات پر شک ہونے لگا کیونکہ یہ فلسفہ خدا بیزاری کا فلسفہ ہے۔یہ وہ فلسفہ ہے جو حوادث عالم کو زمانہ کی جانب منسوب کرتا ہے اور اس کو قدیم  مانتا ہے اس اعتبار سے اس کے ماننے والے”دہری  “کہلاتے ہیں۔یہی لوگ بعد میں خالقِ عالم کا سرے سے انکار کرتے ہیں اور اس طرح شرعی اصطلاح میں ”معطلیت“ کے شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ جو خالق عالم کا منکر ہوتا ہے اس کو ”معطّل“ کہتے ہیں۔ تاہم میرے کچھ دوستوں نے جو جماعت اسلامی کے ساتھ تعلق رکھتے تھے نے مجھے مولانا مودودی ؒکی تفہیمات دی جسکا میں نے بالاستیعاب مطالعہ کیا۔ مولانا مودودیؒ کا طرز تحریر اور استدلال نے مجھے بہت متاثر کیا اور  میں اسلام کی طرف راغب ہوا اور پھر میں نے اسلامی کتب بینی شروع کی۔ تاہم کئی وجوہ کی بنا پر میں اس مشن کا فعال رکن نہیں بن سکا۔ لیکن یہ اختلاف  مالی معاونت کرنے میں مانع نہ بن سکا۔چونکہ ان دنوں یہاں بدعات کا عروج تھاجماعت اسلامی بدعات کے خلاف کمر بستہ تھی لہٰذا بہت ساری چیزوں میں ہم شدید بن گئے مثلاً توسل اور زیارت قبور وغیرہ مسائل میں۔ لیکن جب ملفوظات مولوی ولی ؒ شاہ صاحب (جو کہ میرے والد محترم آسی ؔغلام نبی وانی نے ستّر کی دہائی میں لکھی تھی)کا میں نے مطالعہ کیا تو مجھے توسل اور دوسرے اختلافی مسائل میں درمیانی مسلک معلوم ہوا اور تب سے ان مسائل کے بارے میں میرا وہی عقیدہ ہے جس طرح اس میں بیان کیا گیا ہے۔عملی اعتبار سے میں چند لوگوں سے متاثرہوا جو اسلامی تعلیمات پر ذاتی اعتبار سے عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو نفع پہنچانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ان لوگوں کے پاس میں اکثر دعا وغیرہ کے لیے جاتا ہوں۔ بقول موصوف یہی اصلی صوفیاء ہیں کیونکہ صوفیاء کی زندگی کا مقصد مخلوق خدا کو نفع پہچانا ہوتا ہے۔ باقی تمام مکاتب فکر کے ساتھ مجھے حسن ظن ہے کیونکہ سبھی لوگ مسلمان ہیں۔اگرچہ مجھے جماعت کے ساتھ فکری مناسبت ہے تاہم تبلیغ والے بھی اچھا کام کرتے ہیں کیونکہ اس پر آشوب دور میں لوگوں کا تعلق مساجد کے ساتھ بنائے رکھنے میں ان کا کافی رول ہے۔ ان کی یہ وسیع القلبی قابل داد ہے۔ اللہ کرے ہم سب اسی وسعت قلبی کا مظاہرہ کریں تاکہ ہر ایک فکر سے وابستہ افراد اپنے اپنے دائرے میں اسلام کی خدمت میں مشغول ہو جائیں۔ اس کے بعد میں نے مناسب سمجھا کہ مجلس برخواسست ہو کونکہ محترم استاد کافی ضعیف ہوچکے ہیں اور مجلس کو طول دینا مناسب نہیں تھا گر چہ علمی فائدہ پہنچانے کے لیے وہ آرام کے تقاضے کو میرے لیے دبا رہا تھا۔ اللہ استاد محترم کا سیایہ ہمارے اوپر قائم رکھے اور ان کے ایمان و عمل میں اضافہ فرمائے۔ 

 


Views : 1342

Leave a Comment