Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

مولانا محمد اکبر کرمانی صاحب مرحوم ہندواڑہ کشمیر


  •  آسی غلام نبی مؤسس مجلس علمی جموں وکشمی
  • Tuesday 19th of July 2022 05:29:04 PM

مولانا محمد اکبر کرمانی صاحب مرحوم ہندواڑہ کشمیر
    حضرت مولانا مفتی محمد اکبر کرمانی مفتی اعظم ضلع کپوارہ بارہمولہ سابقاً کرمانی ساداتی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔اس خاندان کی ایک شاخ دِوَسپورہ  ماگام ہندوارہ میں قیام پزیر ہوئی۔ جو مولوی خاندان میر واعظ شمالی کشمیر کے نام سے موسوم ہوئے۔حضرت مفتی صاحب کے والد محترم مولوی مقبول شاہ کرمانی فارسی اور عربی کے جیّدعالم دین تھے۔اُن کے والد مولوی رسول شاہ صاحب ِکرامات بزرگوں میں سے تھے۔جنکی کرامتیں زبان زد خلایق مشہور تھیں۔مولوی صاحب کے ایک چچامولوی عبداللہ کرمانی تھے جو شاہ صاحب یعنی مولوی انور شاہ صاحب لولابی ثم دیوبندی کے شاگردِ رشید تھے جن کو شاہ صاحب نے”نجوم من نجوم اللہ“ فرمایا ہے۔ حضرت مولانا کی والدہ ماجدہ ستارہ بانو مولوی عبدالغنی شاہ صوفی حمام سوپور کی دخترنیک اختر تھی جن کے حقیقی بھائی مولوی نورالدین شاہ تھے جو علامہ کشمیری کے تلا مذہ میں سے تھے اور ان کے ساتھ خاندانی تعلق رکھتے تھے۔ حضرت مولانا نے ابتدائی فارسی اور عربی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور مولوی یوسف صاحب پُتواری ماگام کے رہنے والے تھے۔ پھر علم کی تشنگی اور بڑھ گئی اور اشارہ غیبی بھی ملا تو اُوڑی سیکٹر سے ہو کر راولپنڈی پہنچ گئے۔وہاں سے امرتسر وارد ہو گئے جہاں مولوی عبدالکبیر صاحب بچروارہ کرالہ گنڈ مدرسہ نصرت الاسلام چلا رہے تھے وہاں سے مزید علم حاصل کر کے لاہور پہنچ گئے جو اس زمانے میں علم کا مرکز مانا جاتا تھا۔ وہاں سے سند ِفراغت حاصل کر کے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا جہاں اُس وقت مولانا حسین احمد مدنی صاحب محدثِ کبیر تھے۔ مولانا حکیم الامت  اشرف علی تھانوی صاحب سرپرست اعلیٰ تھے اور اعزار علی دیوبندی صاحب شیخ الادب تھے۔ وہاں صرف دورہ حدیث کی تکمیل کی اور واپس کشمیر  آگئے۔چونکہ ان کے گھر رجعت کے بعد ہی ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور گھر میں بڑے یہی تھے اس لئے گھر میں رہنا ہوا کچھ عرصہ تبلیغی محنت میں مشغول رہے،پھر اتفاقاً ہندوارہ جامع مسجد کے امام مولوی غلام محمد شاہ جوان سالی میں انتقال کر گئے اور یہاں کی اوقاف کمیٹی نے حضرت مولانا کے بارے میں سنا تھا خاص کر ان کی قرأت اور خطابت کے بارے میں۔تو انہوں نے بغیر کسی تردُّد کے انہیں جامع مسجد کا امام و خطیب مقرر کیا جو انہوں نے پوری زندگی میں بحسن و خوبی انجام دیا۔ ہندوارہ کی کوئی مسجد یا مجلس نہ ہو گی جس میں  آپ نے دین کا کام نہ کیا ہو بلکہ پوری جانفشانی و لگن کے ساتھ دینی کام انجام دیتے تھے۔ اسکے ساتھ دن میں آپ درسگاہ میں پڑھاتے تھے جہاں ہزاروں بچوں نے آپ سے اُردو،عرببی اور فارسی پڑھا ہے اس کے علاوہ صباحاً ومساء ً  مسجد میں قران پڑھاتے تھے جو برابر آخری عمر تک جاری و ساری رہا۔ آپ بہترین قاریئ القرآن تھے اور خطابت کے اعلیٰ معیار پر فائز تھے اس لیے لوگ دور دور سے آپکی قرأت اور خطاب سننے کے لیے آتے تھے۔ آپ طبیعتاً بڑے حلیم اور بردبار تھے۔ صابر وشاکر رہتے تھے کبھی کسی کے متعلق بد گمانی نہیں کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ چالیس سال تک ایک ہی گھر میں قیام پزیر رہے کھبی ڈھیرا نہیں بدلا۔ آپ صاحب فتویٰ عالم تھے۔ آپ آخری عمر تک اپنے ہاتھ سے فتویٰ لکھتے تھے جن کی علمی بنیاد بڑی مضبوط ہوتی تھی اور کبھی علمی بحثیں بھی ہوتی تھیں جن میں آپ کا علمی پایہ بہت بلند رہتا تھا اور تمام مولوی حضرات آپ ہی کے علمی بحث کو اہمیت دیتے تھے اور وہ حرف آخر مانا جاتا تھا۔ آپ کو اللہ نے ظاہری اور باطنی بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا خاص کر آپ مستجاب الدعو اۃ تھے۔ اِستسقاء کی دُعا کرتے تھے تو فوراً بارش ہوتی تھی اور دھوپ کے لیے دُعا کرتے تھے تو دھوپ ہو جاتی تھی جس کو آج بھی لوگ یاد کر تے ہیں جو زندہ ہیں۔چونکہ یہ دنیا سب کے لیے آنے جانے کی جگہ ہے اس لیے حضرت مولانا نے بھی اٹھاسی سالہ زندگی گزار کر اس دنیا کو خیر باد کہا23 مارچ   2001کو عالم فنا سے عالم بقا کی طرف رجعت فرمائی جو ہر مخلوق کے لئے اللہ کا فیصلہ ہے جس میں کسی کا استثناء نہیں ہے۔۔ فقہ اسلامی پر آپ کی گہری نظر تھی۔ مسائل کے فہم اور فراست میں آپ دقیق النّظر تھے۔ مزید سیرتِ پاک اور تاریخ اسلامی سے بہت دلچسپی رکھتے تھے  جس کا اظہار آپ کے بیانات سے ہوتا تھا۔احقر مولانا نظام الحق ندوی صاحب کا ممنون ہے جنہوں نے اگر چہ اختصار کے ساتھ ہی سہی لیکن ضروری معلومات سے نوازا اور احقر حضرت مولانا محمد اکبر صاحب کرمانی ؒ کے متعلق یہ مقالہ لکھنے میں کامیاب ہوگیا لیکن جہاں تک احقر کا اُن کے ساتھ ذاتی ملاقاتوں کا تعلق ہے تو احقر نے بھی آپ کو ملنسار، معاملہ فہم اور اور دقیق النظر عالم کی حیثیت سے پایا۔ احقر کو اُن کے ساتھ نجی محفل میں مستفیدہونے کا موقع ملا۔ آپ تبلیغی جماعت کو قدر کی نِگاہوں سے دیکھتے تھے۔ اور اُس دور میں جب منشی اللہ دتا صاحب کشمیر تشریف لائے تھے اُ ن کے حالات اور کرامات کو دل کھول کر بڑے دلکش انداز میں بیان فرماتے تھے۔ آپ باتوں باتوں میں سامعین کا دل موہ لیتے تھے۔ ظاہری حُسن کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے باطنی  خوبیوں سے بھی نوازاتھا۔ پورا قصبہ آپ کی بزرگی اور علمی کمالات کا معترف تھا۔ جو شخص آپ کی مجالس میں شریک ہوتا تھا اُسکا دل تا دم آخر مجلس کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا۔ خدا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔سیر تِ صحابہ بیان کرنے میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا۔اللہ تعالیٰ سے  دعا ہے کہ  مولانا کے فرزند اور پوتے کو بھی پوری زندگی خدمتِ دین میں صرف کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ قبول فرمائے۔آمین۔

 


Views : 1460

Leave a Comment