عبدالقدیرفاضلی صاحب(گامرو) بانڈی پورہ
یہ1971عیسوی کی بات ہے کہ احقر سوپور میں ٹرینگ کررہا تھا ایک دن اچانک ہمارے اساتذہ نے ہمیں سکول کے صحن میں جمع ہونے کے لیے کہا۔ اس دن محکمہ تعلیم کی ڈائر یکٹر صاحبہ بھی سینٹر میں تشریف لائی تھی۔ ہمیں غالب گمان ہو گیا کہ شائد ڈائریکٹر صاحبہ کو کچھ کہنا ہوگا۔ تما م اساتذہ اور زیر تر بیت اساتذہ جمع ہوگئے۔ سامنے مہمانوں کے لیے کُرسیاں لگائی گئیں اورہم فرشِ زمین پر بیٹھ گئے کہ یکا یک ایک باریش بزرگ ہمارے سامنے نمودار ہوگئے جن کے سر پر عمامہ تھا۔ہمیں بتایا گیا کہ ان کو طلباء کے سامنے تقریر کرنی ہے۔ ایک بلیک بورڈ بھی لگایا گیا۔ اس بزرگ نے اپنے ہاتھ میں ایک سفید چاک لیا اور نہایت ہی فصاحت و بلاغت کے ساتھ طلباء کے سامنے اپنی تقریر شروع کی۔ لیکن ان کے سمجھانے کا جو انداز تھا وہ ایک مقرر کا نہیں تھا،بلکہ ایک مدرس کا انداز تھا ایسا لگتا تھا کہ خدا کا یہ نیک بندہ پورے درددِل کے ساتھ سامعین کو کچھ ذہن نشین کرنا چاہتا ہے اور یہ شخص ایک جانداز مشن کمر بستہ ہے۔ زیر تربیت اساتذہ کو یہ بات کچھ عجیب بھی محسوس ہوئی کہ ڈگری یافتہ اساتذہ اور زیر تربیت اساتذہ کے سامنے ایسی وضع وقطع کا آدمی کیابیا ن کرے گا۔ لیکن انہوں نے جس بات کو اپنا موضوع بنایا وہ تھا”تعلیم کا مقصد“ اپنے افتتاحی کلمات میں مولانا عبدالقدیر صاحب فاضلی نے فرمایا کہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو مقصد تعلیم کا ہے وہی مقصد زندگی کا بھی ہونا چاہئے۔ آپ نے اپنی تقریر کی پہلی مجلس میں ہی فرمایا کہ تعلیم کامقصد قیام عدل ہے۔عدل کامطلب ہے اِنصاف۔یہ انصاف انسان کو اپنے ساتھ بھی کرنا ہے اور حیوانات کے ساتھ بھی۔ اسی قیام عدل کو انگریزی زبان میں (Establishment of justice)کہتے ہیں۔ عرضیکہ انسان کی حتمی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ پوری دنیا میں عدل ہی کا بول بولاہونا چاہیے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تعلیم وہ طریقہ کار ہے جس سے ایک بچے کی جسمانی،ذہنی اور اخلاقی تربیت ہو۔ اور وہ تربیت ایسی ہو کہ وہ سماج کا ایک کامیاب فرد بن جائے۔ چونکہ مولانا نے تین نقطے ابھارے جسم، ذہن اور اخلاق۔ اس کے بعد ہر ایک جز پر عالمانہ و فاضلانہ گفتگو فرمائی۔ مثلاً مولانانے بلیک بورڈ پر ایک خوبصورت انداز میں جسم کے ساتھ انصاف کر نے کی ایک دلکش تصویر ان الفاظ میں کھینچی کہ جسم کو عمدہ غذہ دی جائے اور اس میں ان باتوں کالحاظ رکھے(1)کیا کھاؤں (۲) کیوں کھاؤں (۳) کتنا کھاؤں (۴) کب کھاؤں (۵) اور کیسے کھاؤں یعنی کھانا کھاتے وقت کن آداب و اطوار کا خیال رکھا جائے۔
جسم کوپوری نیند کاموقع دیا جائے۔ جسمانی ورزش ہو، صفائی کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔ جس میں جسم، لباس اور مکان تینوں شامل ہیں۔ سحر خیزی کااہتمام ہو۔یعنی صبح کے وقت سویر ے ہی اپنے آپ کو اُٹھنے کا عادی بنایا جائے۔ پھر ایک ذیلی عنوان”روکو مت“ کے تحت تین باتوں کی طرف اشارہ فرمایا کہ پیشاب پاخانہ کا تقاضا ہو تو ا س کو نہیں روکنا چاہئے۔ نیند آجائے تو اس کو بھی نہیں روکنا چاہئے۔ جسم کے ساتھ انصاف کرنے کا ایک اور نسخہ مولانا نے یہ بتایا کہ آدمی نشہ تر ک کرے۔ یعنی نشہ آور چیزوں کو ترک کرے۔ اسی طرح خواہ مخواہ کی پریشانیوں سے اپنے آپ کو بچا کر ان پریشانیوں کو ترک کرے۔ ذوق طیب اپنے اندر پیدا کرے۔جہاں تک ذہن کے ساتھ انصاف کرنے کا تعلق ہے ہر طالب علم کو چاہیے کہ مطالعہ فطرت کرے (اسی طرح ذہن کو قوت بخشنے کے لیے مطالعہ فطرت کیا جائے۔ خدا کی یہ کائنات ایک کھلی کتاب ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے۔ اللہ نے اپنی قدرت سے اس کائنات میں کیسا نظم و ضبط پیدا کیا اس کامطالعہ انسان آنکھیں کھول کر کرے۔ اپنے اندر غور وفکر کامادہ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ غور و فکر سے انسان کے لیے مشکل گھتیاں سلجھ جاتی ہیں۔ ان سب کے علاوہ مطاالعہ کتب کیا جائے۔ کتاب مصنف کے ذہن کا قیمہ ہوتا ہے۔ کتابوں کے ذیل میں فاضلی صاحب فرمایا کہ ترجیحی بنیادوں پر چار قسم کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔ سائنس، جنرل نالیج، زباندانی اور مذہبیات، اس طرح فاضلی صاحب نے بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا کہ یہ گو یا اپنے ذہن کے ساتھ انصاف کرنا ہے۔اور آخر پر فاضلی صاحب نے اخلاقیات کے متعلق فرمایا کہ خلاصہ اس موضوع کا یہ ہے کہ انسان کے اندر خدا پرستی کامادہ پیدا ہو۔ چونکہ کچھ لوگ خدا کو ایشور کہتے ہیں اور اس کی عبادت کو بھگتی کہتے ہیں اُن کو میری یہ درخواست ہے کہ وہ ایشور بھگتی یعنی خدا کی عبادت کو اپنائیں۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ انسان اپنے اندر احساس جوا ب دہی پیدا کرے۔ کہ مجھے اپنے ا عمال کا جواب اپنے خالق و مالک کے سامنے دینا ہے۔ اور اپنے موضوع کے آخر پرفرمایاکہ انسان کو چاہیے کہ اپنے اندر انسان دوستی کا وصف پیدا کرے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ بے ہنری کو ترک کر کے کوئی ہنر سیکھے .حسد و عداوت کو چھوڑ کر اپنے اندر جذبہ محبت پیدا کرے۔ خود غرضی کو تر ک کر کے اپنے اندر ایثا ر کا جذبہ پیدا کرے،ظلم کوچھوڑ کرمساوات کو اپنا شعار بنائے۔ اس طرح فاضلی صاحب نے واقعی ایک فاضل کا کردار نبھا کر سامعین کو محظوظ فرمایا۔
دوسری مجلس کا موضوع اور خلاصہ
فاضلی صاحب زیر تربیت اساتذہ کے سامنے اپنا لیکچر دے رہے تھے۔ اس اعتبار سے یہ موضوع سب سامعین کے لیے بڑی دلکشی کا باعث تھا۔ قبل اس کے کہ فاضلی صاحب اس موضوع پر کچھ فرماتے فاضلی صاحب نے نہایت ہی دلکش انداز میں فرمایا کہ جس زمین پر ہم رہ رہے ہیں اس کو علمی زبان میں جمادات کہتے ہیں اور جمادات کا مطلب ہے بے جان چیزیں جیسے دھات، پتھر،پہاڑ وغیرہ بنیادی طور پر یہ تینوں چیزیں بظاہر بے جان ہوتی ہیں،لیکن جمادات کے اسی مجموعے سے اللہ تعا لیٰ کثیر مقدار میں جو چیزیں پیدا فرماتا ہے اِن کو نباتات کہتے ہیں۔ اگر یہ چیزیں اس سطح زمین پر پیدا نہ ہوتیں،تو حیوانات کا جینا ناممکن تھا۔ ان چیزوں کی وجہ سے سطحِ زمیں پر حیوانات کا وجود قائم ہے پھر یہ چیزیں بشمول حیوانات انسانی وجود و بقا کے لیے از بس ضروری ہیں۔گویا قدرت نے دنیا کے اس کارخانے میں جتنی چیزیں پیدا فرمائی ہیں۔ اُن کا آخری خلاصہ یہ ہے ایک انسان کی بود و باش کا سامان فراہم ہو۔ گویا اس طرح ان سب چیزوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت انسان اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے اور وہ تب تک ناممکن تھا جب تک یہ چیزیں موجود نہ ہوں۔ اس طرح انسان مجموعی اعتبار سے ا ن سب چیزوں کا خلاصہ بن گیا۔ اور خلاصہ کا مطلب ہوتا ہے نچوڑ۔جوہر، چیدہ یا چنا ہوا۔ اور جب انسان کا نمبر آتا ہے تو اس دنیا میں ہمیشہ ایک ہی انسان نہیں تھا۔ بلکہ تاریخ کا ہر دور انسان سے آباد دور نظر آتا ہے۔ اور جب ہم انسانوں کی جانچ پڑتال کرتے ہیں تو انسانوں میں بھی سب سے اونچا مقام معلم یا استاد کا ہوتا ہے۔ اس اعتبارسے انبیائے کرام پوری انسانیت کا خلاصہ ہیں کیوں کہ وہی قوم کے بہترین رہنما اور ہمدرد ہوتے ہیں اور دنیا کے اندر جتنے بھی اساتذہ ہیں ان سب کو انبیاء کرام کے اُسوہ کے تحت دنیا کے اندرقیام عدل کی کوششوں میں لگنا چاہیے جس کو انگریزی زبان میں Establishment of justice کہتے ہیں۔اور وہ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک استاد باکردار نہ ہو۔ چیزوں کو تولنے کے لیے ترازو کا استعمال کیاجاتا ہے اور ترازو کاکام بھی Establishment of justice ہو تا ہے یعنی قیام عدل جس طرح ترازو انصاف کے تقاضوں کو پور ا کرنے کے لیے مساوات اور انصاف کو قائم کرتی ہے۔ اسی طرح اس دنیا کے اندر ایک استاد تب ہی مساوات اور انصا ف قائم کرسکتا ہے جب وہ باکردار ہو۔اسی لیے دنیاکے اندر سب سے اچھا کردار انبیائے کرام کا ہوتا ہے۔ ہر استاد کو سب سے پہلے اپنے آپ کو اچھے کردا ر کے سانچے میں ڈالنا چاہیے۔ اور وہ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک اس میں تین باتیں نہ ہوں اور وہ تین چیزیں اسطرح ہیں (۱) علم (۲) کردار (۳) عقل وحکمت۔ جہاں تک علم کا تعلق ہے اس کے تین جُز ہیں ایک قدیم دوسراجدید اورتیسرا پیشہ وارانہ۔قدیم کتابوں کاعلم حاصل کرنا۔ جدید معلومات سے اپنے آپ کو باخبر رکھنا اور اسی کے ساتھ پیشہ ورانہ علم میں مہارت حاصل کرنا غرض کہ ان تینوں شعبوں کے ساتھ اپنے آپ کو مربوط رکھنا چاہیے۔ جہاں تک کردار کاتعلق ہے۔اس کے بھی تین جز ہیں پہلا جُز گفتار ہے۔دوسرو جُز رفتار ہے اور تیسرا جُز طریقہ کارہے۔ استاد کو چاہیے وہ خوش گفتار ہو۔ عربی مقولہ ہے کہ”المرءُ تحت لسانہ“۔ انسان اپنی زبان کے نیچے چھپاہوتا ہے۔اس کے بعد رفتار کا نمبر آتاہے۔انسا ن کی چال ڈھال کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس کا انجام کار کیسا ہو گا۔یہ کب اپنی منزل تک پہنچے گا آیا اس میں استقامت ہے یانہیں اور پھر کردار کے ذیل میں جس بات کا واضح خیال رکھنا چاہیے وہ ایک استاد کا طریقہ کار ہے۔کہ وہ کس انداز میں چیزوں کو انسانی نسل کے سامنے میں پیش کرتاہے۔
آخر پر فاضلی صاحب نے فرمایا کہ ایک استاد کے لیے ضروی ہے کہ وہ عقل و حکمت کا دلدادہ ہو۔ لیکن عقل وحکمت کے لیے بھی تین باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہہہے۔سب سے پہلے”تیاری“ہے یعنی کلاس میں جانے سے پہلے پوری طرح اپنے آپ کو تیار کرے کہ مجھے کیاکہناہے اور پھر اس تیاری کے ساتھ ساتھ غور و فکر بھی کرے کہ و ہ کون سا سہل ترین طریقہ اختیارکرکے سامعین کو بات سمجھا سکتا ہے۔ اور آخر پر احتسا ب کانمبر آتاہے۔ کہ ہر استاد اپنا محاسبہ کرے کہ مجھے اپنے فرض منصبی کو نبھانے میں کہاں چوک ہوگئی تاکہ آئندہ اس کی تلافی ہو۔ واقعی عبدالقدیر صاحب ایک بہترین استادہی نہیں تھے بلکہ اس خطہئ کشمیر میں غزالی وقت تھے۔اللہ ان کی قبر کو نورسے بھردے۔