Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

امام ابن جرير طبری رحمہ اللہ


  • Dr.Shakeel Shifayi
  • Thursday 10th of March 2022 03:50:10 PM

 امام ابن جرير طبری رحمہ اللہ
تفسیری منہج ( قسط ٣)

(گزشتہ سے پیوستہ)

   

 علمِ لغت سے استدلال

 امام ابن جرير کسی لفظ کے متعدد معانی میں سے کسی ایک معنی کو متعین کرنے میں لغت کو پیش نظر رکھتے ہیں لیکن مجرد لغت پر انحصار نہیں کرتے بلکہ عرب شاعری اور قرائن سے بھی کام لیتے ہیں -   ڈاکٹر عباس توفیق لفظِ آیة کے متعلق لکھتے ہیں " أن تكون آية علامةً يُعرف بها ما قبلها و ابتدائها كالآية التي تكون دلالة علي الشىء يُستدل بها عليه - وقد عزز هذا المعنى بشاهد شعري و آية من سورة المائدة". ( ابن جریر الطبری ص ٥١)" اور یہ کہ آیت علامت کے معنی میں ہو جس سے اس کا ماقبل پہچان لیا جائے اور اس کی ابتداء نشانی جیسی ہوگی جو کسی چیز پر دلالت کرتی ہے جس سے اس پر استدلال کیا جاتا ہے - اس معنی کو انہوں ( ابن جریر) نے ایک شعری شاہد اور سورہ مائدہ کی ایک آیت سے مؤید کیا ہے "آگے لکھتے ہیں "  أن تكون بمعنى القصة و قد استدل عليه ببيت من شعر كعب بن زُهير "  ألا أبلغ هذا المعرِّض آية * أ يقظان قال القول إذ قال أم حلم"  یعنی بقوله آية رسالة مني و خبراً عني فيكون معنى الآيات '' القصص " -" یا یہ کہ آیت قصہ کے معنی میں ہو - اس پر کعب بن زھیر کے ایک شعر سے استدلال کیا ہے"  کوئی اعراض کرنے والے کو یہ پیغام پہنچا دے کہ بیداری کی حالت میں اس نے یہ بات کہی ہے یا نیند کی حالت میں " شاعر کی مراد آیت سے پیغام ہے یعنی میری طرف سے پیغام یا خبر پہنچا دو پس آیات کے معنی ہوں گے ' قصے " ( ایضاً)

احادیث نبویہ سے استدلال

  ڈاکٹر عباس توفیق لکھتے ہیں  " و يرى المتتبع لتفسير الطبرى بجلاء أنه تيقد تقيداً تاماً بالتفسيرات التي ثبت ورودها من النبي صلى الله عليه وسلم و بما لا يمكن أخذه عن سواه عليه السلام "
" جو شخص بھی گہرائی سے تفسیر طبری کو دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن جریر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث سے بندھے رہتے ہیں اور ان امور سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کسی اور سے اخذ نہیں کئے جا سکتے "( ص ٦٣)-امام ابن جریر بلند پایہ محدث تھے انہوں نے اخیر عمر میں صحیح احادیث کا ایک دائرۃ المعارف ترتیب دینا شروع کیا تھا اس کا نام" تھذیب الآثار " تھا لیکن ان کی عمر نے وفا نہ کی اور وہ اس کی تکمیل سے پہلے ہی وفات پا گئے - امام ذہبی نے لکھا ہے کہ اگر یہ مجموعہ مکمل ہوگیا ہوتا تو سو جلدوں میں آتا - لہذا ابن جرير کا آیات قرآنی کی تفسیر میں احادیث سے استدلال کرنا ہر طرح سے قرین ہے - " لا یؤخذ منها عدل" ( اور نہ کسی کو فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے گا) یہاں ابن جریر نے کلامِ عرب کی روشنی میں عدل سے فدیہ مراد لیا ہے اور اس کے بعد درج ذیل حدیث کو نقل کیا ہے :
" قیل یا رسول اللہ !  ما العدل ؟  قال العدل الفدیة" "عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول عدل کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ عدل کا مطلب فدیہ ہے "اسی طرح آیت " منھم امّيّون" میں لفظِ " امیہ" پر بحث کرکے حدیث نقل کی ہے -اسی طرح " لم یلبسوا ایمانھم بظلم" میں لفظِ ظلم پر بحث کرکے ایک حدیث نقل کی ہے اور" ظلم "کے مفہوم کو متعین کیا ہے"

عربی اشعار سے استدلال

امام طبری آیت کی تفسیر میں اکثر و بیشتر عربی اشعار سے مدد لیتے ہیں - اس کی بیسیوں مثالیں تفسیر میں درج ہیں - یہاں بس ایک مثال پیش کی جاتی ہے "وسع کرسیه السموات والأرض " ( اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے) کرسی کی تفسیر میں متعدد اقوال وارد ہوئے ہیں  - ابن جرير کے نزدیک اس کا قابلِ ترجیح مفہوم "علم" ہے - وہ کہتے ہیں کہ کرسی کی اصل علم ہے یہیں سے اس کو صحیفہ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے جس میں کوئی علم لکھا گیا ہو - اسی طرح علماء کو کراسی کہا جاتا ہے - انہوں نے درج ذیل شعر سے استدلال کیا ہے 
يحفّ بهم بيض الوجوه و عصبته
كراسي بالأحداث حين تنوب

" چہروں کی رونق ان کے وجود سے قائم ہے - یہ علماء ہیں جو پیش آنے والے حوادث میں قائد ہوتے ہیں" ( ایضاً)

وجوہِ قرأت
امام ابن جرير نے مختلف قرأتوں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے - وہ کسی لفظ کی قرأت میں وارد ہونے والے تمام الفاظ کا احاطہ کرتے ہیں اس کے بعد اپنے ترجیحی قول پر دلیل قائم کرتے ہیں - مثلاً " مالك يوم الدين "    میں دو قرأتیں متواتر ہیں اور ایک تیسری قرأت بعض علماء سے منقول ہے - متواتر قرأت " مالكِ يوم الدين" اور " مَلِكِ يوم الدين" - بعض علماء کے نزدیک " مالكَ ( بفتح الكاف) يوم الدين ہے
ابن جرير نے اس پر بہت عمدہ بحث کی ہے" مالك يوم الدين " ابن عباس سے مروی ہے  لیکن خود ابن جریر نے" مَلِك يوم الدين " کو صحيح کہا ہے - وہ کہتے ہیں کہ ملک مالک بھی ہوتا ہے جبکہ مالک ملک نہیں ہوتا گویا لفظ ملک میں معنی کی وسعت ہے ( ڈاکٹر عباس توفیق - ابن جرير الطبری ملخصاً)

فقہی بحث

ابن جرير مجتہد تھے بلکہ اپنا فقہی دبستان رکھتے تھے لہذا وہ فقہی مسائل کی تفریع میں قرآنی آیات سے استشہاد کرتے ہیں - " وامسحوا برؤوسکم" میں سر کے مسح میں علماء نے اختلاف کیا ہے - بعض علماء نے پورے سر کا مسح فرض قرار دیا ہے - امام اعظم اور صاحبین کے نزدیک تین انگلیوں سے کم کا مسح جائز نہیں - امام طبری کہتے ہیں کہ مسح الرأس کا لفظ مطلق استعمال ہوا ہے اس کی حد مقرر نہیں ہے لہٰذا وضو کرنے والا جس طرح بھی مسح کرے گا فریضے کی ادائیگی ہو جائے گی 

اپنی رائے کا اظہار

امام ابن جریر اپنی رائے تو نقل کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ اپنے دلائل بھی ذکر کرتے ہیں - اس سلسلے میں کبھی سلف سے اختلاف بھی کرتے ہیں - چنانچہ مجاہد اور ربیع سے " لم یتسنه" کی تفسیر " لم ینتنِ" نقل کی گئی ہے لیکن ابن جریر اس تفسیر سے اختلاف کرتے ہیں - متذکرہ بالا بزرگ دراصل " يتسنه" کو أسنّ سے ماخوذ مانتے ہیں کہا جاتا ہے " أسنّ ھذا الماء" جیسا کہ قرآن میں ہے " فيها أنهار من ماء غير آسن" لیکن ابن جریر ہر چند اسکو أسن سے مشتق مانتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ أسن سے ماخوذ ہوتا تو اس میں نون مشدد نہیں ہوتا - پھر تو یوں ہوتا " لم تیسنْ" ( بتخفیفِ نون) ( ایضاً ص ٦٥)اسی طرح انہوں نے مجاہد سے مروی اصحاب السبت میں" قردۃ خاسئین "کی تفسیر بھی نہیں لی ہے - مجاہد کہتے ہیں کہ مسخ صوری نہیں معنوی ہوا تھا لیکن ابن جرير نے محکم دلائل کے ساتھ اس تفسیر کو مرجوح قرار دیا ہے - اس سلسلے میں قرآن ' حدیث' لغت 'اشعار اور سلف صالحین غرض ہر ذریعے سے کام لیکر اپنا موقف ثابت کیا ہے -

اسرائیلیات سے پرہیز
ڈاکٹر احسان اللہ فہد فلاحی لکھتے ہیں :" امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اسرائیلیات' نصرانی حکایتوں اور افسانوں کا بہت کم تذکرہ کیا ہے"اس کی تفصیل یہاں تو نہیں دی جا سکتی البتہ سورہ یوسف میں "دراھم معدودۃ" اور فقلنا اضربوہ ببعضھا "کی تفسیر ملاحظہ کی جا سکتی ہے

 


Views : 353

Leave a Comment