Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

صحبتے با اہل علم (17)


  • Aasi Ghulam Nabi
  • Friday 25th of February 2022 02:51:46 PM

مولوی غلام حسن صاحب(گامرو بانڈی پورہ)
    قصبہ بانڈی پورہ کے قریب ایک گاؤں ہے جس کا نام گامرو ہے۔ یہاں پر ایک بزرگ تھے جس کا اِسمِ گرامی غلام حسن صاحب تھا۔اُن کے والد صاحب کا نام عبدالقادر تھا۔ اُن کے نام کے ساتھ لفظِ اعرج بولا جاتا تھا۔ اعرج عربی لفظ ہے اور اعرج لنگڑے کو کہتے ہیں۔ بچپن میں زمین پر گرنے کی وجہ سے اُن کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ انہوں نے اس کا اعلاج و معالجہ کرایا اور پھرچلنے کے قابل ہوگئے۔ حکیم نے اُن کو بتایا تھا کہ جتنا زیادہ وہ چلیں گے اُتنا ہی اُن کی ٹانگ میں قوت آجائے گی۔ چنانچہ اُس زمانے میں مال مویشی پالنے کا عمومی رواج تھا،لہٰذامولوی صاحب خوب چلتے تھے۔اور کبھی اُن کی اُ س ٹانگ میں تکلیف کی شکایت نہ رہی، لیکن عصا کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ البتہ دوسری ٹانگ میں ریح پیداہونے کی وجہ سے درد پیدا ہوتا تھا۔ابتدائی عمر میں مولانا نے گھر پر ہی تعلیم حاصل کی یہاں تک کہ وہ اکیس سال کی عمر کو پہنچے۔ اس دورا ن انہیں قصبہ لار کے ایک بزرگ سے روحانی تعلق پیدا ہوگیا۔مولوی صاحب کے ہمدرد اُن کو اس بات کی ترغیب دیتے تھے کہ اگر وہ باہر جا کر کچھ عرصہ اور تعلیم حاصل کرتے تو اُن کے لیے بہت ہی اچھا رہتا۔ مولوی صاحب کو تحصیلِ علم کا بذات خود بھی بڑا شوق تھا لیکن اُس غلامی کے دور میں یہاں عمومی طور پر غربت کا ما حول تھا۔ مولوی صاحب کے پاس دو چادریں تھیں ایک چادر کو کسی نے چُرالیا اور دوسری چادر کو سرینگر لے کر ڈھائی روپے کے عوض بیچ دیا۔اس طرح مختصر زاد ِ راہ تیار کر کے مولوی صاحب عازم سفر ہوئے اور بارہمولہ سے راولپنڈی چلے گئے۔چونکہ ملک ابھی تقسیم نہیں ہوا تھا یہاں سے مولانا سیدھے دیوبند گئے اور مولانا انور شاہ صا حب کشمیری سے ملاقی ہوئے۔ اور مولوی صاحب نے اُن کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ مولانا انور شاہ صاحب نے اُن کو مشورہ دیا کہ وہ مظفر نگر جا کر ایک ادارہ میں داخلہ حا صل کریں جہاں انہیں دیگر سہولیات بھی میسرہوجائیں گی اور اپنا علمی سفر بھی جاری رکھ سکیں گے۔ وہاں پر مولانا دو سال رہے اور تجوید وغیرہ صحیح کرنے کے بعد تقریباً چار سال مظاہر العلوم سہانپور میں بھی رہے۔ اور اس کے بعد دیوبند میں داخلہ لیا۔ تحصیلِ علم کے بعد ان کی صحت بگڑنے لگی۔ اساتذہ نے مشورہ دیا کہ یہاں کی آب وہوا چونکہ آپ کو راست نہیں لگی لہٰذا آپ واپس اپنا وطن جائیں۔ تقریباً نو سال کے بعد مولانا واپس تشریف لائے اور نہایت ہی سادگی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرنے لگے۔ مولانا فطرتاً ایک درویش طبیعت آدمی تھے۔ گھا س کے جوتے بنا کر پہنتے تھے جن کو کشمیری زبان میں ”پلہ ہور“ کہتے ہیں۔ اڑتالیس سال تک آپ مجرد زندگی بسر کرتے رہے اور اس عمر میں پہنچ کر شادی کرلی۔ کچھ اولادِنرینہ ومادینہ سے اللہ نے نوازا۔ جن میں کچھ اللہ کو پیارے ہو گئے اورکچھ ابھی بقید حیات ہیں۔ 
    آپ محض خدا کے لئے اپنے قرب وجوار کے بچوں کوپڑھاتے تھے کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آ پ گھاس کی رسیا ں بنانے میں مشغول ہوتے تھے اور اسی دوران طالبِ علم آکر اپنا سبق دہراتے تھے مولوی صاحب کو اس قدر عبور تھا کہ وہ اس حالت میں بھی طلباء کی غلطیوں کی اصلاح فرماتے تھے۔وہ آپ کے پاس آکر اپنی مشکلات کو حل کروا کر واپس جاتے۔ آپ نہایت ہی بردباری کے ساتھ اُ ن کی مدد فرماتے۔ مولوی عبدالقدیر صاحب فاضلی بھی آپ کے پاس آتے تھے اور باہم علمی مذاکرہ کرتے تھے۔کیوں کہ وہ بھی اسی گاؤں میں رہتے تھے۔ 
    ایک دفعہ احقر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔میں نے دیکھا مولوی صاحب ایک سادہ قسم کے مکان میں رہتے ہیں۔ جس کے در ویوار سے سادگی ٹپکتی تھی،چونکہ احقر نے سُنا تھا کہ مولوی صاحب ایک صوفی منش بزرگ تھے۔ جس کی تصدیق وہاں پر جانے کے بعد احقر کو ہوگئی۔ مولانا نے تحصیلِ علم کے سلسلہ میں اپنے سفر کا اکثر حصہ پیدل ہی طے کیا تھا۔اور اُس دور کے کُبار علماء مثلاً انور شاہ کشمیری ؒ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی زیارت و صحبت سے مستفید بھی ہوئے تھے۔ اور اس صحبت کے عملی آثار اس سفر میں ہم نے وہاں پہنچ کر خود بھی محسوس کئے۔ ہمیں بہت اچھی نصیحتو ں سے نوازا۔ ایک دلچسپ واقعہ یوں بیان فرمایا کہ بلی جب چوہے کو شکار کرنے کے لیے گھات میں بیٹھتی ہے،تو وہ اپنے آپ کو بے حِس و حرکت بنا کر ایک طرح سے اپنے آپ کو مردہ ظاہر کرتی ہے۔اس کو”مراقبہ گُربہ“ بھی کہتے ہیں۔ فرمایا کہ صوفیا کبھی کبھی مراقبہ کرتے ہیں۔یعنی سب چیزوں کو چھوڑ کر خدا کا دھیان کرتے ہیں۔اور یہ عمل گردن جُکا کر کرتے ہیں۔یہ گویا حضوریئ دل سے خدا کا دھیان کرنا ہوتا ہے۔ اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفع ایک بڑا چوہا گھر میں نمودار ہوا جوکسی طرح ہمارے قابو میں نہیں آتا تھا۔ میں نے ایک بلی لائی اُس نے چوہے کو دیکھا کہ وہ ایک جگہ ایک سوراخ کے اندر چھپ گیا،تو بلی اسی جگہ رات گئے تک خاموشی کے ساتھ مراقبے کے انداز میں بیٹھ گئی چوہا بھی اپنی بل سے باہر نکلنے کی جرأت نہیں کر تا تھا آخر کب تک چھپ کر ہی رہتا،مجبور ہو کرجب اپنی بل سے باہر نکلنے لگا تو بلی نے فوراً جھپٹ لگا کر چوہے کو اپنے پنجوں سے دبوچا۔ اُس دن مجھے سمجھ میں آیا کہ مراقبہ کومجازاً ”برأرما یئ‘کیوں کہتے ہیں۔ عارفوں کامقصد خداسے لَو لگانا ہوتا ہے،لیکن خاموش مراقبہ کر کے وہ اپنے مقصود کو پا لیتے ہیں۔مولانا 23جنوری   1981  عیسوی کو اِ س دنیائے فانی سے چلے گئے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را 

 


Views : 1046

Leave a Comment