Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

جماعت تبلیغ کے مہر منیر پیر شمس الدین لولابی رح 


  •  خاکسار غلام محمد عطار  نعمانی اعظمی 
  • Thursday 24th of February 2022 01:42:53 PM

جماعت تبلیغ کے مھر منیر پیر شمس الدین لولابی رح

ابتدائے آفرینش سے ھی حق و باطل کی کشمش رھی ھے  قران مقدس میں اس سلسلے میں کھیں اجمالا اور کھیں تفصیلا تبصرہ موجود ھے سورة المائدہ میں  ھابیل ع و قابیل کا قصہ قدرے تفصیل کے ساتھ مندرج ھے اور بنی اسرائیل  کو اس حوالے سے تنبیہ  بھی کی گئی ھے اور ھمارے لئے درس عبرت کے طور پر اس قصہ کو قرآن کے صفحات کی زینت بنایا گیا ھے شاعر مشرق کا تبصرہ ھے 

ستیزہ کار رھا ھے ازل سے تا امروز

 چراغ مصطفوی ص سے شرار بو لھبی

بت کدہ  گیتی میں جب رسول اللہ ص کی رسالت و نبوت کا غلغلہ بلند ھوا تو  چھار دانگ عالم  اس کی باز گشت سنائی دی فارس و روم کے سرحدوں سے نکل کر دین اسلام وسط ایشیا سے ھوکر  فردوس ارض کی حدود میں داخل ھوا سید عبد الرحمن بلبل ترکستانی رح کی مبارک کوششوں سے یہ ارض کشمیر  دی  رحمت سے آشنا ھوا اور ارباب سیاست اس دین سے مانوس ھوئے اسکے کچھ عرصہ بعد قسام ازل نے اس سعادت کا سھرا امیر کبیر رح کے سر  باندھا اور ارض گلپوش کے عوام  اسلام سے آشنا ھوئے

ھم اکیلے ھی چلے تھے جانب منزل مگر

ایک ایک ساتھ آتا گیا کارواں بنتا گیا

 امیر کبیر رح  کی امارت میں پہلی جماعت تبلیغ کا ورود اس ارض پاک میں ھوا اور یہ سلسلہ بتائید ایزدی چلتا رھا اور بڑھتا گیا - کبھی اس کارواں کے فرد سلطان العارفین  بابا داود خاکی شیخ یعقوب صرفی اور کبھی بابا داود مشکواتی اور کبھی ریشیان کشمیر ھوئے  اس سرزمین سے علماء اور اولیاء کا ایک غیر مختتم سلسلہ پیدا ھوگیا جن کی انتھک اور بے بھا کوششوں سے اس دین کی بقا ممکن ھوئی -اسی سلسلے کا ایک عظیم خاندان خاندان مسعودی سے موسوم ھے جسکا  سلسلہ خواجہ مسعود نروری رح سے ملتا ھے جو اصلا ایک تاجر تھے اور  بھت پہنچھے ھوئے ولی بھی تھے اسی  خاندان کے چشم و چراغ امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری رح تھے جو علوم حدیث و فقہ پر مھارت  کاملہ کی وجہ سے مشھور عالم ھوئے فلله الحمد- لولاب جو خدا داد خوبصورتى فلک بوس پہاڑوں  صاف اور بلورین پانی کے جھرنوں اور  تازہ ھوا کی وجہ سے معروف ھے اور روحانی طور پر بھی زرخیز ھے اور علامہ کشمیری رح  کے وجود سے اس میں اور چار چاند لگ گئے 

  شاعر مشرق علامہ اقبال رح کا یہ تبصرہ بجا ھے کہ 

پانی تیرے چشموں کا چمکتا ھوا سیماب 

اے وادی لولاب  اے وادی لولاب

اسی مردم خیز وادی میں ایک گاوں کا نام سونہ نارڈ دارپورہ ھے جو لال پورہ جاتے ھوئے   پہاڑوں  کی دامن میں واقع ایک گاوں ھے  اسی گاوں میں علامہ کشمیری رح کے ھی خاندان  بلکہ اقارب سے  ۳ صفر المظفر۱۳۵۲ ھ مطابق 27مئی1933ء  بروز جمعرات ا ایک بچہ پیدا ھوا جسکا نام آبائی پیر زادگی کے تناظر میں شمس الدین کھا گیا  ایام  طفلی سے نکل کر  آبائی اصول اور اسوقت کے  رواج کے  تحت  پیر شاہ  صاحب مرحوم  ساکن سونہ نارڈ  سے گلستان بوستان سعدی  یوسف زلیخا جامی رح  پڑھیں اور بقول حضرت مولانا غلام نبی فتح گڑھی کے شرح مشکواة شرح وقایہ جامع الرموز قدوری اور ھدایہ اپنے برادر اکبر عبد العزیز شاہ صاحب سے پڑھیں - دسمبر1981 کی بات ھے کہ  تاج المساجد بھوپال جو کہ ایشیاء سب سے بڑی مسجد ھے میں جماعت تبلیغ کا عالمی اجتماع منعقد ھونا تھا  ھمارے یھاں لاوی پورہ سرینگر  میں ایک  حلقہ دار  یعنی پٹوای عبد القادر شرو صاحب  نوا کدل  اس مقدس تحریک سے واقف بھی اور وابستہ بھی تھے  اور اس تحریک تبلیغ کے مداح و مبلغ بھی تھے ھمارے قبلہ گاہ مرحوم الحاج محمد سلطان پرے صاحب رح  (جو  ایک نامور شخصیت اور سیاسی راھنما ھونے کے ساتھ   ساتھ  ایک مذھبی آدمی بھی تھے) سے  پٹواری صاحب نے خاکسار کو بھی اس اجتماع میں شرکت کیلئے ساتھ لینے کی درخواست کی  والد مرحوم نے  بے ججھک اجازت دی اور   خاکسار باوجود صغر سنی کے اس اجتماع میں شریک  ھوگیا  -میری پہلی ملاقات مرحوم پیر شمس الدین  صاحب سے  اسوقت ھوئی جب مسجد آخون صاحب کنہ مزار میں میری اس سفر کے سلسلے میں حاضری ھوئی -پر رونق چھرہ حسین ڈاڑھی چھرے بشرے سے  خوف خدا کے واضح آثار گفتگو میں عجیب لطف پیر صاحب رح  کی نمایاں خصوصیات خاکسار نےملاحظہ کیں -ھمارا قافلہ ایک سرکاری بس میں بطرف جموں روانہ ھوا لیکن خاکسار جوانی کی دھلیز پر قدم رکھنے کے بعد پہلی مرتبہ  اسلام کی حقیقی تصویر سے آشنا ھوا - ربط و ضبط پابندی نماز اور دیگر اوصاف حسنہ ان دنوں اس جماعت میں خاکسار کا عینی مشاھدہ  ھے راتوں کو رونا اور احساس ذمہ داری اور محاسبہ نفس  اس جماعت کا طرہ امتیاز  تھا اور اسوقت اس قافلے کی راھنمائی پیر صاحب ھی فرمارھے تھے -جموں کی سرزمین  میں ایک دو روز جامع مسجد  جموں تالاب کھٹیکاں میں گزارے اسوقت وھاں مولانا صدرالحسن قاسمی رح امام و خطیب اور قریب کے مدرسے کے مھتمم تھے - وھاں بھی پیر صاحب رح کے مواعظ سے   زندگی  کی ڈگر کی طرف راھنمائی ھوئی -ھمارا سفر بھوپال تک ٹرین سے طے ھوا تو رات کے اوقات میں بھوپال پھنچکر  دور ھی سے تاج المساجد ایک  بقعہ نور دکھ رھا تھا  چھ لاکھ کے اس عظیم  اسلامی اجتماع میں پیر  شمس الدین صاحب رح بدر منیر کی طرح ضو فشاں  تھے -خاکسار کو پوری طرح یاد ھے کہ صغر سنی کی وجہ سے حضرت پیر صاحب رح  نے اپنی خاص توجھات سے نوازا  بلکہ  اجتماع کے تین ایام میں خاکسار  انھی کے  معیت میں رھا اور  گہر بار گفتگو سے  مسفید ھونے کا موقع ملا  یہ میری زندگی کے یادگار لمحات ھیں کہ ان کا ساتھ مجھے نصیب ھوا ھے فلله الحمد 

میرے حافظے میں یہ بات اچھی طرح ثبت ھے کہ حضرت پیر صاحب رح  تاج المساجد میں لیٹے ھوئے تھے تسبیح متعارف کے دانے پھیر رھے تھے ذکر الھی سے رطب اللسان  تھے  فرمایا زمانے کی دستبرد سے کشمیر میں شرک باللہ کا ایک غیر مختتم سلسلہ چل پڑا تھا تبلیغ والوں کا اللہ ج  بھلا کرے  جنھوں نے اس شرک کا بڑی  دانش  اورحوصلہ مندی  سے قلع قمع کیا اور  توحید کو لوگوں کے دلوں میں راسخ کردیا  یہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں رس گھول رھے ھیں اور  تبلیغ کی محنت  کیلئے میری  اس سے محبت کی وجہ بن گئی - پیر شمس الدین  صاحب رح  بڑے متواضع منکسر المزاج  اور خاموش طبیعت کے آدمی تھے لیکن پر عزم و حوصلہ مرد قلندر تھے -امامت کا پیشہ اپنایا  جو پیر زادگی کا ایک لازمی وصف تھا اور سوگام کی مسجد شریف میں امامت کے فرائض انجام دیتے رھے - پیر شمس الدین صاحب رح کا روحانی سفر  اپنے دادا پیر عبد السلام سے  شروع ھوا اور معروف صوفی بزرگ حضرت سید میرک شاہ  کاشانی رح کے در دولت تک رسائی ھوئی اور پیر صاحب رح انکے منسبین میں شامل ھوگئے انکی وفات کے بعد اپنے علاقے کے پیر غلام محمد عرف ممہ صآب سے بیعت ھوئے اور 1965ء میں حضرت مولانا الیاس  رح  کے فرزند دلبند اور معروف داعی الی اللہ مولانا یوسف صاحب رح کے ارشاد پر  منشی اللہ دتا صاحب رح وارد کشمیر ھوئے اور علاقہ کپواڑہ انکی توجھات باطنی اور دعوت کا آماجگاہ بن گیا قسام ازل نے  دو پیر زادگاں  کو اپنی نظر کرم سے نوازا ایک  حضرت ولی شاہ صاحب سوپور اور دوسرے پیر شمس الدین صاحب رح  صاحب تھے  منشی اللہ دتا صاحب رح ایک صاحب نسبت بزرگ تھے اور صاحب کرامت بھی 1965ء کی ھند پاک جنگ میں منشی صاحب رح لولاب کی پہاڑی چوٹیوں سے  تبلیغی سفر کے دوران  سرینگر کے تباہ ھونے کی بات کررھے تھے  اور واقعتا اس وقت فوج نے بتہ مالو کو  شک کی بنا پر نذر آتش کیا تھا   جملہ معترضہ کے طور پر خاکسار  تحدیثا لنعمة اللہ تعالى  اس بات کا ذکر کرنا مناسب  سمجھتا ھے کہ قدیم بنگلے والی مسجد میں( جھاں دو داعیان حق مولانا الیاس اور مولانا یوسف صاحبان رح آسودہ خاک ھیں) خاکسار کودسمبر 1981 کے تاج المساجد  بھوپال میں منعقدہ عالمی اجتماع  سے واپسی پر منشی اللہ دتا صاحب رح  سے شرف ھمکلامی اور پیر دبانے کی سعادت نصیب ھوئی فلله الحمد

    منشی اللہ دتا صاحب رح  نے ھردو مذکورین رح کو خلافت باطنی سے سرفراز فرمایا اور  دیگر لوگوں کو اس سعادت کیلئے انھی دو مرحومین  کی طرف رجوع کیلئے ارشاد فرمایا -پیر شمس الدین صاحب کو تبلیغ دین کیلئے کپواڑہ کی جامع مسجد میں آنے کا حکم ھوا اور وھیں سے  اس کار نبوت ص کو انجام دینے  کا کام سونپا گیا جو بھت عرصہ تک مرحوم نے بحسن و خوبی  انجام دیا  اور اسکا دائرہ وسیع کرنے میں  پیر صاحب کا بڑا رول ھے ضلع کپواڑہ میں جو مزاج تبلیغ کا غلبہ ھے اس میں پیر صاحب کا بڑا کردار ھے - بقول مولانا غلام نبی وانی صاحب بعض وجوھات کی بنا پر1998ء میں اس مرکز کو ھٌل پَل در قرب زیارت  حضرت خوشحال صاحب رح بر لب نالہ لولاب منتقل کرنا پڑا جھاں پر آج ایک عظیم الشان مسجد بنام مسجد المرشدین  اپنی دینی آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ھے پیر صاحب رح  تادم زیست ضلع کپوارہ کے امیر تبلیغ تھے -خاکسار نے  مرحوم کو بارھمولہ کے ماہانہ   اجتماعات میں گفتگو کے دوران  درر بے بھا بکھیرتے دیکھا  فارسی اشعار از بر تھے اور تفسیر مظھری کے  عمق قلب سے  معترف تھے جسکا تذکرہ محترم آصی صاحب نے پیر صاحب کا ذکر کرتے ھوئے بڑے والھانہ انداز میں کیا ھے

مدارس سےمرحوم کی وابستگی اس بات کا ثبوت ھے کہ پیر صاحب رح  علم کے دلدادہ تھے دارالعلوم قاسمیہ لعل بازار  کے مرحوم  مولانا انظر شاہ صاحب رح  کی 2008ء میں وفات کے بعد سرپرست تھے اور دوسال  دارلعلوم سوپور کے بھی  سرپرست اعلی تھے- 1985ء میں جامع مسجد کپوارہ  میں منعقدہ اجتماع  کے پیر صاحب  روح رواں تھے  اور کامیاب اجتماع تھا  جسکے دور رس نتائج بر آمد  ھوئے

مسجد مرشدین سرکاری دفاتر کے قرب میں واقع ھے اسلئے لوگوں کی ریل پیل رھتی ھے اور یہ مسجد نمازیوں سے آباد ھے  اس مسجد شریف کے قرب میں ایک دارلعلوم بھی واقع ھے اور اس سے پہلے بھی اپنے علاقے میں  ایک دارالعلوم کا قیام پیر صاحب کی کوششوں کا  نتیجہ ھے  اور  مسجد المرشدین کے قرب میں واقع  دارلعلوم اپنی منزل پہ رواں دواں ھے   اور ضلع کپوراہ میں دیگر مدارس دینیہ کی طرح  تحفظ دین کا کام تمام تر مشکلات کے باوجود محو سفر ھے  پیر صاحب رح  کی کبر سنی کے باعث  کچھ ذمہ داریاں انکے لائق فرزند پیر عبدالرشید صاحب پر ڈالدی گئی ھیں  جنکو وہ بحد استطاعت بخوبی نبھا رھے  ھیں تبلیغ کے عظیم کام کے لئے پیر صاحب کے عزائم آج بھی جوان تھے اور اس مقدس مشن سے انکو باوجود مضمحل قویٰ کے والہانہ عشق تھا 

عجیب اتفاق ھے کہ 12نومبر2021ء مطابق 7ربیع الثانی 1443ھ  بروز جمعة المبارك خاکسار کے زیر سرپرستی مدرسہ عربیہ امام اعظم رض میں جلسہ دستار بندی ھورھا تھا اور خطبہ جمعہ کے فرائض ھماری درخواست  پر شیخ الحدیث   دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ  مفتی سید محمد اسحاق نازکی قاسمی صاحب  دامت برکاتھم نے انجام دئے تھے اور درر و جواھر سے سامعین کو محظوظ کیا تھا  اور دیگر اکابر علماء  مفتی مظفر حسین قاسمی  شیخ  الحدیث دارالعلوم سوپور اور دارلعلوم قاسمیہ کے مھتمم مولانا نثار احمد قاسمی  نے  پر مغز خطابات سے  حاضرین جلسہ کے  قلوب کو  منور  فرمایا اور مفتی نذیر احمد  قاسمی شیخ الحدیث دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ   کی تشریف آوری بھی متوقع تھی کہ یہ روح فرسا خبر قلوب و اذھان پر  بجلی  بن کر  گرپڑی  کہ پیر شمس الدین لولابی صاحب رح  عالم مادی سے عالم جاوداں کی طرف کوچ کرگئے  اور سارے علماء خطابات کو مختصر کرکے  راھی کپواڑہ ھوگئے  اور جم غفیر میں جمعة المبارک کی ساعت ھمایوں  میں عظیم جنازے کے بعد بچشم نم مسجد المرشدین کے قرب میں   سپرد خاک کئے گئے 

یہ کس کا جنازہ ھے 

کچھ تم کو اندازہ ھے

 بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن 

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

 ( 23 ماہ فروری 2022بوقت بعد مغرب بروز بدھ مطابق 22رجب المرجب1443ھ)


Views : 914

Leave a Comment