اللہ انبیائے کرام کو کیوں بھیجتا ہے؟
یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ کسی بھی حکیم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ہے۔ اور حکیم کسی دانا یا عقلمند آدمی کو کہتے ہیں۔ اللہ کی ذات اتنی بڑی ہے،جو تما م عقلوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس لئے فلسفیانہ زبان میں ایسی عقل کو عقلِ عقل کہتے ہیں۔اللہ صرف عقلوں کو کنٹرول نہیں کرتا ہے، بلکہ تما م عقلوں کا خالق ہے۔ اگر اللہ اس بات پر قادر ہوگا کہ وہ اچھی عقل والے ہی پید اکر سکے اور بے وقوف پیدا نہ کر سکے تو یہ اس کی قدر ت میں ایک نقص ہوگا نعوذ باللہ۔ اسی لیے اللہ کو خالق خیر وشر کہتے ہیں۔ اور "ان ا للہ علی کلِ شیئ قدیر" (ترجمہ) اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔قرآن حکیم کا واضح اعلان ہے۔اس دنیاکو جس میں ہم رہتے ہیں۔ عالم ناسوت کہتے ہیں۔ اور عالمِ ناسوت عالم اجسام کو کہتے ہیں۔اس عالم اجسام سے پہلے ہماری ارواح ایک اور عالم میں تھیں جس کو عالم ارواح کہتے ہیں، لیکن وہاں پر یہ سب ارواح جدا گانہ تھیں۔ اس کے بعد جب اللہ نے چاہا کہ ان کو وہاں سے منتقل کر کے عالم ناسوت یعنی اس دنیا میں لائے تو یہا ں پر سب ارواح چاہے نیک ہوں یا بد آپس میں مل گئیں۔ ہر ایک پر اس کی اصل حقیقت ظاہر کرنے کے لیے اور الگ الگ تقسیم کرنے کے لیے انبیائے کرا م کو مبعوث فرمایا گیا اور اچھے بُرے کی تقسیم انبیائے کرام کے بھیجنے کے بعد ہوگئی۔ جس طرح ایک عطار اپنی دُکان پر ہر قسم کی ڈبیو ں کو اُن کی جنس کے مطابق ملا کر رکھتا ہے اور ایسا کر کے جنس کو اپنے ہم جنسوں سے ملا کر دکان کی رونق بڑھاتا ہے۔ اسی اللہ طرح انبیائے کرام کے ذریعے کفر اور دین کو جدا کرتا ہے۔اور اسی کا عملی اظہار قیامت کے دن دنیا کی اس آزمائش کے بعد ہو گا،جس میں سے ہم سب اس وقت گذر رہے ہیں۔ اس دن اللہ فرمائے گا"وامتازالیوم ایھاالمجرمون" (ترجمہ) آج کے دن اے مجرمو تم الگ ہوجاؤ،کیوں کہ قیامت سے پہلے مومن اور کافر ،مسلمان اور یہودی سب یکسان نظر آتے تھے اور کوئی نہیں جانتا تھا۔کہ نیک کون ہے اور بُرا کون ہے۔کھوٹا اور کھرا اِکھٹے چالو تھا۔لہٰذا دنیا کی مثال ایک رات جیسی ہے اور ہم رات کے مسافروں کی طرح ہیں۔ اللہ انبیاء کو آفتاب بن کر طلوع فرماتا ہے تاکہ کھوٹا اور صاف الگ الگ ظاہر ہوجائے۔انبیا ء کرام ظاہری بینائی کے علاوہ ایک اور بینائی سے نوازے جاتے ہیں اور وہ دل کی بینائی ہے۔جس طرح ظاہری آنکھ مختلف رنگوں میں فرق کرنا جانتی ہے اور ایک لعل اور پتھرکو پہچان کرتی ہے۔اسی طرح انبیائے کرام دل کی آنکھوں سے صاحب ایمان اور بے ایمان کو پہنچانتے ہیں اور بے ایمان ان کی آنکھوں میں ایسے ہی کھٹکتا ہے جیسے آنکھ میں تنکا کھٹکتا ہے۔بے ایمان لوگ اندھیرے کو اس لیے بھی پسند کرتے ہیں کیوں کہ وہ ایک کھوٹا سکہ چلانا چاہتے ہیں۔ جو اندھیرے میں ہی چل سکتا ہے۔ دن کی روشنی میں خالص سونے کے سکہ کی خریداری کو ہی پسند کرتے ہیں۔روزِ قیامت کو اس لئے بھی دن کہنا مناسب ہے،کیوں کہ وہاں کی روشنی میں بے ایمانوں کا کھوٹا سکہ چلنے والانہیں ہے۔دِن کسی چیز کو پہچاننے کا آئینہ ہے، جس میں شریف النفس لوگ سونے کی اشرفیوں کی طرح پہچانے جائیں گے۔ مولانا رومی ؒ نے اسی مضمون کو ان اشعار میں قلمبند کیا ہے
حق فرستاد انبیاء را بہرِ دیں
تا جدا گردد زِایشاں کفرو دیں
مومن و کافر مسلمان و جہود
پیش از ایشاں جُملہ یکساں می نمود
پیش از ایشاں ماہمہ یکساں بُدیم
کس ندانستہ کہ مانیک و بدیم
قُلب و نیکو درجہاں بودے رواں
چوں جہاں شب بود و ماچوں شبرواں
تا برآمدآفتاب انبیاء
گفت اے غش دور شو صافی بیا
ترجمہ:۔ اللہ تعالی نے انبیاء کواس لئے بھیجا ہے تاکہ ان کی وجہ سے کفر اور دین جد ا ہوجائے۔ مومن اور کافر، مسلمان اور یہودی اُن سے پہلے یکساں نظرآتے تھے۔ اُن سے پہلے ہم سب یکساں تھے کوئی نہیں جانتا تھا کہ ہم نیک ہیں یا بُرے۔ کھوٹا اور کھرا دنیا میں چالو تھا۔چونکہ دنیا رات تھی اور ہم رات کے مسافروں کی طرح تھے۔یہاں تک کہ نبیوں کا آفتاب طلوع ہوا۔ اُس نے کہا اے کھوٹ تو دور ہوجا اور (اے صاف) تو آ۔ آنکھ فرق کر نا جانتی ہے۔ آنکھ لعل اور پتھر کو جانتی ہے۔
اس طرح مولانا رومیؒ نے سمندر کو کُوزے میں بند کرکے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اللہ انبیائے کرام کو داعی بنا کر دنیا میں کیوں بھیجتا ہے۔ اور انبیائے کرام کی بِعثت کا کیا مقصد ہوتا ہے ۔اے اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق نصیب فرما۔آمین۔٭٭٭جاری ٭٭٭
Views : 787