Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

صحبتے با اہل علم (16)


  • Aasi Ghulam Nabi
  • Sunday 20th of February 2022 05:03:02 PM

مولوی محمد عبدللہ چشتی صاحب بارہمولہ
  
 قصبہ بارہمولہ میں ایک محلہ ہے جس کو محلہ جلال صاحب کہتے ہیں۔ یہاں پر ایک بزرگ کی زیارت ہے جن کا اسم گرامی شیخ جلال چستی تھا۔ مصنفِ تاریخ حسن نے لکھا ہے کہ شیخ جلال صاحب شیخ عبدالرحمن چستی کے بیٹے اور خلیفہ تھے۔ ان پر مدہوشی اور مستی کا غلبہ رہتا تھا۔ اکثر محویت ِ ذاتِ الٰہی میں غرق ہوتے تھے۔ ان کے والد شیخ عبدالرحمن نے تھانیسر جا کر خواجہ نظام الدین سے خطِ ارشاد حاصل کیا اور واپس آکر وادیئ کشمیر میں چستی طریقہ کو رواج دیا۔ مورخِ حسن نے لکھا ہے کہ ان سے پہلے ان کے والد بزرگوار شیخ بہرام قادری نے بھی ہندوستان کا سفر کیا تھا اور مقصد رہبر کی تلاش تھی تھانیسر میں انہوں نے شیخ نظام الدین چستی سے ملاقات کی تھی  اور برسوں ان ہی کی خدمت میں رہ کر تربیت پاتے رہے۔ سلوک کے مقاموں کو طے کرنے کے بعد ارشاد کی اجازت حاصل کر کے آئے اور جمالٹہ سرینگر میں قیام کر کے لوگوں کو فیض بخشی کرتے رہے۔ اور وہاں پر مرزا سلیم کاشغری کے مزار کے قریب دفن کئے گئے۔ 

    بارہمولہ میں شیخ جلال صاحب کیسے تشریف لائے اس بارے میں مذکورہ کتاب میں کوئی تفصیل نہیں البتہ لکھا ہے کہ شیخ جلال صاحب بارہمولہ میں ایک خادم کے گھر میں مدہوشی کے غلبہ سے ایسے بے ہوش اور بے حِس و حرکت گرے کہ خادم نے گمان کیا کہ جا ن بہ حق ہو گئے۔ تجہیز و تکفین کا بندوبست کر کے اُنہیں دفن کیا گیا۔ اب یہ جگہ محلّہ جلال صاحب کے نام سے مشہور ہے۔ اور یہاں پر کچھ ایسے اصحاب بھی سکونت پزیر تھے جو چستی ذات کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ حضرات اسی بزرگ کی اولاد میں سے ہیں یا اُن کے ساتھ بیعت و تربیت میں منسلک تھے۔ اُس کی تفصیل احقر کے پاس نہیں ہے۔ البتہ یہ چستی صاحبان قصبہ بارہمولہ میں ایک معروف خاندان ہے اور ان کو اس قصبہ میں مذہبی پیشوائی حاصل تھی۔ اُسی خاندان کا ایک معروف بزرگ محمد عبداللہ چستی صاحب تھے۔ یہ ایک سرکاری استاد تھے لیکن یہ ایک صاحبِ علم کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ یہ صاحب اپنے اسلاف کے طریقہ پر سختی سے کاربند تھے اور گردو پیش کے لوگ ان سے فتویٰ وغیرہ بھی حاصل کرتے تھے۔ اس خاندان کے ایک معروف مفتی علی صاحب مرحوم بھی تھے۔ 
    مفتی عبداللہ صاحب اسلامی وضع و قطع کے پابند تھے۔ اور جس وقت وہ بازار میں چلتے تھے واقعی ایک صالح مسلمان جیسے معلوم ہوتے تھے۔غلامی کی وجہ سے لوگ اسلامی وضع وقطع سے اکثر محروم تھے۔داڑھی منڈانا ایک عمومی عادت بن گئی تھی۔جب تبلیغی جماعت کے بزرگ واردِ کشمیر ہوئے تو کچھ لوگوں نے چہرے پر مسنون داڑھی رکھنے کا آغاز کیا۔ بارہمولہ سنگری کا ایک نوجوان تھا، جس کا نام نورالحسن تھا۔ یہ گوجر برادری کے ساتھ تعلق رکھتا تھا، لیکن ابتدائی ایام میں ہی یہ تبلیغی جماعت کا فِدوی بن گیا تھا۔ اس کے چہرے پر بھی مسنون داڑھی تھی۔ ایک دفعہ مولوی عبداللہ صاحب چستی نے بازار میں اس کے چہرے پر ایک شاندار داڑھی دیکھ کر اس کو پکڑا اور اس کی داڑھی کو چومنے لگا۔ لوگوں نے پوچھامولوی صاحب آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔فرمایا بازار میں جب میں چلتا تھا تو مجھے اپنا وجود ایک اجنبی سا لگتا تھا، کیوں کہ عام رواج داڑھی منڈانے کا تھا۔اب ایک شخص کے چہرے پر مسنون داڑھی دیکھ کرمجھے خوشی ہوگئی کہ میں اب لوگو ں کو اجنبی معلوم نہیں ہو جاؤں گا۔ مولوی صاحب نے کس طرح مسنون داڑھی کی سرِ بازار حوصلہ افزائی کی یہ ا س ناچیز کے نزدیک ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے اور یہ عمل اللہ کے نزدیک ان کی ترقی درجات کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ افسوس ہے کہ اب اس قسم کے قدردان نظر نہیں آتے ہیں۔ مجھے مولوی صاحب کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ ہمارے گھر میں ایک تعزیت ہوئی اور کئی دن گذرنے کے بعد مولانا سید قاسم صاحب بخاری  ؒ تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے قبرسان پر لے جائیے، تا کہ میں متوفی کی قبر پر جا کر ایصالِ ثواب کروں۔ہم نے اُن کو اس قبر تک پہنچایا اور انہوں نے مسنون طریقے سے ایصال ثواب کیا،لیکن فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ مولوی محمد عبداللہ چستی صاحب کی قبر کہاں ہے؟ ہم نے بتایا کہ قریب ہی ہے۔ا س کے بعد وہ اس قبر پر گئے اور زار وقطار رونے لگے اور روتے ہوئے ایصالِ ثواب کرنے کے بعد جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ مولوی صاحب کے متعلق میں آپ کو کیا بتاؤں کہ وہ کن اوصاف و محاسن کے مالک تھے۔ جب مولوی صاحب بازار کے گلی کوچوں میں چلتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ ایک مسلمان چل رہا ہے۔ ایک دفعہ موضع جوگیا رکے ہمارے ایک  بزرگ نے اُ ن کو مدعو کیا اور ایک طلاق کے مسئلے میں اُن کا فیصلہ چاہا مولوی صاحب خود جائے موقع پر آئے اور بڑی تفتیش کے بعد اپنا فیصلہ صادر فرمایا۔ ایک نو عمر ہونے باوجود مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ کیسے ہمارے یہ بزرگ ہیں کہ ہر مسئلہ میں خود چھان بین کرنے کے لئے جائے موقعہ پر جاتے ہیں۔ ورنہ یہ اپنے مقام پررہ کر بھی فیصلہ صادر فرما سکتے تھے۔ آپ نے مولانا عبدالولی شاہ صاحب ؒ سے بھی علمی استفادہ کیا ہے۔ اگر چہ بعض مسائل میں آپ کی رائے الگ تھی، لیکن اکتسابِ علم میں عار نہیں کرتے تھے۔ آپ پر علمی رنگ غالب تھا۔ نہایت ہی شریف الطبع تھے۔ اپنے خاندان میں ہی نہیں، بلکہ پورے قصبے میں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔ مجھے اسی خاندان کی ایک محترمہ  امیرہ چشتی صاحبہ (جو ایک پرنسپل صاحب بھی رہی ہیں)  نے بتایا کہ میری والدہ محلہ جلال صاحب میں بچیوں کوقرآن پاک کی تعلیم دیتی تھی۔ اور اس درسگاہ کی نگرانی مولوی عبداللہ صاحب خود فرماتے تھے۔ اور جانچ پڑتال کے بعد اُن کی صحیح قرآن خوانی پر اپنا اعتماد ظاہر کر کے اُن کو مستقل قرآن پڑھانے پر مامور کرنے کی ہدایت دی۔ جتنی کچھ بھی دین کی شکلیں اس وقت ہمیں نظر آرہی ہیں یہ سب اُن ہی خانوادوں کے بزرگوں کی محنت و مشقت کی وجہ سے ہیں ۔اُن کے ایک قریبی رشتہ دار نے بتایا کہ جب میں نے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا تو میرے گھر والوں نے میرے لیے ایک پتلون بنوایا۔ جب مولوی صاحب نے مجھے دیکھا تو ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ ابھی اس کو اس پتلون کی کیاضرورت تھی۔ دراصل ہمارے اسلاف غیر اقوام کی وضع و قطع کو دل سے ناپسند کرتے تھے۔ قصبہ بارہمولہ کے ایک معزز صاحبِ قلم محترم خالق پرویز صاحب نے مجھے بتایا کہ جن دنوں مولوی صاحب بحیثیت استاد کام کرتے تھے تو انہوں نے ہم چند طلباء کو دوسرے سیکشن سے نکال کر اپنی نگہداشت میں لے لیا، حالانکہ ہم دوسرے مکتبِ فکر کے ساتھ تعلق رکھتے تھے، لیکن مولوی صاحب نے خصوصی شفقت کے تحت ہی اپنے کلاس میں اپنے ساتھ رکھا، تاکہ ہونہار بچوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچاسکیں۔اسی طرح ایک اور واقعہ بتایا کہ ایک متمول اور رئیس قسم کے آدمی نے چاہا کہ اُن کی مناکحت آپ کے گھر میں ہو جائے۔ باوجودیکہ وہ کافی جاہ و حشمت اور کافی اثر و رسوخ رکھتے تھے آپ اس نکاح پر رضامند نہ ہوئے۔ اور کہا کہ چونکہ ہم آپس میں ہم کفو نہیں ہیں اور نشست و برخاست،عادات وا طوار میں ہمارا باہمی جوڑ نہیں ہو سکتا ہے،لہٰذا ایسا ہمارے لیے ممکن نہیں۔ اس طرح آپ نے اپنی بچیوں کی مناکحت اپنے ہم کفو خاندان میں ہی کی۔ گویا کہ دنیاوی جاہ وحشم کو ٹھکرا کر شریعت کا پاس و لحاظ کرنے میں سیدھا سادا اسلامی طریقہ اپنایا۔ محترم خالق صاحب نے میرے اس مضمون پر کافی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے خود اس بات پر افسوس ہے کہ میں نے مولوی محمد عبداللہ صاحب کے متعلق خود کچھ نہ لکھا آپ نے لکھ کر اچھا کام کیا اور میرے اس مقالے پر دلی اطمینان اور مُسرت کا اظہار کیا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را 

 


Views : 1093

Leave a Comment