Aasi Ghulam Nabi
Thursday 17th of February 2022 04:42:49 PM
مولوی محمد یوسف شاہ صاحب مرحوم
علاقہ نارواو وادی کشمیر کے اندر ایک چھوٹیسی وادی ہے۔کچھاہل دانش اس کو Mountain Valley یعنی پہاڑوں سے گھری ایک وادی بھی کہتے ہیں۔ یہ وادی دو مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے اس کیساتھ اگر کا بالائی علاقہ بھی ملایا جائے تو اس چھوٹی سی وادی کا حجم تین مربع میل ہے۔ یہ ایک خوبصورت وادی ہے اور اس میں میر سید علی ہمدانی کے زمنے میں آئے ہوئے تقریباً ایک سو سادات کرام جن میں کچھ مستورات بھی ہیں مدفون ہیں۔ غلام حسن کھوہامی جو علاقہ بانڈی پورہ کشمیر کے ایک مشہور مورخ ہیں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ علاقہ دو مربع میل پر مشتمل ہے۔ اس علاقے کو ایک خاص حیثیت اس اعتبار سے بھی حاصل ہے کہ یہاں موضع فتح گڈھ میں حضرت سید جمال الدین عطائی صاحب ؒ کا جسد مبارک بھی مدفون ہے۔جو حضرت سید علی ہمدانی ؒ کے دست راست تھے۔یہاں زمانہ قدیم سے کچھ پیر خاندان بھی پائے جاتے ہیں۔یہ حضرات نہایت ہیی شریف الطبع ہیں۔علاقہ نارواو ئ کے تقریباً ہر گاؤں میں یہ حضرات کسی نہ کسی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اس علاقہ کے مغرب میں ایک گاؤں کچہامہ ہے جس کا تذکرہ کشمیر کی قدیم تاریخی کتابوں میں موجود ہے۔یہاں پر بھی پیر صاحبان کے کئی گھرانے آباد ہیں۔علاقہ کے یہ پیر صاحبان اس علاقہ کے مختلف گاؤں میں امامت کے فرائض انجام دیتے آئے ہیں۔یہ حضرات اسلامی وضع و قطع کے ہمیشہ پابند تھے۔ان ہی حضرات میں سے گذشتہ صدی کے آخری نصف صدی میں ایک بزرگ موضع کچہامہ میں پیدا ہوئے۔جن کا اسم گرامی محمد یوسف شاہ صاحب تھا۔ اس علاقہ کے عوام ان کو مولوی صاحب کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔یہ صاحب واقعی ہمارے بزرگوں میں سے تھے۔اللہ نے ان کو پیدائشی اعتبار سے اعلیٰ قسم کی ذہانت نصیب فرمائی تھی۔ ان کو علم حاصل کرنے کا بے انتہا شوق تھا۔سب سے پہلے انہوں نے داعی توحید مولانا عبد الولی شاہ صاحب ؒ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور اس کے بعد ان کے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ وہ کشمیر سے باہر جاکر مزید تعلیم حاصل کریں۔چنانچہ ان دنوں مولوی عبد الکبیر ؒ صاحب امرتسر میں ایک مدرسہ چلا رہے تھے۔اور ملک ابھی تقسیم نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا مولوی صاحب ایک معمولی زاد راہ اپنے ساتھ اٹھا کر امرتسر پہنچے۔جہاں مولانا عبد الکبیر صاحب ؒ خود بھی طلباء کو پڑھاتے تھے۔ مولانا عبد الکبیر صاحب مولانا انور شاہ صاحب ؒ کے شاگردوں میں تھے۔اور وہ کشمیر کے ان پانچ بڑے علماء میں سے ایک تھے جن کا تذکرہ ہم نے اپنے ماہوار رسالہ”راہ نجات“ میں کیا ہے۔ مولانا عبد الولی شاہ صاحب فرماتے تھے کہ جب میں امرتسر سے واپس کشمیر آیا تو میں نے ایک مدرسہ میں اپنی جگہ مولانا عبد الکبیر صاحب کو تعینات کرایا۔
مولانا عبد الکبیر صاحب اگر چہ تمام دینی علوم میں کافی دسترس رکھتے تھے لیکن علم صرف و نحو میں خاص امتیاز رکھتے تھے۔ایسے ہی علمی ماحول میں مولوی محمد یوسف شاہ صاحب ؒ نے تعلیم حاصل کی۔ لیکن اپنی گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے مولوی محمد یوسف شاہ صاحب کو کچھ عرصہ پہلے ہی واپس لوٹنا پڑا۔ اگر مولوی صاحب کو مجبوریاں نہ گھیر لیتیں اور ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا جیسا کہ ان کو خود بھی زبردست شوق تھا تو وہ کشمیر کے دوسرے انور شاہ ؒ بن گئے ہوتے۔ جن لوگوں نے مولوی صاحب کو دیکھا ہے یا ان کے مواعظ سنے ہیں انہیں خوب علم ہے کہ مولوی صاحب کس سطح کے عالم تھے۔آپ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ اپنے استادوں کا بے حد احترام کرتے تھے۔ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ آپ اپنے استاد محترم عبد الکبیر صاحب کو اپنے ساتھ کچہامہ لارہے تھے اور مولوی صاحب اپنے استاد محترم کے ساتھ نہایت ہی ادب کے ساتھ ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔آپ ایک جامع الصفات شخصیت کے مالک تھے۔دنیاوی تعلیم کا ان دنوں زیادہ رواج نہیں تھا اور آپ چاہتے تھے کہ اس علاقے کے نونہال دنیاوی تعلیم سے بھی آراستہ ہوں۔لہٰذا آپ اہل اقتدار کے ساتھ تعلقات قائم رکھتے تھے۔ان دنوں بارہمولہ کے ایک خالصہ جی آزاد ہربنس وزیر تعلیم ہوتے تھے۔اپنی طبیعت کے اعتبار سے وہ بھی شریف الطبع تھے اور اس کو اس بات کا احساس تھا کہ مولویی صاحب کا علاقہ نارواو میں کیا مقام ہے۔ لہٰذا اس نے عملاً اپنے منسٹری کے اختیار مولوی صاحب کو سپرد کیے تھے۔اور ان کے ہر مشورہ کو وہ اپنے لئے واجب التعمیل سمجھتا تھا۔ چنانچہ علاقہ نارواؤ کے اکثر سرکاری ملازم مولوی صاحب کی سفارش پر ہی نوکری پاتے تھے اور مولوی صاحب بھی کسی قسم کا بخل نہیں فرماتے تھے۔علاقہ کے لوگ مولوی صاحب کی ہمدردی کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی منسٹر صاحب اس علاقہ میں آتا تو مولاناخود سپاسنامہ تحریر فرما کر ہیش کرتے۔موضع فتح گڈھ میں ہائی اسکول منظور کرانے میں مولوی صاحب کا انتہائی ہمدردانہ رول رہا ہے۔دنیاوی لحاظ سے ان کارکردگیوں کو یکسو چھوڑ کر مولوی صاحب کا عام مسلمانوں کی دینی رہنمائی میں بھی ایک خاص رول رہا ہے۔ احقر نے مولوی صاحب کے ساتھ کافی وقت گذارا ہے۔مولوی صاحب نہایت درجہ کے شفیق اور نرم دل کے مالک تھے،آپ جب وعظ فرماتے تھے تو دوران بیان آپ کی آنکھیں اشکبار رہتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ خدا کا یہ بندہ دل سے یہ باتیں کہتا ہے۔ علاقہ نارواو میں سب سے پہلے آپ کی کوششوں سے شیری بازار کی مسجد میں نماز جمعہ قائم ہوئی۔اگر چہ آپ بذات خود فتویٰ دینے کی اہلیت رکھتے تھے اور بوقت ضرورت دیتے بھی تھے لیکن شیری میں نماز جمعہ قائم کرنے کے لئے آپ نے اپنے بزرگ علماء سے فتویٰ حاصل کیا اور پھر کافی عرصہ تک شیری میں نماز جمعہ خود پڑھاتے رہے۔میں فتح گڈھ سے شیری مولوی صاحب کا وعظ سننے کے لیے پیدل جاتا تھا اور مولوی صاحب کا وعظ سن کر محظوظ ہوجاتا تھا۔ مولوی صاحب کا وعظ کیا ہوتا تھا؟ صحابہ اور اولیائے کرام کے واقعات نہایت ہی دلگداز طریقے سے بیان فرماتے تھے۔ اگر چہ آپ حافظ نہیں تھے۔ لیکن ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی حافظ بیان فرماتا ہے۔ آپ کو صرف ونحو پر کافی عبور تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ خدا کے اس بندے نے اپنا طالبِ علمی کا زمانہ ضائع نہیں کیا ہے۔ آپ ایک انساندوست تھے اور کشمیر کے بڑے بڑے آفیسر آپ کی زبردست عزت کرتے تھے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں کشمیر میں کوئی ایسا مولوی نہیں دیکھا، جس کی عزت اس انداز سے بڑے بڑے آفیسرکرتے تھے، بلکہ ایک خاص حد تک اُن کا حیا بھی اُ ن پر حاوی ہوتا تھا۔ مولوی صاحب قدیم و جدید کا ایک سنگھم تھے۔ آپ اپنا لباس شریعت کے مطابق پہنتے تھے۔ سر پر عمامہ باندھتے تھے۔ آپ لوگوں کی فریاد سُن کر از بس عاجز ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے شِکایت کی کہ مولوی صاحب ہمیں کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ آپ کچھ لوگوں کی حمایت میں غلطی کرتے ہیں۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپ سچ کہتے ہیں کیا کروں؟ مجھے ان غریبوں کا پاس ولحاظ اس قسم کی غلطیوں کے قریب لے جاتا ہے۔ آپ بہت ہی صاحبِ لحاظ بزرگ تھے۔ ایک دفعہ ایک وکیل صاحب نے آپ پر طنز کرتے ہوئے یہ کلمات کہے کہ مولوی صاحب آپ کب تک اس قسم کی غلطی کرتے رہیں گے۔ تو مولوی صاحب نے وکیل صاحب کو قرآں کی آیت کا حولہ دے کر فرمایا و لا تاکلو اموالکم بینکم بالباطل وتدلوبھا الی الحکامِ۔ ترجمہ:۔ اور آپس میں باطل طریقوں سے یتیموں کے مال ہڑپ نہ کرو اور اُن کو گھسیٹ کر حکام کی کچہریوں تک نہ پہنچاؤ۔سورہ بقرہ آیت نمبر(۸۸۱) اس طرح مولوی صاحب نے وکیل صاحب کو خاموش کیا اور دوسری طرف گویا مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپ کا پیشہ بھی کوئی اچھا پیشہ نہیں ہے۔ آپ وکیل حضرات خوامخواہ لوگوں کو آپس میں لڑا کر عدالت کی کچہریوں تک پہنچا تے ہو۔ آپ انتہائی مہمان نواز تھے۔ صبح کے وقت نمکین چائے کا سماوار آپ کے سامنے رہتا تھا اور جتنے بھی غریب دیہاتی کوئی مسئلہ لے کر مولوی صاحب کے پاس آتے تو مولوی صاحب اُ ن کو گرم گرم نمکین چائے سے خاطر تواضع کراتے۔ آپ نے ایک دفعہ فرمایا کہ لوگ مجھے ختمات میں کچھ ہدیہ پیش کرتے ہیں،لیکن میں خود کو نہیں استعمال کرتا ہوں بلکہ لے کر غرباء میں تقسیم کرتا ہوں۔ آپ جب کسی میت کی تعزیت کے لیے اہل خانہ کے گھر جاکر ایثالِ ثواب کے لیے دعا فرماتے وہ دعا واقعی قابلِ رشک ہوتی تھی۔ جتنی مسنون عربی دعائیں ہوتی آپ اُن سب کو پڑھ کر میت کے لیے ایثال ثواب کرتے۔ علاقہ کے جتنے ائمہ حضرات تھے آپ کے سامنے کبھی امام بننے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ آپ میں بڑائی کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ آپ سید میرک شاہ صاحب کی خدمت میں اکثر حاضری دیتے تھے۔ آپ کے پاس شیخ عبدالقادر جیلانی کا ایک تبرک بھی تھا۔ آپ کی لائبریری میں مستبد علماء کی قابلِ قدر کتابیں رہتی تھیں۔ البتہ آپ زیادہ تر فضائلِ اعمال کو اپنے معمول میں رکھتے تھے اور حکایاتِ صحابہ کے واقعات آپ کو از بر یاد تھے۔ شیخ زکریا ؒ کے زبردست مداح تھے۔ آپ انجمنِ تبلیغ الاسلام کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ اور ضلع بارہمولہ کے ایک کلیدی عہدہ پر فائز تھے۔ اکثر مولانا بخاریؒ کو مدعو کرتے تھے۔اور اُن کا وعظ سننے کے لیے عوام کو جمع کرتے تھے۔ آپ نے بارہمولہ کی بیت المکرم مسجد کی تعمیر اوّل میں مولوی حبیب اللہ صاحب مرحوم کی خاطر خواہ مدد کی۔ آپ علاقہ کے اکثر مسائل میں عوام کی رہبری فرما کر حکام تک مسائل کو پہنچاتے تھے۔ اُس دور میں علاقہ نارواؤ کے جتنے بھی فلاح و بہبود کے کام سرانجام پاتے مولوی صاحب اُن تمام میں لوگوں کی رہبری و رہنمائی فرماتے تھے۔ چونکہ آپ کے زمانے میں کئی عصری دینی تحریکیں چل رہی تھیں آپ ہر ایک کے ساتھ ہمدردانہ رویہ ہی برتتے تھے۔ سلفِ صالحین کے طریقہ پر جم کر رہنے کی تلقین فرماتے تھے۔ خود بھی حنفی تھے اور حنفیت کی تائید میں ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ آپ نے دین فروشی کو یکسر ترک کرکے خود کام کاج کا طریقہ اپنایا تھا۔ محتاجوں، مسکینوں مساجد اور دیگر دینی اداروں کا مقدور بھر تعاون فرماتے تھے۔ آپ کافی عرصہ تک سرپنج کے عہدہ پر بھی تائنات تھے۔ حالانکہ عوامی حلقوں میں آپ کا مرتبہ ایک ایم۔ ایل۔اے سے کم نہ تھا۔ اکثر ماہِ رمضان کا آخری عشرہ مسجد میں اعتکاف کرتے تھے۔ اگر آپ کو عوامی مصروفیات کے اُمور سے کچھ فرصت ملتی تو آپ ایک اچھے صاحب قلم کی حیثیت سے بڑی خدمت انجام دیتے۔ فارسی زبان پر بھی آپ کو عبور تھااور مولانا جامیؔ کے تو آپ عاشق تھے۔ میرے والد مرحوم کے ساتھ مولوی صاحب کے اچھے تعلقات تھے۔ اور اُن کو خوجہ جو کشمیری زبان میں خواجہ کا مخفف ہے کہتے تھے، احقر کے والد صاحب بھی دل سے اُن کے قدردان تھے۔ ایک دفعہ موضع کہل کے کچھ بزرگ حضرات میرے پاس آئے۔ اور ایک مسئلہ کے متعلق جواب حاصل کرنا چاہا۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ کسی مفتی صاحب کے پاس جائیں اور وہاں سے جواب حاصل کریں۔ انہوں نے کہا کہ دیکھو جی ہم مولوی یوسف صاحب کے پاس مسئلہ لے کر جاتے تھے وہ اب مرحوم ہوچکے ہیں لیکن ایک دفعہ ہم نے اُن سے پوچھا تھا کہ آپ کے بعد ہم مسئہ پوچھنے کے لیے کہاں جائیں گے تو انہوں نے فرمایا تھا کہ آپ غلام نبی کے پاس جائیں۔ اسی لیے ہم آپ کے پاس آئے ہیں۔ احقر چونکہ فتویٰ نہیں دیتا ہوں، لیکن اُن لوگوں نے مجھے مجبور کیا اور مولوی صاحب کا حوالہ دے ایک طرح سے مجھے مجبو ر کیا۔ میں نے اُن کو جواباً کہا کہ آپ لوگوں نے مجھے اُن بزرگ کا حوالہ دے کر گھیر ا ہے لہٰذا میں اُ ن کے ادب کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کے مسئلے کے سلسلے میں ایک مستند مجموعہ فتاویٰ کا جواب تحریر لکھ کر دونگا اور کسی مستند مفتی صاحب کو دکھائیں اور وہاں سے اُس کی تصدیق کراکے اپنا جواب حاصل کریں۔ چونکہ مسئلے کا جواب جو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے پورا پورا اس فتوے میں موجود تھا۔ انہوں نے مجھ سے حاصل کر کے مفتی صاحب کو پیش کیا اور مفتی صاحب نے اُس کی تصدیق فرما کر بستی والوں کو مسئلے کا جواب دے دیا۔ مجھے مولوی صاحب کے حسن ظن پر رشک آیا اور کسی دوسرے مسلمان کے ساتھ کیسا ظن رکھنا چاہیے۔ مولوی صاحب کے اس وطیرہ سے عملاً ثابت ہوا۔ اللہ دونوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ نصیب فرمائے۔ احقر کو اُن کی نمازِ جنازہ میں شرکت کا موقع اللہ نے نصیب فرمایا۔