Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

صحبتے با اہل علم  (14)


  • Aasi Ghulam Nabi
  • Wednesday 9th of February 2022 04:07:55 PM

صحبتے با اہل علم  14

ؒمحمد لطیف بیگ صاحب
  

 تاریخ اقوام کشمیرکے مصنف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ تحصیل اُوڑی (کشمیر) میں ایک معزز قطب شاہی اعوان خاندان عرصہئ دراز سے آباد ہے۔ اوڑی سے پونچھ کو جاتے ہوئے لب سڑک ایک موضع بلکوٹ آتا ہے وہاں مولوی غلام مرتضیٰ بیگ رہتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے پہاڑی موضع میں مولانا کے پاس ایک مختصر سا عربی، فارسی اور اُردو زبان کا کُتب خانہ بھی ہے۔ سردار محمد رحیم بیگ شہید آپ کے پردادا تھے،جن کی اس علاقہ میں بہت شہرت ہے۔ اس خاندان کی ایک شاخ بارہمولہ کی تحصیل میں رہتی ہے،جن میں سردار غلام محی الدین بیگ سفید پوش،سردار سعد اللہ بیگ، سردار محمد سلیمان بیگ اور مولوی محمد اسحاق بیگ، مولوی فاضل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس خاندان کی یہ خصوصیت ہے۔ کہ زراعت پیشہ ہونے کے باوجود سب لکھے پڑھے بالخصوص پشت ہا پشت سے علوم دینی سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ زمانہئ سلف میں حکومت کی طرف سے اس خاندان کو سردار کا خطاب مِلا تھا۔اور مغل خاندان سے رشتہ داری کی و جہ سے بیگ بھی مشہور ہوگئے۔ اسی لیے یہ دونوں الفاظ آپ کے خاندان کے ساتھ شامل چلے آتے ہیں“۔
    مذکورہ عبارت میں فوق صاحب نے جس مولوی غلام مرتضیٰ بیگ کا تذکرہ کیا ہے مجھے اسی خاندان سے منسلک ایک علم دوست ساتھی نے بتایا کہ یہی صاحب مولوی محمد لطیف بیگ صاحب کے والد مرحوم تھے۔ ان حضرات کی تشریف آوری کن مخصوص حالات میں بلکوٹ اُوڑی سے بارہمولہ ہوئی اس کے متعلق مجھے کوئی علم نہیں البتہ علاقہ نارواؤ بارہمولہ میں اِ س خاندان کے دو معزز بزرگ کھڈپورہ میں اپنے دیگر قرابت داروں کے ساتھ سکونت پزیر تھے، جن میں سے ایک محترم محمد حنیف صاحب تھے اور دوسرے محمد لطیف صاحب تھے۔ دونوں محکمہ تعلیم میں اپنی خدمات انجام دیتے تھے محمد حنیف صاحب بڑے بھائی تھے اور محمد لطیف صاحب چھوٹے بھائی تھے۔کھڈپورہ جو اب لطیف آباد کے نام سے مشہور ہے علاقعہ نارواؤ کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اس بستی کا نام محمد لطیف صاحب کی وجہ سے ہی لطیف آباد میں تبدیل ہوا۔ بڑا بھائی محمد حنیف صاحب بحیثیت ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسراپنی سروس سے سبکدوش ہوگئے۔ اور چھوٹے بھائی مولوی لطیف صاحب بحیثیت کالج پرنسپل سبکدوش ہوئے۔ اِن دونوں بھائیوں کو یہ عہدے دنیوی علوم میں اعلیٰ ڈگریوں کی بنیاد پر حاصل ہوگئے۔لیکن یہ حضرات دین اور مذہبی علوم سے کافی دلچسپی رکھتے تھے اور مولانا عبدالطیف صاحب توبہت بڑے عالم تھے۔ ایک جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ذکر و فکر کے بڑے پابند تھے۔ اگر چہ آپ جسمانی طور سے نحیف ہی تھے، لیکن چہرے پر شرافت و نجابت کے ساتھ ساتھ داڑھی بھی رکھتے تھے،حالانکہ اُس زمانہ کے آفیسر اکثر اِن اوصاف سے عاری تھے۔ مجھے اپنی زندگی میں مولوی عبدالطیف صاحب کا پہلا تعارف سابقہ پارلیمنٹ ممبر سیف الدین سوز صاحب کی معرفت سے ہوا جو اُس زمانے میں سوپور ڈگری کالج میں بحیثیت پروفیسر تعینات تھے اور اُسی کالج میں مولوی محمد لطیف صاحب بھی بحیثیت پروفیسر تعینات تھے۔ دونوں اصحاب ہم عصر اور ہم پیشہ تھے۔ ایک دن وہ اپنے چند احباب کے ساتھ ہمارے ٹرینگ سینٹر کی جانب آئے بیچ میں ایک دیوار تھی اور کسی موضوع پر ہمارے ٹیچر ایجوکیڑ صاحبان کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ باتوں باتوں میں سوز صاحب نے فرمایا کہ اگر کسی کو زندہ ولی دیکھنے کا شوق ہو تو وہ ہمارے کالج کے پرنسپل مولوی عبدالطیف کو دیکھنا چاہیے۔ سوز صاحب نے تو خیر یہ بات اپنی عقیدت مندی کی وجہ سے مولوی عبدالطیف صاحب کے متعلق فرمائی  اور وہ واقعی اس لقب کے مستحق تھے لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر ولی زندہ ہے چاہے وہ مرحوم ہی کیوں نہ ہوا ہو اور یہ الگ بات ہے کہ ہم اُن کی حیات کا شعور نہیں رکھتے۔سوز صاحب کے الفاظ نے میرے شعور کوجھنجھوڑا اور میں نے اپنے من میں ڈوب کر سو چنا شروع کیا کہ سوز صاحب تو مولوی عبدالطیف صاحب کے ساتھی ہیں اور ہم اُن کے ہمسایہ ہیں لیکن ہمیں مولوی صاحب کا ابھی تک تعارف نہیں۔ میں نے اِدھر ہی اپنا من بنا لیا کہ میں ضرور اِن حضرت کی خدمت میں حاضری دونگا۔اور کچھ استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔ ایک دن میں اپنے گھر سے روانہ ہوا اور راستے میں مجھے ایک اور صاحب بھی  ملے جن کے ساتھ اُن کی زوجہ محترمہ تھی۔ یہ ایک کالج لیکچرر تھے جو بذاتِ خود اپنی بیوی کے ہمراہ مولوی محمد لطیف صاحب کی خدمت میں حاضری دینے کے لیے نکلے تھے،چونکہ اُن دِنوں ٹرانسپورٹ وغیرہ کاکوئی معقول بندوبست نہیں تھا اس لیے ہم سب پیدل ہی سفر کررہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ رُک کر احمد حسن صاحب کے ساتھ مذہبی گفتگو شروع ہوگئی۔اور مولانا مودودی  صاحب ؒ کی کتاب خلافت و ملوکیت پر خوب بحث ہوئی۔ اسی ماحول میں ہم مولوی عبدالطیف صاحب کی خدمت میں پہنچے۔ یہ میری پہلی باقاعدہ ملاقات تھی۔ مولوی صاحب کی زبان ہمیشہ یاد خد ا میں مصروف رہتی تھی۔ میں نے سُنا کہ اُن کو ہمسایہ ملک کے کسی باکمال بزرگ کی بیعت و صحبت بھی حاصل تھی۔ گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیاوی اعزاز کے ساتھ ساتھ دینی اعزاز سے بھی نوازا تھا۔ پہلی ہی ملاقات میں مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ یہ بندہئ خدا اللہ کا ولی ہے،کیوں کہ اُن کی زُبان پر بجز ذکراللہ اور دینی کلام کے اور کوئی بات میں نے نہیں پائی۔ اُن کی زبان سے جو الفاظ نکلتے تھے ایسا لگتا تھا کہ اُن میں کوئی تصنع نہیں ہے، بلکہ بات پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ ہوتی ہے۔ میں نے عزم کیا کہ میں وقتاً فوقتاً اِن کی خدمت میں حاضری دیتا رہوں گا اور کچھ فیض حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔چنانچہ اس کے بعد احقر چند بار اُن کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک خاموش طبیعت رکھنے کے باوجود میرے ساتھ گفتگو میں خوب کُھل جاتے تھے اور اپنے علم و تجربات کی روشنی میں سیر حاصل تبصرہ فرماتے تھے اُن کی ہر بات علمی ہوتی تھی او ر اِس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں لگتا تھا کہ مولوی صاحب واقعی علم کا ایک سمندر ہیں۔ ایک دن کشمیر کے موجودہ حالات پر تبصرہ فرماتے ہوئے نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہا کہ ہم ان حالات میں اپنے گناہوں کے سبب مبتلاء ہوگئے ہیں۔ اور یہ ہمارے لیے عذاب کی ایک صورت ہے۔ اسی سلسلے میں بات کوآگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میں نے سوپور ڈگری کالج میں بڑی جانفشانی سے ایک اچھی اور معیاری لائبریری تیار کرائی تھی اور اس میں عرب ممالک کے کتب خانوں سے معیاری قسم کی کتابیں خرید کر جمع کر دی تھیں، لیکن افراتفری کے ان ہنگاموں میں اُس لائبریری کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ اور اس طرح میری محنت پر پانی پھر گیا۔ پھر فرمایا کہ قرآنِ کریم کی ایک آیت میں اللہ کے نافرمانوں پر اللہ کے عذاب کی تین صورتیں بیان کی گئیں ہیں، جن میں ایک صورت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ جب امت نافرمان بن جائے گی تو اللہ رب العزت بعض لوگوں کو بعض لوگوں سے آپسی لڑائی جھگڑوں کے ذریعے سے اپنے عذاب کا مزہ چکھائے گا اور اس وقت باہمی مخاصمت کی جو صورت حال بنی ہوئی ہے اس سے صاف اور واضح ہوجاتا ہے کہ یہ واقعی ایک عذاب ہے، جس کا مزہ ہمیں باہمی لڑائیوں کے ذریعے چکھایا جارہا ہے۔
    ایک دفعہ میں نے استفسار کیا کہ دیوبندی اور بریلوی اختلاف کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں۔ فرمایا دونوں طبقوں نے اسلام کی خدمت اپنے اپنے دائرے میں کی اگر چہ دیوبندی حضرات کی خدمات کچھ زیادہ ہی ہیں، لیکن بریلوی اصحاب نے بھی خدمات انجام دی ہیں۔ ایسا غیر جانبدار تبصرہ کرنے پر مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ خدا کا یہ بندہ ایک غیر متعصب اور بُردبار شخصیت کا مالک ہے۔
    مولوی عبدالطیف صاحبؒ مولانا انور شاہ صاحب  ؒ کے بڑے مداح تھے۔ فرمایا میرے پاس اُن کی ایک کتاب کی فوٹو سٹیٹ کاپی موجو د ہے، جوڈنگی وچہ کے ایک علم دوست نوجوان نے فراہم کی ہے۔ اُس میں شاہ صاحب ؒ نے بعض اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ بتائی ہے۔ میری خواہش پر وہ نسخہ انہوں نے عاریتاً دیا اور اُس کی نقل کاپی محفوظ کرنے کے بعد میں نے اصل کاپی مولوی محمد لطیف صاحب کو واپس کر دی۔
    مسئلہ وحدت الوجود کے بارے میں فرمایاکہ یہ ایک ذوقی و کشفی مسئلہ ہے۔ جو صرف بحث و مباحثہ سے سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ محی الدین ابن عربی نے اس پر عالمانہ بحث فرمائی ہے۔ سوپور کے حاجی غلام رسول ڈار صاحب کی بڑی تعریف فرمائی کہ انہوں نے  دارالعلوم کے لیے ایک قطعہ زمین دے کر علم کا چراغ روشن کرنے میں ایک کارنامہ انجام دیا۔
    زندگی کے آخری دور میں مولوی عبدالطیف صاحب پرفکر آخرت کا زبردست غلبہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اپنی آخری ملاقات میں جب اُن سے ملنے کے لیے گیا تو واپسی پر اپنے مکان کے کے گیٹ تک ازراہِ شفقت میرے ساتھ نکلے اور اپنے گیٹ پر نہایت ہی دردمندی کے ساتھ فرمایا کہ غلام نبی اب وقت اخیر ہے میرے لیے دعا فرماتے رہے کہ اللہ ایمان پر میرا خاتمہ فرمائے۔ میرے اوپر لرزہ طاری ہوگیا کہ خدا سے اس قدر ڈرنے والا یہ بندہ اپنی آخرت کے بارے میں کس قدر متفکر ہے ہم جیسے نالائقوں کو ا ن کی عجز و انکسای کو دیکھ کر سبق حاصل کرنا چاہیے۔ واقعی مولوی عبدالطیف صاحب خدا کے ایک نہایت ہی نیک  بندہ تھے۔ آپ کو قدرت نے اولاد بھی نہایت شریف الطبع عطا فرمائی ہے، جن کا تعارف اس ناچیز کو ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کو اپنے اس روحانی بزرگ کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق نصیب فرمائے آمین۔ مولانا محمد لطیف ؒ 5دسمبر 1921؁ء کو پیدا ہوئے اور1جون2002؁ء کو اس دارِ فانی سے چل بسے۔ موصوف لطیف آباد میں ہی مدفون ہیں۔
                       

   خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینت را  
 


Views : 1025

Leave a Comment