درس مثنوی
مجاہدہ کے بغیر مکاشفہ کی تمنا کرنا
ایک بے وفوف آدمی ایک سفر میں حضرت عیسی ؑ کا ساتھی بن گیا۔ایک جگہ پہنچ کر اُس نے ایک گہری قبر میں ہڈیاں دیکھیں۔حضرت عیسیؑ سے کہنے لگا اے عیسیؑ خداکا وہ پاک نام جس کی برکت سے تم مردوں کو زندہ کرتے ہو، ذرا مجھے بھی بتا دو تا کہ میں بھی اِ ن ہڈیوں کو جاندار بنا دوں۔ حضرت عیسیؑ نے فرمایا ”خاموش بن جا یہ تیرا کام نہیں ہے کیوں کہ تمہارے سانسوں اور گفتار میں وہ قوت نہیں ہے۔ ایسا کام کرنے کے لیے ایسا سانس ہونا چاہیے جو بارش کے پانی سے زیادہ پاک ہو۔ خالی لاٹھی ہاتھ میں رکھنے سے کوئی شخص حضرتِ موسیٰ ؑ جیسا معجزہ نہیں دِکھا سکتا۔ اس ساتھی نے پھر حضرت عیسیٰ ؑ سے کہا کہ اگر میں اس قابل نہیں ہُوں تو آپ ہی ان ہڈیوں پر دم کیجئے، تاکہ اِن ہڈیوں میں جان پڑ جائے۔اس کے اصرار کو دیکھ کر حضرت عیسیٰ ؑ نے اللہ سے درخواست کی کہ”اے اللہ اس میں راز کی کیا بات ہے،کہ یہ شخص مجھے مجبور کرتا ہے، حالانکہ قبر کی ہڈیوں کو جاندار بنانے کے برعکس اس کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے تھی کہ یہ اپنی جان پر رحم کرتا اور اپنے بے جان جسم کو ایمانی اعتبار سے جاندار بنانے کی فکر کرتا۔ اپنی تو فکرنہیں کرتا ہے، بلکہ اس کے برعکس مردہ ہڈیوں کو جاندا ر بنانے کی فکر میں پڑا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ شخص بدبخت ہے اور بدبختی کو ہی تلاش کرتا ہے۔ یہ شخص ایسی کھیتی کی تلاش میں ہے،جس سے صرف کانٹے ہی اُگیں گے۔ اگر یہ ہاتھ میں پھول بھی لے گا تو وہ کانٹا بن جائے گا۔ اپنے دوست کے لیے سانپ بن جائے گا۔اے عیسیٰ ؑاُس شخص کے قول و فعل پر بھروسہ نہ کر۔ایسا شخص بید کے درخت کی طرح بے پھل ہوتا ہے۔
سبق:۔ اِس قصے کے ذریعہ مولانا رومیؒ ہمیں یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ کم ظرف انسان پروں کے بغیر ہی راتوں رات اُڑنے کی تمنا کرتا ہے۔اور مجاہدوں کی چکی میں اپنے آپ کو پیسنے سے بچاتا ہے اور جو دانہ پیسنے کی مشقت نہیں اُٹھائے گا اُس سے مزہ دار روٹی کیسے وجود میں آئے گی۔ خلاصہ اس قصے کا یہ ہے کہ
گفت حق اِدبار اگر ادبار جوست
خار روئیدن جزائے کِشتِ اوست
ہیں مکُن بر قول وفعلش اعتمید
کو ندارد میوہئ مانند بید
ترجمہ:۔ اللہ تعالی نے فرمایا بد بخت ہے اگر بدبختی کا جویا ن ہے۔اُس کی کھیتی کا نتیجہ کانٹوں کا اُگنا ہے۔ خبردار! اُس کے قول و فعل پر بھروسہ نہ کر۔ وہ (درختِ) بید کی طرح پھل نہیں رکھتا ہے۔
مختصر یہ کہ بیوقوف جس کو کیمیا سمجھتا ہے وہ سانپ کا زہر ہے۔اس کے برعکس مومن مجاہدوں سے زہر کوبھی کیمیا بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ راہِ حق کا مسافر اپنی غلط خواہشات کو قابو میں رکھ کر منزلِ مقصود کو پالیتا ہے،اور بیوقوف پروں کے بغیر ہی اڑنے کی خواہش رکھتا ہے۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔
Views : 781