Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

صحبتے با اہل علم(13)


  • aasi Ghulam Nabi
  • Monday 7th of February 2022 12:10:16 PM

مولانا فضل الرحمان صاحبؒ تُرک 
    محمد الدین فوق ایک کشمیر ی الاصل مؤرخ ہے۔ انہوں نے ستر کتایں تصنیف کی ہیں۔ کشمیر کے متعلق اُن کی تصانیف تاریخی اعتبار سے بڑا مقام رکھتی ہیں۔ چنانچہ تاریخ اقوام کشمیر اُن کی عالی قدر تصانیف میں شمار کی جاتی ہے، جس میں انہوں نے کشمیر کی تمام ذاتوں کے تاریخی حالات لکھئے ہیں۔ اُن کے پردادا کا نا م حسن ڈار تھا،جو ابتدائے شباب میں ہی کشمیر ہردو شیوہ سوپور سے پنجاب چلا آیا تھا۔اُس زمانے میں کشمیر میں افغانوں کی حکومت تھی۔ پنجاب میں ایک جگہ ہے،جس کا نام گھڑتل ہے۔ اور وہ وہیں آباد ہوا۔ آپ ضد1977  عیسوی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھڑتل اور لاہور میں حاصل کی۔ قدرت نے اُن کو اُس زمانے میں گھومنے پھرنے کا کافی موقع عنایت فرمایا اور اُنہوں نے جموں و کشمیر کے حالات پر تحقیقی کتابیں لکھی ہیں۔ اپنی کتاب”تاریخ اقوام کشمیر“(جلد اوّل) کے صفحہ 380پر و ہ تُرک ذات کے متعلق لکھتے ہیں ”تُرک قوم گو اب کشمیر میں ایک معمولی زمیندار مفلوک الحال قوم ہے، لیکن ایک زمانہ میں تین ترکستانی شہزادے ۲۴ سال تک کشمیر میں حکومت کرتے رہے ہیں۔ اپنی ترکوں کی ذریات سے جاگیر کٹھائی کے موضع مایاں اور موضع بجہامہ میں بھی ترکوں کی آبادی ہے۔ بارہمولہ کے متصل ایک گاؤں لڑی ڈورہ کے نام سے نارواؤ میں ہے۔ وہاں سب تُرک ہی آباد ہیں۔ یہاں کا نمبردار بھی (دوست محمد خان) تُرک ہی ہے۔
    اسی خاندان میں انیسوی صدی کی ابتداء میں ایک بچہ پیدا ہوا، جس کا نام فضل الرحمان رکھا گیا۔ یہ لوگ ”خان“ ذات کے نام سے مشہور ہیں۔ مولانا فضل الرحمان صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے ہی حاصل کی۔ لیکن ذاتی شوق اور بزرگوں کی خواہش پر بچپن میں ہی تقسیم ملک سے پہلے لاہور چلے گئے اور وہاں عالم و فاضل ہونے کی ڈگری حاصل کی۔ لیکن علم کے شوق نے اُنہیں دیوبند پہنچا دیا اور وہاں مولانا انور شاہ کشمیری ؒ کے سامنے زانوئے  ادب تہہ کیا اور تکمیل علوم کے ساتھ ساتھ مفتی بن کر آئے۔ کشمیر آنے کے بعد آپ نے اپنے پیدائشی مقام پر ہی بود وباش اختیار کی۔ آپ نے درس و تدریس کے دوران طبی علوم بھی حاصل کئے تھے جو اُن دِنوں ہر طالبِ علم حاصل کرنے کا عادی تھا۔ اُن دِنوں عِلاج و معالجہ صرف وہی لوگ کرتے تھے ،جنہیں علم طب میں رسوخ ہوتا تھا،اسی پر آپ ؒ کا گذارہ ہوتا تھا۔جس طرح مولانا انور شاہ کشمیری ؒ زبردست غیور تھے اور علم دین سکھانے پر اُجرت حاصل کرنا ناپسند کرتے تھے اُسی طرح اُن کے شاگرد بھی اپنے استاد کے نقشِ قدم پر چل کر فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے دور میں مولانا فضل الرحمان صاحب ؒ علاقہ نارواؤ کے واحد دیوبندی عالم تھے، لیکن اُن کا ایک خصوصی وصف یہ تھا کہ وہ کافی سنجیدہ تھے اور اُ ن اختلافات میں لوگوں کو نہیں پڑنے دیتے تھے، جن کا آج عام رواج ہے۔ ان حضرات میں نمود ونمائش کا شائبہ نہیں تھا۔مسلک حنفی کے مطابق لوگوں کی رہبری فرماتے تھے او ر مختلف مختلفٌ فیہ مسائل پر باہم جھگڑنا پسند نہیں کرتے تھے۔ صرف اللہ کے واسطے امامت کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ تقویٰ و طہارت اُن کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ چند مقامات پر نمازِ جمعہ قائم کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اور اُ س میں بھی بڑی چھان بین کی۔ چنانچہ ہمارے گاؤں فتحگڈھ میں بھی اُنہوں نے ہی نماز جمعہ قائم کرنے کی اجازت دی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور وہ جمعہ کے روز ہی ہمارے گاؤں کی مسجد میں تشریف لائے اور سب لوگ جمع ہوگئے۔ پوری چھان بین کی۔ لوگوں سے مختلف سوالات پوچھے۔ لوگ بہت تذبذب میں تھے کہ نہ معلوم مولانا کیا فتویٰ صادر فرمائیں گے، لیکن مولانا نے فتویٰ دینے سے پہلے ایک بلیغ تقریر فرمائی اور آخر پر موقعہ پر ہی نماز جمعہ قائم کرنے کے متعلق اپنا فتویٰ سنایا۔لیکن لوگوں سے پورا عہد و پیمان لیا کہ ہم جمعہ کے روز نمازِ جمعہ کو پابندی کے ساتھ قائم رکھیں گے۔ ایک دفعہ ڈنگی وچہ کے کسی صاحب نے آپ سے کسی مسئلے میں فتویٰ حاصل کیا لیکن اسی مسئلے میں دوسرا فتویٰ ایک دوسرے مفتی صاحب سے بھی حاصل کیا۔ مسئلہ عدالت میں تھا اور دونوں فتوؤں میں احادیث کے حوالے سے استنباط کیا گیا تھا۔ جج صاحب نے فرمایا کہ دونوں طرف سے احادیث پیش کی جارہی ہیں میں اضطراب میں ہوں کہ کس مولوی صاحب کے فتویٰ کے مطابق فیصلہ دُوں۔ دوسرے  مولوی صاحب کے دلائل کو سن کرجج صاحب نے مولانا فضل الرحمان صاحب سے پوچھا کہ آپ اپنے فتویٰ کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے۔ تومولانا فضل الرحمان صاحب نے فرمایا کہ میرے فتویٰ کے ساتھ ایک مضبوط دلیل یہ بھی ہے کہ میں نے اُس مقام پر جاکر موقعے پر معاملات کو جانچا  اور جبکہ میرے مد مقابل مولانا نے فتویٰ ہی دیا ہے۔ لہٰذا میرا جائے موقعہ پر جاکر معاملات کو جانچنا اور پھر فتویٰ دینا میرے حق میں ایک اضافی دلیل ہے۔ جج صاحب یہ بات سُن کر بہت خوش ہوئے اور مولانا فضل الرحمان صاحب کے فتویٰ کے مطابق ہی فیصلہ صادر فرمایا۔ اسی طرح ٹنگمرگ سے ایک مسئلہ آیا اور وہاں پر فریق مقابل نے کئی مولویوں کو لایا تھا، لیکن جب انہوں نے سُنا کہ مولانا فضل الرحمان صاحب لرہئ ڈورہ سے بذاتِ خود تشریف لارہے ہیں تو وہ یا تو واپس چلے گئے یا خاموش بن کر بیٹھے اور مولانا کے فتویٰ کے مطابق ہی فیصلہ ہوا۔ ان باتوں سے پتہ چلتاہے کہ یہ حضرات رسمی مفتی ہی نہیں تھے، بلکہ پوری ذمہ داری کے ساتھ حالات و واقعات کا موقعہ پر جا کر جائزہ لینے کے بعد شریعت کا حکم صادر فرماتے تھے۔ 1978 عیسوی میں لگ بھگ وفات پائی۔ آپ کی اولاد موضع لرہئ ڈورہ میں آباد ہے۔ 

 

خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را 
 


Views : 999

Leave a Comment