Editorial (اداریہ )


Salik Bilal
Saturday 5th of February 2022 03:05:40 PM
               

فن خطابت اور معرفت الٰہی

جہاں تک فن خطابت کا تعلق ہے  یہ ایک ایسا فن ہے جس سے آدمی اپنے مافی الضمیر کو بہترین انداز میں زبان عطا کرتا ہے۔ اور یہی حسن بیان انسان کا طرہ ئامتیاز ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”انسان کو حسن بیان کے اعزاز کے ساتھ پیدا کیا گیا۔چونکہ انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اللہ عبادت بیان کر رہے ہیں اور عبادت کا ایک مفہوم علماء”معرفت“بیان فرماتے ہیں۔اس مفہوم کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو انسان کی تخلیق کا قصد اللہ تعالیٰ نے اسی لیے کیا کہ یہ میری ذات کی معرفت خودحاصل کرے اور اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی کرائے۔
اس سلسلے میں انسان کے وجود کے لیے نطق کا ہونا ضروری تھا۔لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت گویائی عطا کی۔اسی مفہوم کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتے ہیں کہ خلق الانسان علمہ البیان۔بیان علم اللسان میں اس لسانی صلاحیت کو کہتے ہیں جس سے کسی معاملہ یا صورت حال کا انکشاف ہو یا وہ صلاحیت جس سے ایک مفہوم کو مختلف طریقوں سے ادا کیا جائے۔اسی طرح حلال اور حرام یا ھدایت اور ضلالت کے درمیان فرق واضح کرنے کی صلاحیت کو بھی بیان کا فن بتایا گیا ہے۔علامہ قرطبی ؒ ”بیان الحلال من الحرا م والھدی من الضلال“یعنی حلال کو حرام سے واضح کرنا اور ہدایت کو ضلالت سے واضح کرنا ”لفظ”بیان“ کی تفسیر بیان فرماتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ’’بیان“ کی جامع تعریف وہ نطقی صلاحیت ہے جس سے خالق اور مخلوق،ھدایت اور ضلالت،حلال اور حرام کے درمیان فرق  واضح ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ناقابل فہم اور مغلق الفاظ کا استعمال بیان کی خوبیوں میں شمار نہیں کیا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے تما م پیغمبر وں کی سنت یہی رہی ہے کہ وہ آسان زبان میں اپنا پیغام لوگوں  کے سامنے رکھتے ہیں۔ ولقد یسر نا القران لذکر فھل من مدکر،اور الشعرآء یتبعھم الغآؤن  وغیرہ آیتوں سے یہی بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ کے کلام کی بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ سمجھنے کے لیے بہت آسان ہے اور شعراء کا کلام مغلق اور لایعنی ہونے کے ساتھ ساتھ خیالی ہوتا ہے لہٰذا ان کی ذم کی گئی ہے۔ لغو باتوں سے اجتناب مومنین کی صفتوں میں سے ایک بڑی صفت ہے اللہ تعالیٰ سورہ القصص میں فرماتے ہیں کہ ”جب وہ کوئی لغو بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں“اسی طرح ”اچھی بات صدقہ ہے“اور ”سب سے زیادہ پسندیدہ عمل (اللہ تعالیٰ)کے نزدیک زبان کی حفاظت کرنا ہے جیسی حدیثین اسی مفہوم پر دال ہیں۔ 
مندرجہ بالا وضاحت سے یہ بات صاف ہوئی کہ انسان کو ہر حال میں اس چیز کا مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ صاف، سیدھی  اور خیر کی بات کہے کیونکہ بیان کے پیچھے مقصد وحید یہی ہے کہ اس سے انسان کی صحیح رہنمائی ہو۔جس کلام سے انسان کی صحیح رہنمائی نہ ہو وہ بیان کے مفہوم اور الٰہی منشے کو پورانہیں کرتا ہے۔ اس سلسلے میں امت مسلمہ کے تمام واعظوں،خطیبوں اور مقرروں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ممبروں پر دین کی بات بیان کرتے وقت عام فہم انداز اختیار کریں۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ ان کو سمجھ پائیں گے۔اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس طرح دین کی بات بیان کریں کہ بیان کی مٹھاس سے لوگ لطف اندوز ہوجائیں۔تلخ اور شکوہ شکایت والی زبان کا استعمال نہ کریں۔
آجکل ہمارے خطباء حضرات کی عادت یہ بن گئی ہے کہ وہ دین کی بنیادی اور ضروری باتوں کی تبلیغ کرنے کے بجائے ممبروں پر اختلافی اور کلامی مسائل بیان کرتے ہیں۔  اپنا فکری موقف بیان کرنے میں جب ناکام ہوجاتے ہیں تو اپنے مخالف فکر والوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔اس طرح سامعین دین سے قریب ہونے کے بجائے دین سے دور ہی ہوجاتے ہیں۔ امیر مینائی اسی قسم کے واعظوں سے مخاطب ہے  
نہ واعظ ہجو کر اک دن دنیا سے جانا ہے 
ارے منہ ساقی کوثرؐ کو بھی آخر دکھانا ہے
 
  لہٰذا اسماعیل میرٹھی کا یہ شعر تمام واعظوں کے لیے راہ عمل ہے 
جو بات کہو،صاف ہو،ستھری ہو،بھلی ہو 
کڑوی نہ ہو،کھٹی نہ ہو،مصری کی ڈلی ہو
 
یہی خطابت اور بیان کی حقیقت ہے۔ اللہ کرے کہ خطابت اور بیان  کے اس منشے کو ہمارے خطباء اور واعظ حضرات سمجھ جائیں۔ 

 


Views: 1359

Last Comments