درس مثنوی (4)
کبھی دعاکے قبول نہ ہونے میں حکمت ہوتی ہے
عام طور پر سانپ پکڑنے والے ایک خاص ترکیب سے سانپ کا زہر ختم کر دیتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے آپ کو سانپ کی کاٹ سے محفوظ بنالیتے ہیں کسی وجہ سے ایک سانپ کا زہر ختم کرنے میں سانپ پکڑنے والے کو چوک ہو گئی اور وہ سانپ اس کی گھٹری میں زہر کے ساتھ پڑا رہا اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ یہ سانپ لاعلمی کی وجہ سے اس سے کاٹ ہےاور اس طرح سپیرا ہلاک ہوجاتا ۔اچانک ایک چور اس کے گھر میں داخل ہوگیا اور اس نے اس گھٹری کو مال غنیمت سمجھ کر لے لیا ۔اور جب گھٹری کھولا تو سانپ نے اس چور کو کاٹ کر بری طرح سے مار ڈالا ۔دوسری طرف سے سانپ پکڑنے والا رو رو کر دعائیں کرتا تھا کہ اے اللہ تو مجھے اس چور کے پکڑنے میں مدد کر تاکہ میں اسے پکڑ لوں اور سانپ اس سے واپس لے لوں۔ وہ اسی تلاش میں تھا کہ اس نے چور کو ایک جگہ مردہ پایا کیونکہ جس وقت اس نے گھٹری سے مال حاصل کرنے کے لیے اسکو کھولا تھا تو سانپ کے کاٹنے سے وہ مر گیا ۔اب جب سپیرے نے یہ حال دیکھا کہ اس شخص کو میرے سانپ نے ہی مار ڈالا ہے تو دل ہی دل میں شکر کرتا تھا کہ خدا نے میرے ساتھ نہایت ہی رحم و کرم کا معاملہ فرمایا اور عین موقعہ پر میری دعا قبول نہیں کی ۔کیونکہ اگر میں بھی اس حالت میں سانپ کو پکڑتا تو میں بھی محفوظ نہیں تھا ۔بلکہ کبھی کا مر گیا ہوتا ۔ ۔اب مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بہت سی دعائیں ایسی ہوتی ہے جن کے قبول نہ ہونے میں بندے کی خیر ہوتی ہے اور اللہ پاک ان کو کرم کی وجہ سے قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ مصلح ہے اور مصلحت کو جانتا ہے اور اس دعا کو لوٹا دیتا ہے ۔اسی مضمون کو مولانا رومی رحمہ اللہ ان اشعار میں بیان فرماتا ہے
بس دعا ہا کاں زیانست و ہلاک
از کرم می نشود یزدان پاک
مصلح است او مصلحت را داند او
کاں دعا ہا را باز می گرداند او
(ترجمہ)
بہت سی دعائیں جو نقصان اور ہلاکت ہیں ۔اللہ پاک ان کو کرم کی وجہ سے قبول نہیں کرتا ۔
وہ مصلح ہے اور مصلحت کا جانتا ہے کہ اس دعا کو
وہ لوٹا دیتا ہے ۔
جاری)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
Views : 753