صحبتے با اہل علم(12)


Asi Ghulam Nabi
Friday 4th of February 2022 05:20:26 PM
               

 
صحبت نمبر12

ؒ مولانا جلال الدین صاحب کشمیری

احقر نو عمری سے ہی اس بات کا متمنی رہتا تھا کہ مجھے زیادہ سے زیادہ علماء کرام و بزرگان دین کی صحبت و زیارت نصیب ہو جائے یہ  1984 عیسوی  کے آس  پاس   کہ اس شوق نے مجھے ایک دن مجبور کیا کہ میں صدر مفتی جموں و کشمیر مرحوم جلال الدین صاحب ؒ کی خدمت میں حاضری دوں۔ اس سے پہلے مجھے مرحوم کے ساتھ کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔مرحوم ان دنوں خانقاہ معلی سرینگر کے قریب ہی سکونت پزیر تھے۔ اور قدیم ترین مرکزی دار الفتویٰ خانقاہ معلیٰ سرینگر میں ہی موجود تھا۔ جب احقر  مکان کے صحن میں داخل ہوا تو اندر  آنے کی اجازت چاہی۔مجھے فوراً اجازت ملی اور سلام و مصافحہ کے بعد احقر نے  اپنا تعارف کرایا اور نہایت ہی ادب کے ساتھ کہا کہ میں کوئی فتویٰ وغیرہ حاصل کرنے کے لیے  حاضر خدمت نہیں ہوا ہوں بلکہ صرف ملاقات اور کچھاستفادہ حاصل کرنے کے لیے حاضر خدمت ہوا ہوں۔ میں نے مفتی صاحب کے متعلق سنا تھا کہ وہ نہ صرف دینی علوم میں کافی دستگاہ رکھتے تھے بلکہ دنیاوی علوم میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔انہوں نے اپنی زندگی میں ایک پرفیسر و پرنسپل کی  حیثیت سے بھی فرائض انجام دیے ہیں۔خاندانی شرافت کے ساتھ ساتھ وہ اخلاق کا ایک مجسمہ تھے۔ مجھے سب سے زیادہ متاثر ان کی جس ادا نے کیا وہ اپنے پاس آنے والوں کو نہایت ہی خندہ پیشانی سے ملنے کی انکی ادا تھی۔کسی اجنبی جگہ جاکر انسا ن پر ایک خاص مدت تک بیگانگی کا پردہ چھایا رہتا ہے لیکن عجیب بات مفتی صاحب میں یہ پائی کہ چند منٹوں کی ابتدائی نشست میں ہی ہم باپ بیٹے کی طرح آپس میں گھل مل گئے دینی تحریکوں کے ساتھ وابستگی کی بات سن کر نہایت ہی خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے۔ایک عصری دینی تحریک کے متعلق بھی میں نے مولانا سے کچھ جاننا چاہا تو فرمایا کہ چند باتوں میں میرا بھی ان کے ساتھ اختلاف ہے۔ میں نے کہا کہ ٓپ جس منصب جلیل پر فائز ہیں اس کی رعایت کرتے ہوئے آپ ان کی فلاں فلاں بات پر کچھ وضاحت تحریراً فرمائیں۔ فرمایا میں بہت مصروف رہتا ہوں کیونکہ ان کے پاس وادی کے اطراف و اکناف سے لوگ فتویٰ حاصل کرنے کے لیے آتے تھے اور مولانا بغیر کسی تاخیر کے فتویٰ دیتے  تھے۔مولانا کے اسلاف میں سے چند اصحاب ایسے بھی گذرے ہیں جن کو لوگ شیخ الاسلام و المسلمین کے القاب سے بھی پکارتے تھے اور وہ حضرات بھی عربی و فارسی زبان پر کافی عبور رکھتے تھے۔کشمیر کے یہ علمی گھرانے ہی فقہ و فتویٰ کے بارے میں لوگوں کی صحیح رہنمائی فرماتے تھے۔یہ سب حضرات فقہ حنفی کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور اسی کی ترویج و اشاعت پر زور دیتے تھے۔ 
مولانا نے فرمایا جن باتوں کی طرف آپ نے  اشارہ کیا آپ ان پر از خود لکھیں اور پھر میرے پاس لائیں اور میں چھان بین کرنے کے بعد اس کی تائید کروں گا اور پھر آپ اس کو شائع کریں۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد دسمبر 1986 عیسوی میں وہ اس جہان فانی سے چلے گئے۔ 
مولانا مرحوم (اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے) علم دوست اور ادب نواز تھے انگریزی زبان پر عبور تھا۔مولانا نے جب محسوس کیا کہ یہ نوجوان خالصتاً ایک دینی ملاقات کے لیے میرے پاس آیا ہے تو فرمایا آپ مجھے اپنا ایڈریس دے دیں۔میں نے اپنا ایڈریس دے دیا تو مولانا تاحیات مجھے اپنا قیمتی علمی رسالہ ”سلطان الاولیاء“ مفت بیجھتے رہے۔کیونکہ اپنی حیات میں وہی اس علمی رسالہ کے سرپرست و میر اعلیٰ تھے۔اور سب ایڈیٹر ان کے فرزند مفتی معراج الدین صاحب تھے۔ایسا لگتا تھا کہ اللہ کا یہ نیک بندہ نفسانی خواہشات سے پاک تھا مجھے یاد آتا ہے کہ ایک شخص نے مولانا عبد الولی شاہ صاحب ؒ سے پوچھا تھا کہ حضرت ہم آپ کے خدام آپ کے بعد کہاں سے فتویٰ وغیرہ حاصل کریں گے تو مولانا نے فرمایا تھا کہ مفتی جلال الدین صاحب کی طرف رجوع کرنا چاہیے کیونکہ ان دنوں یہ دار العلوم وغیرہ کچھ بھی نہیں تھے اور فتویٰ وغیرہ کا سارا بوجھ ان ہی علمی خانوادوں کے ذمہ داروں کے کندھوں پر تھا۔حقیقت یہ ہے کہ یہ نیک خانوادے سخت محنت و مشقت سے فتویٰ نویسی کا علم سکھاتے تھے اور اپنی خوشخط تحریروں کے ذریعے فقہ حنفی کے مطابق حکم صادر فرماتے تھے۔مولانا کی وفات پر کشمیر میں ہر مکتب فکر کے اصحاب و انجمنوں نے انکے یاد میں ماتمی قراردادیں لکھیں اور دلخراش انداز میں تعزیت نامے ضبط تحریر میں لائے۔خدا ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ 

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را 

نوٹ: اس سلسلے کی کسی کڑی کو پڑھنا نہ بھولیے کیونکہ علماء کی صحبتوں کو قلمبند کرنے کا یہ سلسلہ اس پیج پر فی الحال جاری رہے گا

(یار زندہ صحبت باقی)


Views: 1350

Last Comments