درس مثنوی3
غیر مجتہد کا اجتہاد کرنا
مولانا رومی رحمہ اللہ نے ایک دلچسپ قصہ مثنوی میں تحریر فرمایا ہے۔لکھاہےکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان کا مہینہ آیا۔اور بہت سارے لوگ ایک پہاڈ کو چوٹی پر گئے تاکہ روزہ کا چاند معلوم کرنے کی کوشش کریں۔لیکن بہت باریک بینی سے دیکھنے کے باوجود کسی کو اس روز چاند نظر نہیں آیا۔ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کے پاس آیا اور بولا کہ اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے چاند نظر آیا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آسمان کی طرف دیکھا لیکن کہیں چاند نظر نہیں آیا ۔اس کے بعد اس شخص سے فرمایا کہ تمھارا چاند نظر آنا صرف ایک خیال ہے اور مجھے چاند کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میں تو آسمانوں کو زیادہ دیکھنے والا ہوں یعنی میری نگاہ تیری نگاہ سے تیز ہے ۔اس میں کوئی مبالغہ نہیں تھا ۔حضرت عمررضی اللہ عنہ ظاہری صحت و توانائی کے اعتبار سے بھی اللہ نے نوازے تھے اور یہاں پر ان کے صاحب کشف ہونے کا بھی عندیہ ہوسکتا ہے ۔مشہور ہے کہ آپ نے اللہ کی عطا کردہ کشف کی وجہ سے مسجد نبوی سے جبرالٹر میں حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں لڑنے والی فوج کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ اور "ساریہ الجبل" کہہ کر امیر کارواں کو متنبہ کیا ۔حالانکہ بیچ میں ہزاروں میل کا فیصلہ تھا ۔اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چاند نظر آنے والے شخص سے فرمایا کہ ذرا اپنے ہاتھ کو تر کر اور ابرو پر مل اور پھر چاند کی طرف دیکھ ۔جب اس نے ابرو تر کر لی تو چاند کو نہ پایا اور کہنے لگا کہ اے امیر المؤمنین چاند نہیں دکھائی دیتا ہے اور وہ میری نظروں سے غائب ہو گیا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمھارےابرو کا بال کمان بن گیا جس کی وجہ سے تمھیں گمان ہوگیا کہ یہ رمضان کا چاند ہے۔
اب مولانا رومی رحمہ اللہ ایک قیمتی بات فرماتے ہیں کہ جب اس شخص کی ابرو کا ایک بال ٹیڑھا ہوا تو اس کے اس بال نے نئے چاند کی شکل نمودار کی ۔اس قصے کو بیان فرما کر مولانا رومی رحمہ اللہ ایک بہت ہی قیمتی نصیحت فرماتے ہیں کہ
چوں یکے موکژ شداو را راه زد
تا بہ دعوی لاف دید ماہ زد
موئے کژچوں پردہ گردوں بود
چوں ہمہ اجزات کژشد چوں بود
راست کن اجزات را از داستان
سر مکش اے راست رو زاں آستان
(ترجمہ)
جب ایک بال ٹیڑھا ہوا اس نے گمراہ کردیا ۔یہاں تک کہ دعوے کے ساتھ چاند دیکھنے کی ڈینگ ماری ۔ٹیڑھا بال جب آسمان کا پردہ بن گیا ۔جب تیرے تمام اجزاء ٹیڑھےہو جائیں تو کیا ہوگا ؟سچوں کے ذریعہ اپنے اجزاء سیدھے کر لے۔ اے سیدھا چلنے والے اس چوکھٹ سے سر نہ ہٹا ۔
یہاں سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ قرآن و حدیث میں غواصی کرنا علمائے کرام و فقہائے عظام کا منصب ہے جن کا علم پختہ اور نظر باریک بین ہوتی ہے ۔اسی لیے علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
ز اجتہاد عالمان کم نظر
اقتداء بر رفتگاں محفوظ تر
(ترجمہ)
کم نظر عالموں کے اجتہاد پر عمل کرنے سے زیادہ محفوظ طریقہ مرحوم بزرگوں کی اقتداء کرنے میں ہے۔
جاری ۔۔۔۔۔۔
Views : 748