Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ


  • Dr. Shakeel Shifayi
  • Wednesday 2nd of February 2022 05:26:37 PM

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

مفسرِ قرآن،ترجمان القرآن

 

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تایا زاد بھائی تھے - لوگ ان کو بحر کہتے تھے کیونکہ ان کا علم بہت وسیع تھا۔ یہ حبرالامۃ بھی کہلاتے تھے۔یہ جب پیدا ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خانوادہ سمیت شعب ابی طالب میں محصور تھے۔لوگ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر گئے۔آپ (ص) نے ان کے منہ میں لعاب ڈالا۔روایت میں آتا ہے کہ ابن عباس نے جبرئیل علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دیکھا تھا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لپٹایا اور فرمایا '' اللہم علّمہ الکتاب و الحکمۃ''  (اے اللہ اسے کتاب و حکمت کا علم دے) ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں '' اللہم فقّہہ فی الدین و علّمہ التأویل'' (اے اللہ اسے دین کی سمجھ دے اور اسے تفسیر سکھا دے)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا”ہم اہل بیت ہیں،ہم اہل بیت رسالت ہیں،ہم شجرہِ نبوت ہیں،' ہم اہل بیت رحمت اور معدن علم ہیں،ہمارے گھر میں ملائکہ کی آمدورفت رہتی تھی“۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جو مقدمات آتے آپ ان کو ابن عباس کے پاس بھیج دیتے ' حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس پر بے حد اعتماد و اعتبار کرتے تھے 

عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں ”کان ابن عباس قد فاق الناس بخصال: بعلم ما سبقہ و فقہ ما احتیج إلیہ من رأیہ' و حلم و نسب و تأویل - وما رأیت أحداً کان أعلم بما سبقہ من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منہ' ولا أفقہ فی رأی منہ ولا أثقب رأیاً فیما احتیج إلیہ منہ و لقد کان یجالس یوماً ولا یذکر فیہ إلا الفقہ و یوماً التأویل و یوماً المغازی و یوماً الشعر و یوماً أیام العرب - وما رأیت عالماً قط جلس إلیہ إلا خضع لہ وما رأیت سائلاً قط إلا وجد عندہ علماً ''(ابن عباس چند خصوصیات کی بنا پر لوگوں پر فائق ہوئے۔اس علم کی بنا پر جس میں انہوں نے سبقت لی ' اس فقہ کی بنا پر جس میں لوگ ان کے محتاج تھے،بردباری،اعلیٰ نسبی اور قرآن کی تفسیر کی بنا پر۔ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جس کا علم حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ان سے بڑھ کر ہو،نہ سمجھ بوجھ میں کوئی ان سے بڑھ کر تھا، نہ ان کی رائے سے زیادہ کسی کی رائے روشن تھی جس میں لوگوں کو ان کی احتیاج تھی۔ وہ ایک دن مجلس منعقد کرتے اور اس میں فقہ کے بغیر دوسرے موضوع پر بات نہ کرتے، ایک دن تفسیر کے لیے خاص تھا،ایک دن سیرت کا درس ہوتا تھا، ایک دن شعر و شاعری پر گفتگو فرماتے اور ایک دن عربوں کی جنگوں پر بات کرتے' ان کی مجلس میں جو عالم بھی آیا وہ ان کے سامنے سرنگوں ہوا،ان سے جس کسی نے سوال پوچھا، اس نے آپ کے پاس علم پایاامام شعبی کہتے ہیں

رکب زید بن ثابت فأخذ عبد اللہ بن عباس برکابہ فقال لا تفعل یابن عم رسول اللہ' قال ہکذا اُمرنا أن نفعل بعلمائنا۔فقال لہ زید: أرنی یدک فأخرج إلیہ یدہ فأخذہا و قبّلہا و قال ہکذا أمرنا أن نفعل بأہل بیت نبیّنا“(ایک بار زید بن ثابت سوار ہوئے تو ابن عباس نے ان کی سواری کی لگام پکڑی تو زید نے کہا اے رسول اللہ کے عم زاد ایسا نہ کریں تو ابن عباس نے کہا کہ ہمیں اپنے علماء کے ساتھ ایسے ہی پیش آنے کا حکم ہوا ہے اس پر زید نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ دکھائیے ' ابن عباس نے اپنے ہاتھ نکالا تو حضرت زید نے اس کو چوما اور کہا کہ ہمیں اپنے نبی کے گھر والوں کے ساتھ ایسے ہی پیش آنے کا حکم ہوا ہے)

امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے:

''نعم ترجمان القرآن ابن عباس''

(ابن عباس کیا ہی اچھے ترجمان القرآن ہیں)

عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں،”ما رأیت أکرم من مجلس ابن عباس 'أصحاب الفقہ عندہ' و أصحاب القرآن عندہ و أصحاب الشعر عندہ یصدر کلہم من واد واسع

(میں نے ابن عباس کی مجلس سے زیادہ کوئی قابل اکرام مجلس نہ دیکھی۔ہل فقہ ہوں ' قرآن کے جاننے والے ہو،' فن شعر کے ماہرین ہوں غرض تمام لوگ ایک وسیع وادی سے نکلتے لگ رہے ہیں)

طاووس سے کہا گیا کہ تم نے اس لڑکے (ابن عباس) کو لازم پکڑا اور کبار اصحاب رسول کو چھوڑ دیا - انہوں نے کہا،”إنی رأیت سبعین رجلاً من أصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) إذا تدارؤا فی أمر صاروا إلی قول ابن عباس“(میں نے ستر صحابہ کو دیکھا کہ جب ان میں کسی مسئلے میں اختلاف واقع ہوجاتا تو وہ ابن عباس کے قول کی طرف رجوع کرتے)

حضرت حسن فرماتے ہیں،”إن ابن عباس کان من القرآن بمنزل“(ابن عباس قرآن (کی تفسیر) کے معاملے میں ایک پڑاو کی حیثیت رکھتے ہیں)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس کے بارے میں فرمایا کرتے تھے

ذاکم فتی الکھول إن لہ لساناً سؤلاً و قلباً عقولاً“(یہ بوڑھوں کا جوان ہے اس کے پاس سوال کرنے والی زبان اور سمجھدار دل ہے)

ابن عباس رضی اللہ عنہ کی فضیلت کاخلاصہ درج ذیل نقاط میں کیا جا سکتا ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں نشوونما

اکابر صحابہ کی صحبت و ملازمت

علم کے معاملے میں قوت یقین

روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا”أولم یر الذین کفروا أن السماوات والأرض کانتا رتقا ففتقناہما“۔۔۔۔

ابن عمر نے فرمایا کہ ابن عباس کے پاس جاؤ اور پھر مجھے بتانا انہوں نے کیا فرمایا۔وہ شخص گیا اور ابن عباس سے یہی سوال پوچھا۔ ابن عباس نے فرمایا: آسمان ملے ہوئے تھے بارش نہیں ہورہی تھی اسی طرح زمین جڑی ہوئی تھی نباتات نہیں اُگ رہے تھے پس اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بارش سے پھاڑا اور زمین کو نباتات سے پھاڑا۔ وہ شخص ابن عمر کے پاس گیا اور ابن عباس کے جواب سے مطلع کیا تو ابن عمر نے فرمایا کہ مجھے تفسیر قرآن میں ابن عباس کی جرات پسند نہیں تھی لیکن اب میں جان گیا ہوں کہ انہیں علمِ تفسیر دیا گیا ہے۔

 

ابن عباس ؓکے تفسیری اصول

 

عموماً مفسر کے تفسیرِ قرآن میں   کچھ اصول ہوتے ہیں جن کے پیش نظر وہ  قرآن کی تفسیر کرتا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بھی کچھ اصول تھے ان کے نزدیک تفسیر کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔وہ تفسیر جس کو عرب اپنے کلام (نظم یا نثر) دے سمجھ لیتے ہیں۔

وہ تفسیر جس سے جاہل رہنا کوئی عذر نہیں،مطلب جس کو جاننا ہر ایک کے لیے ضروری ہے۔

وہ تفسیر جس کو صرف علماء سمجھتے ہیں۔

وہ تفسیر جس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

چونکہ قرآن کی تفسیر نثر یا شعری فن پاروں کی طرح نہیں ہوتی کہ ان کی تفسیر کے سلسلے میں ہم ان کے قائلین سے سوال کر سکتے ہیں۔ قرآن اللہ کا کلام ہے لیکن اس کی تفسیر اللہ سے براہ راست نہیں پوچھی جا سکتی اس کے جاننے کے لیے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنا پڑے گا یا ان لوگوں کی طرف جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تفسیر سماعت کی ہو اور ان دونوں کی عدم موجودگی میں پھر کچھ ایسے اصول تجویز کرنا پڑیں گے جن سے قرآن کی تفسیر ممکن یا سہل الحصول ہو۔اس بات کے پیش  نظر ہمیں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے جن اصولوں سے آگہی ہوئی ہے ان کو ذیل میں بیان کیا جاتا

 

 

قرآن سے قرآن کی تفسیر

 

ابن عباس اس اصول سے حسب ضرورت کام لیتے ہیں - قرآن میں ایک جگہ کوئی حکم اجمالی بیان ہوتا ہے پھر دوسری جگہ اس کی تفصیل دی گئی ہوتی ہے۔روایت میں آتا ہے کہ ابن عباس نے آیت کریمہ”ربنا أمتنا اثنتین و أحیینا اثنتین۔غافر“ کے بارے میں فرمایا،”تم لوگ پیدائش سے پہلے مٹی تھے اور یہ موت ہے،پھر تم کو تخلیق کیا گیا اور یہ حیات ہے،پھر تم کو موت دی جائے گی اور تم قبروں میں چلے جاؤ گے اور یہ دوسری موت ہے پھر تم کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور یہ دوسری حیات ہے۔یہ تفسیر اس آیت سے ماخوذ ہے ”کنتم أمواتا فأحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم إلیہ ترجعون“' (بقرہ)

 

 اسبابِ نزول

 

 ابن عباس اسباب نزول پر آیت کی تفہیم میں اعتماد کرتے ہیں۔روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قدامہ بن مظعون کو بحرین کا والی مقرر کیا۔یک بار جارود نام کے ایک صاحب حضرت عمر کے پاس آئے اور عرض کیا کہ قدامہ نے شراب پی لی ہے۔حضرت عمر نے پوچھا: اس پر کوئی گواہ ہے تو جارود نے کہا، ابوہریرہ ؓ۔ اب حضرت عمر نے قدامہ کو بلوایا اور فرمایا کہ تم نے شراب پی لی ہے لہٰذا از روئے شریعت مجھے تمہیں کوڑے لگوانے ہیں۔ قدامہ نے کہا: امیر المومنین آپ مجھے کوڑے نہیں لگوا سکتے۔ حضرت عمر نے پوچھا کیوں؟ تو قدامہ نے جواب میں یہ آیت پڑھی”لیس علی الذین آمنوا و عملوا الصالحات جناح فیما طعموا“ (انہوں نے غلطی سے اس آیت سے یہ سمجھ لیا تھا کہ جب آدمی ایمان والا ہو اور نیک اعمال بھی کرتا ہو تو پھر کھانے پینے میں اس پر کوئی پابندی نہیں)۔حضرت عمر نے ابن عباس کی طرف رجوع کیا - انہوں نے کہا کہ امیر المومنین یہ شخص اس آیت سے استدلال نہیں کر سکتا کیونکہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے حکمِ حرمت سے پہلے شراب پی لی تھی اس کے بعد اللہ کا حکم آیا ”یاأیہا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر“۔۔۔۔ لہذا اب شراب قطعی طور پر حرام ہو چکی ہے - اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، صدقت۔

 

کلامِ عرب 

 

 ابن عباس تفسیر قرآن میں کلام عرب سے بھی کام لیتے ہیں۔الفاظ کی دلالت کو سمجھنے کے لیے لغت ' شعر یا نثر اساس کا کام دیتی ہے۔بن عباس کے بارے میں یہ بات معروف ہے کہ وہ غریب القرآن کو جاننے کی حتی الامکان کوشش کرتے تاکہ بوقت ضرورت اس سے تفسیر قرآن میں کام لیا جا سکے۔ابوبکر بن الانباری نے ان سے نقل کیا ہے،'' إذا سألتمونی عن غریب القرآن فالتمسوہ فی الشعر فإن الشعر دیوان العرب'' (جب تم مجھ سے غریب القرآن کے بارے میں پوچھو تو  میں (جواب میں) کہوں گا کہ شعر میں ڈھونڈو اور شعر دیوان عرب ہے)۔

امام جلال الدین سیوطی نے اتقان میں نقل کیا کہ ایک بار ابن عباس صحن کعبہ میں تشریف فرما تھے اور لوگ ان سے تفسیر قرآن کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ اُس وقت وہاں نافع بن ازرق اور نجدی بن عویمر بھی تھے - نافع نے نجدی سے کہا کہ چلو اس شخص سے کلام اللہ کی وہ تفسیر پوچھتے ہیں جس کو یہ نہیں جانتا ہے پس یہ دونوں ابن عباس کے پاس آیے اور کہا کہ ہمیں آپ سے تفسیر قرآن کے بارے میں کچھ پوچھنا ہے لیکن ہمیں کلامِ عرب سے دلیل چاہیے کیونکہ قرآن عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے قول ''عن الیمین و عن الشمال عزین'' میں عزین کی تفسیر پوچھی تو ابن عباس نے جواب دیا ''عزین کا مطلب ہے اونٹ کے بازو باندھنے کی رسی کا دائرہ'' انہوں نے پوچھا:کیا عرب اس کو جانتے ہیں؟ ابن عباس بولے: عبید بن ابرص کو نہیں سنا ہے ''فجاؤا یہرفون الیہ حتیٰ یکونوا حول منبرہ عزینا ''(وہ دوڑتے ہوئے اس کے پاس آئے تاکہ منبر کے ارد گرد دائرہ بنا سکیں)۔انہوں نے پوچھا: ہمیں اس آیت'' وابتغوا إلیہ الوسیلۃ '' میں وسیلہ کی تفسیر بتائیں تو آپ نے فرمایا،وسیلہ کا مطلب ہے حاجت۔انہوں نے پوچھا کیا عرب اس کو جانتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: کیا تم نے عنترہ کو کہتے نہیں سنا ہے 

إن الرجال لہم إلیک الوسیلۃ

إن یأخذوک تکحلی و تخضبی

(مردوں کا تمہاری حاجت ہے پس اگر وہ تم کو پائیں تو تم ان کے لیے سرمہ لگاؤ اور خضاب کا استعمال کرو)

 

 روایات سے تفسیر

 

  ابن عباس اہل بیت عظام اور اصحاب کرام سے مروی روایات سے بھی تفسیر میں کام لیتے۔وہ تفسیر بالرائے کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ اگر حدیث شریف نہ ملتی تو پھر دوسرے ثقافتی ذرائع سے کام لیتے۔ وہ کہا کرتے کہ بات صرف اللہ کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اس کے بعد جو کچھ بھی کہا جائے مجھے نہیں معلوم وہ نیکی ہے یا گناہ۔ انہوں نے ان آیات صفات کی جن سے بظاہر اللہ کی تجسیم لازم آتی ہے ایسی تفسیر کی جو فطرتِ لغت کے مطابق ہو چنانچہ انہوں نے ”اللہ یستہزء بہم'' میں استھزاء کی تفسیر سزا و عقوبت سے کی ہے اسی طرح“واللہ غنی حلیم”میں غنی کی تفسیر میں فرمایا جو استغناء میں کامل ہو اور حلیم کی تفسیر میں فرمایا جو حلم میں کامل ہو۔وہ اگر کسی تفسیر میں قرآن،حدیث یا اقوال صحابہؓ سے کوئی روایت نہ پاتے تو بھی اپنی رائے ک کام میں نہیں لاتے بلکہ سکوت اختیار کرتے۔چنانچہ ان سے ایک بار”کان مقدارہ الف سنۃ”اور یوم کان مقدارہ خمسین ألف سنۃ“ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا،یہ دو دن ہیں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے باقی ان کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قرآن میں غور و فکر سے بالکل ہی کام نہ لیتے تھے۔ یقیناً وہ قرآن میں غور و فکر بھی کرتے تھے البتہ اس میں بھی وہ ان اصولوں سے کام لیتے جن کا سطور بالا میں اجمالی تذکرہ ہوا۔تفسیر قرآن میں وہ اہل کتاب کی ان نصوص سے بھی مدد لیتے جو قرآن و سنت کے مزاج سے ہم آہنگ ہوں۔س سلسلے میں کتابوں میں بعض واقعات وارد ہوئے ہیں جن کو بخوف طوالت نظر انداز کیا جاتا ہے۔ابن عباس کے تفسیری اقوال علامہ ابو طاہر نے”تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس“ کے نام سے جمع کیے ہیں جو شائع ہو چکے ہیں لیکن ان کے بارے میں علماء نے تحفظات بیان کیے ہیں کیونکہ ان کی سند میں کلام کیا گیا ہے بلکہ بعض سندیں تو بالکل ہی واہیات ہیں اسی لیے کبار مفسرین کو چھوڑ کر طلباء و عامۃ الناس کو ان سے پرہیز کی تاکید کی جاتی ہے۔ واللہ اعلم


Views : 307

mzavFbqtRHrAkET

NTOlnBAaEhPIovm

2024-01-09 01:03:43


zbwXyPimSZQ

FwzcQfgpx

2024-01-09 01:03:39


Leave a Comment