صحبت نمبر11
مولانا عبید اللہ صاحب بلیاویؒ
احقر جب پہلی بار بنگلہ والی مسجد بستی نظام الدین اولیاء پہنچا تو وہاں پر ایک نوارانی ماحول پایا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس جگہ صاف دل اور نیک باطن لوگوں نے ایک ایسی چھوٹی مو ٹی بستی قائم کی ہے جس میں ہر شخص دو سرے کا غمخوار دکھائی دیتا تھا۔ اس دور میں موبائل اور انٹرنیٹ کا نام و نشان تک بھی نہیں تھا،مجموعی طور پر خبر رسانی کا واحد ذریعہ ڈاک و تار کا محکمہ انجام دیتا تھا اور دیہاتوں میں یہ واحد نظام بھی اتنا سست ہوتا تھا کہ ایک دفعہ پورا چلہ لگانے کے بعد جب میں گھر پہنچا تو ڈاکیہ ہمارے گھر پر آیا اور اس کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔یہ وہی خط تھا جو میں نے مرکز نظام الدین پہنچ کر اپنے گھر والوں کو لکھا تھا کہ میں خیریت کے ساتھ دہلی نظام الدین پہنچا۔یہی خط میرے ہاتھ میں ڈاکیہ نے تھما دیا،مجھے بڑا تعجب ہوا۔
یہ قصہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ اس دور میں جب کوئی شخص کشمیر سے باہر ہندوستان کی کسی ریاست میں چلہ لگاتا تھا تو وہ اپنے گھر سے دور رہ کر پوری یکسوئی کے ساتھ چلہ لگاتا تھا اور اسی طرح وہ بزرگان ِ دین اور علمائے کرام جو مرکز میں ڈیرہ جمائے ہوئے تھے پوری یکسوئی کے ساتھ دعوت کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ ان ہی میں ایک بہت بڑا بزرگ اور عالم دین مولانا عبید اللہ بلیاوی ؒ صاحب تھے۔مرکز میں ہر ایک بزرگ ان کا زبردست احترام کرتا تھا۔مولاناعمر صاحب ؒ بذات خود ان کے کمرے میں جاکر ان کے سامنے اپنی نیاز مندی کا اظہار کرتے تھے۔احقر نے بھی ایک دفعہ ان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور ایک چھوٹا موٹا ہدیہ پیش کیا۔ یہ لوگ ہدایا و تحائف کے ہر گز منتظر نہیں رہتے تھے اور اگر کوئی شخص پیش بھی کرتا تھا تو ان کی غیور طبیعت کو دیکھتے ہوئے اندر ہی اندر سے ڈرتا تھا کہ نہ معلوم حضرت قبول بھی فرمالیں گے یا نہیں۔ ایک نو عمر ہونے کے ناطے حضرت نے ہماری گذارش پر خصوصی دعا فرمائی۔
مولانا مرکز میں بھی بیان فرماتے تھے اور مولانا انعام الحسن صاحب ؒ ان کو بڑے بڑے اجتماعات میں بھی بیان کرنے کے لیے بھیجتے تھے۔ اسی سفر میں ہمیں میرٹھ شہر میں روانہ کیا گیا اور دس روز تک وہاں خوب محنت کرائی گئی۔آخری دن شہر کا ایک بڑا اجتماع ہونے والا تھا اور اس میں مغرب کا بیان حافظ محمد یوسف صاحب ٹانڈوی ؒ نے کیا اور روانگی کا بیان کرنے کے لیے مرکز نظام الدین سے اسی مولانا عبید اللہ صاحب بلیاوی ؒ کو بھیجا گیا تھا۔مولانا نے اپنے پورے بیان میں صرف دو باتیں سمجھائیں ایک یہ کہ اگر آدمی دنیا و ی ساز سامان پر محنت کرتا ہے تو کون سی شکلیں وجود میں آتی ہیں اور اگر ایمان پر محنت کرتا ہے تو کون سی شکلیں وجود میں آتی ہیں۔فرمایا کہ پورپ والوں نے لوہے پر محنت کی تو ہوائی جہاز وجود میں آیا۔سینکڑوں من کا وزن رکھنے کے باوجود فضا میں اڑتا ہے۔ یہ سامان پر محنت کرنے کا پھل ہے۔لیکن اگر ایک مومن ایمان پر محنت کرے گا تو اس کی پرواز ستاروں سے اوپر ہے۔علمی دلائل اور احادیث ِفضائل جب ایک صاحب یقین آدمی کی زبان سے ادا ہو رہے ہوں اور ان کے ساتھ دل کا یقین بھی جڑا ہوا ہو تو”از دل خیزد بر دل ریزد“والا معاملہ پیش آتا ہے یعنی جو بات دل سے اٹھتی ہے وہ دل پر اثر کرتی ہے۔بیانات تو ہم سنتے ہی رہتے ہیں لیکن مولانا کا یہ یادگار بیان میرے دل پر ہمیشہ نقش رہے گا۔واقعی مولانا ایمان و یقین کا ایک پہاڑ تھے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
نوٹ: اس سلسلے کی کسی کڑی کو پڑھنا نہ بھولیے کیونکہ علماء کی صحبتوں کو قلمبند کرنے کا یہ سلسلہ اس پیج پر فی الحال جاری رہے گا
(یار زندہ صحبت باقی)
Views : 922