ؒ مولانا انعام الحسن صاحب
جانور پروں سے اڑتے ہیں اور انسان کے پر اس کی ہمت ہے۔ مشہور مقولہ ہے ”ہمت مرداں مدد خدا“۔ہمت اور استقامت انسان کے مضبوط پر ہیں جن سے انسان کوئی بھی مہم سر کرسکتا ہے۔اپنے دعوتی سفر میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مولانا الیاس ؒ کو دو قیمتی جوہر عطا کیے ایک ان کے فرزند اور دوسرے مولانا انعام الحسن ؒ صاحب۔مولانا الیاس کے بعد دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری بالترتیب ان ہی دو حضرات کے کندھوں پر پڑی۔اگر چہ دفعہ مولانا الیاس کے بعد دعوت و تبلیغ کی امارت کا بوجھ مولانا محمد یوسف صاحب ؒ کے کندھوں پر پڑا لیکن ان کی اچانک رحلت کے بعد اکابرین نے امارت کی ذمہ داری مولانا انعام الحسن ؒ کے کندھوں پر ڈالی۔آپ نہایت ہی شریف الطبع،خوبصورت،نیک سیرت اور علم و عمل کا مجسمہ تھے۔آپ نرم گفتار اور اعلیٰ کردار کے مالک تھے۔
احقر نے جب پہلی بار 1975 عیسوی میں مرکز نظام الدین میں حاضری دی تو اس وقت تقریباً دس سال سے مولانا انعام صاحب ؒ امارت کو سنبھالے ہوئے تھے۔ میں نے کئی بزرگوں سے سنا ہے کہ مولانا الیاس ؒ اور ان کے لائق فرزند مولانا یوسف صاحبؒ کا دور مجاھدوں اور مشقت کا دور تھا اور مولانا انعام الحسن صاحب کا دور انعامات اور نصرتوں کا دور تھا حالانکہ سابقہ دو حضرات کے دور میں مولانا انعام احسن صاحب نے خود بھی زبردست مجاھدے کیے ہیں لیکن ان مجاھدوں کی برکت سے مولانا انعام احسن صاحب ؒ کے دور میں فتوحات و برکات کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے کھولا۔یہاں فتوحات سے مراد مسلمانوں میں دعوت کی پزیرائی ہے۔ ان ساری فتوحات و برکات کے باوجود مولانا کی زندگی نہایت ہی سادہ تھی۔مرکز میں روزانہ کے مشورہ میں آپ پر ذمہ داریاں ڈالی جاتی تھیں ایک حیات الصحابہؓ کی تعلیم جو عشاء کی نماز کے بعد روزانہ آپکے ذمہ تھی اور آپ انتہائی درد مندی کے ساتھ صحابہ ؓ کے دلخراش واقعات مجمع کے سامنے بیان فرماتے تھے۔آپ ایک متبحر عالم دین تھے۔آپکے نورانی چہرے کو لگاتار دیکھنے کے باوجود دل اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ وہاں سے نظریں ہٹا لی جائیں۔ آپ کی انکھوں سے نورانی لہروں کی چمک اٹھتی تھی۔جس وقت آپ حیات الصحابہ ؓ عربی زبان میں پڑھتے تھے آپ عجمی نہیں بلکہ عربی محسوس ہوتے تھے اور پھر اس کا رُواں اردو ترجمہ نہایت ہی فصاحت و بلاغت کے ساتھ کرتے تھے۔میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا فصیح عربی خواں اور ترجمہ پر کامل عبور رکھنے والا شخص نہیں دیکھا۔اس کے بعد آپ کی دعا دیکھنے کی چیز تھی۔پورے مجمع پر گریہ طاری ہوجاتاتھا۔اسی طرح روانگی کے وقت آپ کی دعا اور مصافحہ ناقابل فراموش اعمال میں سے تھے۔آپ چھ نمبروں کو ایک ہی جملے میں ادا فرماتے تھے،مثلاً ”بھائی کلمہ اور نماز کو لے کر،علم و ذکر کے ساتھ،بڑوں کا ادب کرتے ہوئے اور چھوٹوں پر شفقت کرتے ہوئے محض اللہ کی رضا کے لیے گلی در گلی،شہر در شہر،اور ملک در ملک پھریں گے۔ انشاء اللہ“اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان حضرات نے مولانا الیاس کی دینی دعوت کو کس طرح اپنا وظیفہ حیات بنایا تھا۔ ایک دفعہ ایک بڑے رئیس نے آپ کو اپنے چند رفقاء کے ساتھ کھانے کی دعوت کی۔آپ نے سنت کی پیروی کرتے ہوئے ان کی دعوت قبول کی۔لیکن دعوت کھلانے سے پہلے ایک سوال پوچھا کہ حضرت آپ نے بیان میں فرمایا کہ اسلام میں پر مسئلے کا حل موجود ہے۔ لیکن مجھے سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ موجودہ مہنگائی کے دور میں غریبی پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے۔مولانا نے فرمایا کہ موجودہ دور میں دو کام کرنے سے غریبی پر قابو پایا جاسکتا ہے اور وہ دو چیزیں اس طرح ہیں۔ایک ضرورت پر اکتفا کرنا دوسرا عیش و عشرت سے پرہیز کرنا۔اس شخص نے پھر پوچھا کہ اگر بقدر ضرورت بھی آدمی کو سامان میسر نہ ہو تو وہ کیا کرے گا۔تو مولانا تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئے اور پینے کے پانی کی فرمائش کی۔مولانا کی فرمائش پر بڑے اہتمام کے ساتھ پانی لایا گیا جو خالصتاً پانی ہی نہیں تھابلکہ ایک اعلیٰ قسم کا مشروب تھا لیکن اس قسم کے مشروب کو لانے میں کچھ دیر لگی۔ جب اس قسم کی مشروبات مولانا کے سامنے منقش برتنوں میں پیش کیں گئیں تو مولانا نے ناراضگی لے لہجے میں فرمایا کہ بھائی ہم نے سادہ قسم کا پانی مانگا تھا اور آپ لوگوں نے اتنی دیر لگا کر سجاوٹ دار برتنوں میں پانی لایا،اتنے اہتمام کی کیا ضرورت تھی۔پانی تو ایک مٹی کے گلاس میں بھی لایا جاسکتا تھا۔تو سوال پوچھنے والے نے کہا کہ اگر کسی غریب کے پاس مٹی کا گلاس بھی نہ ہوگا تو وہ کیا کرے گا۔مولانانے فرمایا لاؤ یہی پانی اور ہاتھ پھیلا کر کہا ڈالو میرے ہاتھوں پر پانی اور جب پانی ڈالا گیا تو مولانا نے اپنے ہاتھوں میں پانی ڈلوا کر پی لیا۔ پھر فرمایا کہ اگر کسی کے پاس مٹی کا گلاس بھی نہ ہوگا تو وہ پیاس بجھانے کے لیے قدرت کے عطا کردہ ہاتھوں کو استعمال میں لاکر بھی اپنی پیاس بجھا سکتا ہے۔غرض اس طرح سوال پوچھنے والے کو مولانا نے اپنی حکمت عملی سے لاجواب کردیا۔اس واقعہ میں مولانا کے اعلیٰ تدبر کا ثبوت ملتا ہے اور دوسری طرف سادہ زندگی گذارنے کا ایک قیمتی نسخہ بھی مولانا نے سائل اور حاضرین کو بتا دیا۔ ایک دفعہ احقر نے مولانا کو ایک خط لکھا تو مولانا نے اہتمام کے ساتھ جواب مرحمت فرمایا اور جو سوال پوچھا گیا تھا اس کا مختصر مگر جامع جواب فرمایا۔موجودہ تبلیغی اختلاف سے سے قبل احقرنے مولانا کو خواب میں ایک دفعہ دیکھا کہ مغرب کی نماز ادا کرنے کے لیے پہلی صف میں تشریف فرمایا ہیں اور دو صفیں بن چکی ہیں اور تیسری صف بن رہی ہے۔احقر خواب ہی میں سوچنے لگا کہ بعد نماز حضرت سے سلام و مصافحہ کروں گا۔یہ خیال دل میں جم ہی رہا تھا کہ حضرت پہلی صف سے پیچھے کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے بازو کو دوسری صف سے پیچھے کی طرف دراز کیا اور مجھے اشارہ سے مصافحہ کرنے کا حکم فرمایا۔احقر نے مصافحہ کیا لیکن مولانا نے فرمایاکہ غلام نبی باہر نکلو باہر آگ لگی ہوئی ہے اور پھر اپنے ہاتھ کو گھما کر ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی طرف اشارہ فرمایا کہ ان تمام جگہوں پر آگ لگی ہوئی ہے۔ اس کے بعد احقر نیند سے بیدار ہوا۔اور یہ خواب میرے ذہن پر نقش ہوگیا۔اس کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں اختلافت کا دور شروع ہوا۔اور یہ اختلاف تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنی پوری زندگیاں تبلیغ کی محنت میں لگائی ہیں ان کے لیے یہ اختلاف کسی سانحہ سے کم نہیں۔حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحبؒ نے اپنی زندگی میں ایک شوریٰ بنائی تھی اور ان کے لیے لازم تھا کہ وہ مولانا انعام الحسنؒ کے بعدکسی ایک کو امیر نامزد کریں لیکن یہ شوریٰ ایسا کرنے میں ناکام ہوگئی۔اورنظام الدین مرکز کی ذمہ داری کا بوجھ تین اصحاب پر مشترکہ طور ڈالا گیا۔ان تین اصحاب میں سے دو اس دنیا سے چلے گئے اور اب صرف ایک باقی ہے اور وہ مولانا سعد صاحب ہے۔ اور عملاً مرکز نظام الدین میں وہی امارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امارت تین حصوں میں بٹ کر مولانا زبیر صاحب کی وفات کے بعد تکوینی طور پر ایک ہی شخص پر مجتمع ہوگئی کیونکہ مولانا انعام الحسن ؒ کی مقرر کردہ شوریٰ میں اب صرف یہی ایک صاحب زدہ باقی رہ گئے ہیں اور باقی سب اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن مرکز میں عرصہ دراز سے مقیم دو اصحاب اس خیال کے ساتھ متفق نہیں اور وہ لفظ شوریٰ کے تحت اپنی سرگرمیاں اندروں و بیرون ملک میں چلا رہے ہیں۔ یہ دو بزرگ وہاں سے روٹھ کر نکلے اور اپنی ناراضگی کے کئی اور وجوہات بھی پیش کر رہے ہیں۔یہ دو حضرات اگر چہ مولانا انعام الحسن صاحب کی تشکیل کردہ شوریٰ میں ممبر نہیں تھے لیکن عرصہ دراز سے مرکز میں مقیم تھے اور دعوتی دنیا میں معروف تھے۔ایسے دو افراد کا مرکز سے راہ فرار اختیار کرنا بھی کوئی معمولی بات نہیں تھی اس کی وجہ سے یہ عالمی دینی محنت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔اور گردش زمانہ کی وجہ سے ایک کا نام امارتی گروپ پڑ گیا اور دوسرے کا نام شورائی گروپ پڑگیا۔ میں اپنے اس مقالہ کو اس اختلاف کی نذر نہیں کرنا چاہتا ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ اللہ پورے عالم میں پھیلے ہوئے دونوں گروپوں کے اصحاب کو باہمی اتفاق و اتحاد سے نوازے اور علمی بنیاد پر اس اختلاف کا کوئی حل نکالنے میں ان کے ذمہ دار کامیاب ہو جائیں۔
مولانا انعام الحسن صاحب ؒ تبلیغی جماعت کے متفق علیہ امیر تھے۔اور تیس سال تک اس منصب پر فائز رہے۔ایک دعوتی سفر میں شہر کانپور یوپی کے ایک سال لگائے ہوئے تقریباً تین حضرات نے مجھے اصرار کے ساتھ اس بات پر امادہ کیا کہ آپ مولانا انعام صاحب سے بیعت ہو جائیں کیونکہ ایسا کرنے سے خداکے فضل سے آپ میں دعوتی نسبت پیدا ہوجائے گی۔ان مخلص اصحاب کی اس تجویز کو احقر نے نظر انداز نہیں کیا بلکہ اپنے سفر کے اختتام پر حضرت جی مولانا انعام الحسن ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
ایک دفعہ اپنے تبلیغی چلہ کے بعد احقر اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مرکز کے ایک بڑے حال میں چلے میں ہمراہ اصحاب کے ساتھ حساب جوڑ رہا تھا۔ اور ہال میں صرف ہم دو تیں افراد ہی تھے کہ ایک شخص ایک چائے کی کیٹل ہاتھ میں لیے ہمارے پاس آیا اور کہا کہ لو جی یہ چائے پی لو۔میں نے جواباً کہا کہ ہم نے چائے پی لی ہے فرمایا بھائی پی لو۔حضرت جی کے پاس عرب کے کچھ مہمان تشریف لائے تھے اور یہ چائے حضرت جی نے ان کے لیے بنوائی تھی۔کچھ چائے بچ گئی تھی تو حضرت نے فرمایا کہ ہال میں بیٹھے ہوئے افراد کو یہ چائے پلا لو۔ میں حیران ہوگیا کہ حضرت جی کو ہمارا پتہ کیسے چلا۔ جب کہ ہم چھپ کر اپنا حساب قلمبند کر رہے تھے۔ہم نے تبرک سمجھ کر اس چائے کو نوش کیا جس کی مٹھاس اور مزہ اب تک یاد آتا ہے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
نوٹ: اس سلسلے کی کسی کڑی کو پڑھنا نہ بھولیے کیونکہ علماء کی صحبتوں کو قلمبند کرنے کا یہ سلسلہ اس پیج پر فی الحال
جاری رہے گا
(یار زندہ صحبت باقی)
Views : 956