صحبت نمبر8
ؒ مولانا ظہور الحسن صاحب
ایک دینی سفر میں اللہ نے مجھے قصبہ تھانہ بھون اترپردیش پہنچایا۔یہ وہی جگہ ہے جہاں حکیم الامت موانا اشرف علی تھانوی صاحب مدفون ہے۔آپ 1943 عیسوی میں اس دنیا سے تشریف لے چلے۔احقرنے حضرت تھانوی سے متعلق ایک رسالہ بھی لکھا ہے جس میں اپنے آتھ اشعار کو عنوان بنا کر ان کے وہ آٹھ کارنامے بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سے انجام دلوائے۔مولانا عبد الولی شاہ صاحب کشمیری ؒ کے واسطے سے حکیم الامت میرے دادا پیر ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ ان دونوں اصحاب علم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ اور ان کے خلفاء سے جو عظیم الشان کام اللہ نے اس برصغیر میں لیا وہ کسی صاحب علم دوست سے مخفی نہیں ہے۔ صحیح علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن اس ناچیز کے اندازے کے مطابق برصغیر ہند و پاک میں مولانا اشرف علی تھانوی ؒصاحب کا ترجمہ قرآن لاکھوں گھرانوں میں موجود بھی ہے اور پڑھا بھی جاتا ہے۔فکریاعتبار سے احقر کو حضرت تھانوی ؒ کے خلفاء کے ساتھ بھی ایک قلبی لگاو ئ بچپن سے ہی تھا اور دل چاہتا تھا کہ اگر حضرت تھانوی کی زیارت ان کے مرحوم و مغفور ہونے کی وجہ سے نہ نصیب ہوسکی کم از کم ان کے ساتھ جڑے ہوئے بزرگوں کی زیارت نصیب ہوجائے۔دل میں یہی جذبہ رکھتے ہوئے احقر تھانہ بھون پہنچا اور خانقاہ امدادیہ میں داخل ہوا۔یہاں پر ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی معلوم ہوا کہ یہ مولانا تھانوی کے ایک خلیفہ ہیں اور ان کا اسم گرامی ظہور الحسن صاحب ہے۔ اور آج کل یہی اس خانقاہ کو آباد رکھے ہوئے ہیں۔اس سے پہلے یہ جگہ اصحاب علم و دانش کا ایک مرکز تھی۔ اور برصغیر کے علماء آسمان کے تاروں کے مانند اس چاند کے ارد گرد اپنی ظاہری و باطنی تربیت کے لیے چکر کاٹتے تھے۔جب میر محفل ہی چلا گیا تو اندھیرا چھا گیا۔ظہور احسن صاحب چہرے پر سفید ریش رکھے ہوئے ایک نورانی چہرے کے ساتھ نظر آئے۔دل چاہتا تھا کی اس شرافت کے مجسمے کو دیکھتے ہی رہیں۔ نہایت ہی خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے۔ہم نے ان سے التجا کی کہ وہ اس خانقاہ کی کچھ اہم چیزیں دکھائیں تو وہ بذات خود ہمیں اس لائبرری میں لے گئے جہاں حضرت تھانوی کی مطبوعہ کتب تھیں۔اس کے بعد وہ جگہ دکھائی جہاں کسی زمانہ میں حضرت تھانویؒ تنہائی میں مراقبہ کرتے تھے۔یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں تک جانے کے لیے اتنا تنگ راستہ ہے جس میں صرف ایک آدمی ہی چل سکتاہے اور اس کے بعد یہ تنگ راستہ ایک ایسی جگہ پر ختم ہوتا ہے جہاں ایک آدمی بمشکل چار زانو بیٹھ سکتا ہے۔اس مراقبے کا ثبوت ہمیں حضور ﷺ کی زندگی مبارک سے ملتا ہے جب آپ ﷺکوہ حرا پر جاکر وہاں کی تنگ و تاریک گھپاؤں میں اپنے آپ کو مراقبہ مکیں رکھتے تھے اور خالق کائنات کی پیدا کردہ کائنات پر غور و فکر کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کو آپ کے پاس بھیجا اور قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد ہم نے حضرت تھانوی ؒ کے مقبرہ پر حاضری دی۔جو ان کے اپنے ملکیتی باغ میں موجود ہے۔وہاں پر ایک ملازم پایا جو اس باغ کی صفائی وغیرہ پر مامور تھا۔چند قبور نظر آئیں جو تقریباً زمین کے برابر ہی تھیں اور سب قبور کچی تھیں جن میں ایک قبر حضرت تھانویؒ کی تھی۔ باغ ہی میں ہم نے وضو بنایا تھا اور باوضو قرآن شریف کی چند صورتیں تلاوت کر کے ان کا ثواب ان ارواح مقدسہ کو بخش دیا۔یہ ایک پر سکون جگہ ہے جو اپنی خاموش زبان میں اس طرف اشارہ کر رہی تھی کہ ؎
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
واپسی پر حضرت حافظ ضامن شہید ؒ کا مقبرہ بھی نظر آیا جو انگریزوں کے خلاف جنگ میں شہید ہوئے تھے۔جب ہم واپس آئے تو ہم نے مولانا سے درخواست کی کہ ہم حضرت تھانوی ؒکے مکان کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں جہاں وہ بود و باش اختیار کرتے تھے وہاں پہنچ کر چند مکان دیکھے جہاں ایک مکان حضرت تھانوی کا بھی تھا ااور اس کو ہم نے مقفل پایا۔کیونکہ حضرت تھانوی کی دوسری بیوی صاحبہ ملک تقسیم ہونے کے بعد ہمسایہ ملک تشریف لے چلی تھی۔اس کے بعد قریب ہی حضرت تھانوی کے ایک دوسرے خلیفہ مولانا حامد حسین کی زیارت و ملاقات بھی نصیب ہوئی۔جو مدرسہ اشرفیہ کے مہتمم تھے ابھی ان کی داڑھی زیادہ تر کالی تھی اور جس وقت ہم وہاں پہنچے وہ بہت مصروف دکھائی دیے کیونکہ مدرسے کا تعمیری کام ہورہا تھا مصافحہ و زیارت کے بعد ایک کشمیری طالب علم کو ہمارے ساتھ لگایا گیا جس نے مدرسے کے متعلق ہمیں کافی معلومات فراہم کیں۔ یہ طالب علم ضلع پونچھ کا رہنے والا تھا۔ واپسی پر پھر خانقاہ امدادیہ میں حاضری دی،جہاں ہمیں ایک کمرے میں بٹھایا گیا اور پھر وہاں پر ظہور الحسن صاحب ؒ بذات خود تشریف لائے۔آپ نہایت ہی شریف النفس تھے۔چند نصائح سے نوازا۔میں نے نہایت ہی ادب کے ساتھ گذارش کی کہ ہم کو حضرت تھانوی ؒ کے متعلق کوئی یادگار واقعہ بیان فرمائیں۔ انہوں نے جواباً فرمایا کہ ایک یادگار واقعہ یہ ہے کہ جس وقت حضرت اس دنیا سے تشریف لے چلے اس وقت ان کے ارد گرد محبین کا ایک مجمع تھا اور کمرے میں بجلی کا ایک بلب چمک رہا تھا کہ اچانک حضرت تھانوی ؒ کی شہادت کی انگلی اور اس کے ساتھ دوسری انگلی کے درمیان سے نور کی ایک ایسی کرن نکلی جس کے سامنے بلب کی روشنی ماند پڑی اور یہ نور کی کرن سیدھے آسمان کی طرف چلی گئی۔احقر نے دل ہی دل میں اس کی یہ تعبیر نکالی کہ واقعی خدا کسی مقبول بندے کوئی حرکت ضائع نہیں ہونے دیا۔چونکہ حضرت تھانوی نے ان مبارک انگلیوں سے تقریباً ایک ہزار کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔لہٰذا ان کی وفات کے ساتھ اس نور کا ان ہی انگلیوں کے ذریعے ظاہر ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ دل چاہتا تھا کہ اس بزرگ کے پاس کافی دیر تک بیٹھ کر دل کی پیاس بجھائیں مگر وقت کی تنگی کے باعث نہایت ہی ادب کے ساتھ ان سے رخصت چاہی۔حضرت نے کمال شفقت کے ساتھ ہمیں رخصت فرمایا۔ابھی زیادہ دیر نہیں گذری تھی کہ حضرت ؒ نے یہا ں اپنے زیر اہتمام معرفت الٰہیہ کتاب چھپوائی جو ہمسایہ ملک میں حضرت تھانوی ؒ کے مشہور خلیفہ کے ملفوظات پر مشتمل تھی۔جن کا مبارک نام شاہ عبد الغنی ؒپھولپوری تھا۔ اور اس کتاب کو حضرت مولانا اختر صاحب ؒنے مرتب فرمایا تھا۔وہ کتاب کیا ہے قیمتی موتیوں کا ایک گنجینہ ہے۔ یہ ناچیز اس کتاب کا بار بار مطالعہ کرتا ہے اور اپنے عزیزوں پر زور دیتا ہے کہ وہ اس کتاب کو ضرور پڑھیں کیونکہ یہ کتاب در اصل حضرت تھانوی کے علوم پر مشتمل ہے،مولانا ظہر الحسن صاحب اب مرحوم ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ ان کے شریف اطبع فرزند اور عالم ربانی حضرت نجم الحسن صاحب تھانوی ؒ جلوہ افروز ہیں۔احقر کا ان کے ساتھ فون پر رابطہ قائم ہے اور اس وقت وہی خانقاہ امدادیہ کے نگران اور متعلقین حضرت تھانوی ؒ کی رہبری و رہنمائی فرماتے ہیں۔احقر نے جب ایک بار ”راہ نجات“چند رسالے ان کی خدمت میں روانہ کیے تو دوسری دفعہ فون پر بتایا کہ آپ کے ایک رسالے نے مجھے رات بھر سونے نہیں دیا۔اس بات پر خدا کا شکر بجا لاتا ہوں کہ حضرت نجم الحسن صاحب ؒ رسالہ راہنجات اور مجلس علمی کے لیے بار بار دعا فرماتے ہیں اور ان بزرگوں کی دعاؤں اور شفقتوں کی وجہ سے یہ رسالہ اور یہ مجلس علمی ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رہے گی اور اللہ اس علمی تحریک کو شرور و فتن سے ہمیشہ محفوظ رکھے گا۔ اے اللہ ان بزرگوں کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھ۔ آمین
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
نوٹ: اس سلسلے کی کسی کڑی کو پڑھنا نہ بھولیے کیونکہ علماء کی صحبتوں کو قلمبند کرنے کا یہ سلسلہ اس پیج پر فی الحال جاری رہے گا
(یار زندہ صحبت باقی)