صحبت نمبر6
مولانا انظر شاہ کشمیریؒ
آپ مولانا انور شاہ کشمیریؒ کے فرزند ارجمند تھے۔بچپن میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلیٰ قسم کی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔اپنے دیوبند کے سفر کے دوران احقر ان سے ملنے کے لیے ان کی کوٹھی پر ملنے کے لیے گیا لیکن وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ گھر سے دار العلوم کی طرف جانے والے ہیں کیونکہ مولانا دار العلوم (قدیم) کے ایک استادبھی تھے۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ بعد نماز مغرب مجھ سے انار کے اس درخت کے پاس مل سکتے ہیں جہاں پر دار العلوم کی ابتداء ایک شاگرد اور ایک استاد سے ہوئی تھی قریب ہی ایک چھوٹی مسجد تھی جہاں مولانا نے بذات خودمغرب کی نماز پڑھی اور ہم نے بھی وہیں پر مغرب کی نماز با جماعت اد ا کی۔اس کے بعد مولانا اسی مسجد کے صحن میں ایک جگہ تشریف فرما ہوئے اور ہم بھی ان کے ارد گرد بیٹھے۔اپنے مادر وطن کے ساتھ قلبی لگاو کی وجہ سے مولانا نے ہمارے ماتھے کو اپنے ماتھے کے ساتھ کچھ دیر کے لیے الگ الگ چمٹا کے رکھا اور ہمارے سروں کو اپنے دونوں بازؤں سے پکڑ کے رکھا۔اس کے بعد فرمایا کہ دار العلوم کے فلاں ہال میں میرا درس ہورہا ہے آپ وہاں اس میں شریک ہو جائیں۔وقت مقررہ پر ہم وہاں پہنچے اور مولانا تشریف لائے تھے اور طلباء نہایت ہی ادب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور ہر ایک طالب علم کے سامنے کتاب تھی۔مولانا کے سامنے مائک بھی تھی کیونکہ طلابء کا ایک ہجوم تھا جو مولانا کے سامنے بیٹھا تھا۔مولانا عبارات کی تشریح تو فرماتے تھے مگر ایسی عربی آمیز زبان میں جو بلا مبالغہ کے اگر عربی ہی کہی جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ مولانا کے درس کی شان دیکھ کر ہم کسی اور دنیا میں پہنچ گئے اور اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ ”شیروں کے پسر شیر ہی ہوتے ہیں جہاں میں“واقعہ اگر مولانا ہمیں گھر پر ہی ملاقات سے نوازتے تو ہم ایسا تاثر لے واپس نہ لوٹتے جو مولانا کی اس مجلس درس میں ان کے علم و فضل کے بارے میں ہم نے نوٹ کر لیا۔ در اصل حضرت علمائے کرام بڑے نباض اور خیر خواہ ہوتے ہیں۔واپسی پر ہمیں ان کے ایک فرزند سیڑھیوں پر ٹہلتے نظر آئے جو مولانا کے ساتھ گھر سے آئے تھے۔ہم نے اس سے کہا کہ ہم آپ کے مادر وطن کشمیر سے آئے ہیں۔کیا ٓپ کو کشمیر آنے کا شوق ہے؟ اس نے اپنی شوخ طبعی کے انداز میں عجیب و غریب جواب دیا،کہا کہ کشمیر میں بہت بدعات ہو رہے ہیں لہٰذا میں کشمیر نہیں آؤں گا۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کس کلاس میں پڑھ رہے ہیں اس نے جواباً کہا کہ میں ساتویں جماعت میں پڑھ رہا ہوں۔اس کے بعد ہم واپس آئے اور دل ہی دل میں خدا کا شکر بجا لارہے تھے کہ اللہ نے ہمیں مولانا کے درس میں شریک ہونے کی توفیق نصیب فرمائی۔ملاقات کے بعد سرینگر کے علمی سمینار میں تین دن تک ان کی صحبت نصیب ہوئی۔مولانا ایک فصیح و بلیغ تقریر فرماتے تھے اور ان کی تقریر سن کر آدمی کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے مولانا کو باطنی اوصاف کے ساتھ ساتھ ظاہری خوبصورتی سے بھی نوازا تھا۔سرینگر کی ملاقات کے داران میں نے”ملفوظات“نام کی ایک کتاب بھی ان کو دے دی جس میں مولانا انور شاہ صاحب کے اس تاریخی فیصلہ کی نقل بھی درج تھی جو انہوں نے بارہمولہ میں ”دربارہ شیئاً للہ“ دیا تھا ۔اپنے دیوبند کے سفر کے دوران احقر نے مولانا انور شاہ صاحب کشمیریؒ کی قبر مبارک کی زیارت بھی کی۔چند دیگر قبریں بھی آس پاس تھیں قرآن پاک کی چند سورتیں پڑھ کر ایصال ثواب بھی کیا۔دیگر اکابرین دیوبندکی قبور کی زیارت بھی کی جو نہایت ہیی سادگی کا منظر پیش کر رہی تھیں۔واقعی یہ لوگ علم و عمل کا مجسمہ تھے ایک دوسرے سفر میں جب مولانا کشمیر تشریف لائے تو بارہمولہ کے تبلیغی مرکز میں بھی ایک فصیح و بلیغ تقریر فرمائی جس میں شریک ہونے کی سعادت بھی اللہ نے،جھے نصیب فرمائی۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
نوٹ: اس سلسلے کی کسی کڑی کو پڑھنا نہ بھولیے کیونکہ علماء کی صحبتوں کو قلمبند کرنے کا یہ سلسلہ اس پیج پر فی الحال جاری رہے گا
(یار زندہ صحبت باقی)