صحبت نمبر5
ؒازہر شاہ قیصر
حضرت مولانا انور شاہ کشمیری کے دو فرزند تھے۔ایک کا نام ازہر شاہ صاحب تھا اور دوسرے کا نام انظر شاہ صاحب تھا۔ان دو بھائیوں میں فرق صرف یہ تھا کہ ازہر شاہ صاحب ایک اعلیٰ پایہ کے ادیب تھے اور ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے خاندانی شرافت کا مجسمہ بھی تھے لیکن انظر شاہ صاحب ایک اعلیٰ پایہ کے عالم دین تھے۔آپ پہلے دار العلوم دیوبند(قدیم)میں بھی بحیثیت استاد کام کرتے تھے پھر جب باہمی اختلاف کی وجہ سے دار العلوم (وقف) وجود میں آیا تو آپ نے زندگی کے بقیہ ایام اسی دار العلوم میں گذارے۔
جیسا کہ اوپر تذکرہ ہوا کہ ازہر شاہ صاحب ایک اعلیٰ پایہ کے ادیب تھے اور اسی کے ساتھ ساتھ ایک قلمکار بھی تھے۔آپ بڑی پابندی سے دار العلوم (قدیم)سے رسالہ”دار العلوم“ نکالتے تھے۔احقر اس رسالے کا مستقل خریدار تھا۔یہ رسالہ دار العلوم کی شان کے مطابق بہت معیاری تھا اور ازہر شاہ صاحب اس کے اڈیٹر تھے۔ قاری طیب صاحب سرپرست تھے۔
احقر کی پہلی ملاقات ازہر شاہ صاحب کے ساتھ دار العلوم میں ان کے دفتر میں ہوئی اس وقت ازہر شاہ صاحب حسب معمول تحریر و تصنیف میں مشغول تھے اور قاری طیب صاحب کی جگہ خالی تھی کیونکہ وہ کسی سفر پر گئے ہوئے تھے۔حال چال پوچھنے کے بعد ازہر شاہ صاحب نے پوچھا کیسے آنا ہوا۔میں نے عرض کیا کہ ہم ایک دعوتی سفر پر ہیں اور آپ کے پاس بغرض ملاقات آئے ہیں۔بڑی خوشی کا اظہار فرمایا میں نے ان سے کہا کہ احقرنے ایک درسگاہ بھی کھولی ہے اور حضرت مولانا انور شاہ صاحب ؒ سے محبت و عقیدت کی وجہ سے ان کی کی یاد میں اس درس گاہ کا نام ”انوار العلوم“ رکھا ہے۔کشمیری مسلمانوں کی علم کے ساتھ بے رغبتی و بے التفاتی پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا دیکھو آپ نے جو درسگاہ کھولی ہے اس کو کشمیری مزاج سے ذرا ہٹ کے چلانا۔غالباً اس بات کے پیچھے ازہر شاہ صاحب کے وہ احساسات تھے جن کے تحت حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری کو بارہمولہ کا فیض عام مدرسہ بند کرنا پڑا۔فیض عام مدرسہ بارہمولہ میں انور شاہ صاحب نے کھولا تھا اور وہ اس کو ایک اعلیٰ سطحی مدرسہ کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن کشمیری ہنگامہ پسند مزاج نے اس مدرسہ کو چلنے نہ دیا۔ اور اس زمانے کے کشمیری مسلمانوں نے حضرت شاہ صاحب کو اختلافی مسائل میں الجھانے کی کوشش کی۔حضرت انور شاہ صاحب نے جب اس صورت حٓل کو ملاحظہ فرمایا تو ان کا دل افسردہ ہوگیا اور انہوں نے کشمیر کو خیرباد کہنے کا فیصلہ لیا اور ناراض ہو کر یہاں سے چلدیے۔ اور اس بات کا رادہ کیا کہ زندی کے بقیہ ایام مدینہ جاکر دیار محبوب میں گذاریں۔ لیکن ہجرت سے قبل دیوبند جانے کا اور اپنے استادوں سے آخری ملاقات کرنے کا جذبہ دل میں لیے یہاں سے چلدیے۔ لیکن دیوبند پہنچ کر جب مولانا محمود الحسنؒ صاحب کو معلوم ہوا کہ شاہ صاحب ہمیشہ کے لیے ہم سے دور رہ کر زندگی گذارنے پر کمر بستہ ہیں تو انہیں اسی دار العلوم میں بحیثیت استاد کام کرنے پر مجبور کیا۔ پھر کیا تھا کہ شاہ صاحب کی وجہ سے دار العلوم کی علمی شان بڑھ گئی اور برصغیر کے گوشے گوشے سے ذہین طلباء ان سے سبق حاصل کرنے کے لیے امڈ پڑے اور شاہ صاحب نہایت ہی خاموشی کے ساتھ علم و عرفان کے سمندر بہاتے رہے۔ازہر شاہ صاحب کے ساتھ اس تفصیلی ملاقات کے بعد ان سے اجازت چاہی اور پھر دوسری ملاقات سرینگر کے بی۔ ایڈ کالج میں ہوئی۔ جہاں تین روز کا ایک علمی سمینار حضرت مولانا انور شاہ صاحب پر منعقد ہوا۔ جو اوقاف اسلامیہ سرینگر نے منعقد کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔اور حضرت انور شاہ صاحب کے دونوں فرزندوں کو اس میں شرکت کرنے کی دعوت دی۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
نوٹ: اس سلسلے کی کسی کڑی کو پڑھنا نہ بھولیے کیونکہ علماء کی صحبتوں کو قلمبند کرنے کا یہ سلسلہ اس پیج پر فی الحال جاری رہے گا
(یار زندہ صحبت باقی)