صحبت نمبر4
حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ
یہ 1976عیسوی کی بات ہے کہ ایک دعوتی سفر میں احقر دیوبند پہنچا۔چند دن دیوبند میں ٹھہرنا نصیب ہوا۔اُن دنوں قاری طیب صاحب ؒ دار العلوم دیوبند کے مہتمم تھے۔دل میں ان کی زیارت کرنے کا بڑا شوق تھا۔ لیکن وہ کہیں سفر پر گئے تھے۔ اور نائب مہتمم مولانا مرغوبا الرحمٰن صاحب دیوبند میں موجود تھے۔ ان کی زیارت نصیب ہوئی۔ مصافحہ کیا اور خیر خبر کی حد تک ہی بات چیت ہوئی۔اس کے بعد دار العلوم کے کمرے میں ہم پہنچے جہاں مولانا اظہر شاہ قیصر تشریف فرما تھے۔۔ان کی ملاقات نصیب ہوئی۔وہ ان دنوں دار العلوم دیوبند کا ماہوار رسالہ نکالتے تھے۔اسی کمرے میں مولانا قاری محمدطیب صاحب بھی بیٹھا کرتے تھے۔،انہوں نے بھی بتایا کہ مولانا آج باہر ہیں۔ان کیساتھ جو مذاکرہ ہوا اس کی تفصیل ان کی صحبت کے تذکرہ میں بیان کی جائے گی۔لیکن ہم اس بات پر افسوس کر رہے تھے کہ ہمیں مولانا قاری طیب صاحب ؒ کی ملاقات حاصل نہ ہوئی۔دل میں یہ تمنا لیے واپس اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچے یہاں تک کہ قدرت نے ہمیں ایک ایسا موقعہ نصیب فرمایا کہ احقر کو تین دن تک مولانا قاری طیب ؒ صاحب کے ساتھ ہم نشینی نصیب ہوئی۔یہ 1977 عیسوی کی بات ہے کہ احقر سرینگر بی۔ایڈ کالج میں اپنی ٹرینگ کر رہا تھا کہ ایک دن اچانک اعلان ہوا کہ کل اس کالج میں ایک تین روزہ علمی سمینار شروع ہورہا ہے۔ لہٰذا کالج کے تمام کلاس بند رہیں گے۔اور تمام زیر تربیات اساتذہ اس سمینار میں شرکت کریں گے۔معلوم ہوا کہ یہ سمینار مولانا انور شاہ کشمیری ؒ کے متعلق ہوگا۔ اور اس میں بہت سارے اکابرین دیوبند اپنے مقالے پڑھیں گے۔میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ اللہ نے ہمیں ایک موقعہ نصیب فرمایا کہ جن بزرگوں کے پاس پہنچنے کے لیے اور ان کی زیارت و مصافحہ کرنے کے سلسلے سینکڑوں میل طے کرنے تھے وہ سب اکٹھے ایک ہی جگہ ہمیں ملیں گے اور ہم ان کے افکار اور خیالات سے مستفید ہوجائیں چنانچہ ایسا ہی ہوا اور دوسرے دن گراونڈ میں اسٹیج تیار کیا گیا۔اور وقت مقررہ پر تمام اکابرین دیوبند اسٹیج پر پہنچے جن میں قاری طیب صاحب ؒ ایسے ہی چمک رہے تھے جیسے رات کے وقت ستاروں کے درمیان چاند چمکتا ہے۔در اصل یہ علمی سمینار اوقاف اسلامیہ سرینگر نے منعقد کرنے کا فیصلہ لیا تھا اور شیخ محمد عبد اللہ ایک طرف سے اوقف اسلامیہ کے سربراہ تھے اور دوسری طرف سے وزیر اعلیٰ تھے۔انہوں بذات خود استقبالیہ پیش کیا اور اس میں انہوں نے شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب ؒ اور انور شاہ کشمیری ؒ کے تفصیلی حالات لکھے تھے۔جس کی کاپیاں سامعین میں بھی تقسیم کی گئیں۔انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ اپنے ابتدائی ایام میں حضرت شاہ صاحب ؒ کے والد مرحوم نے ایک دفعہ علاقہ لولاب میں ان کی دستار بندی بھی فرمائی ہے اس دن بیگم عبد اللہ نے بھی پردے میں رہ کر اس سمینار میں شرکت کی۔جب پہلے دن سمینار کا وقت ختم ہوا تو دوسرے اور تیسرے دن یہ سمینار کالج کے میٹنگ ہال میں منعقد ہوا اور اس دن استقبالیہ مرزا محمد افضل بیگ صاحب نے پیش کیا۔وہ ظریف الطبع تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک علمی سمینار ہے اور اس میں ایک بزرگ اور اعلیٰ پایہ کے کشمیری عالم پر مقالے پڑھنے مطلوب ہیں اور شیخ محمد عبد اللہ نے مجھے آج یہاں کچھ کہنے کے لیے بھیجا ہے۔لیکن مجھے چونکہ محکمہ حیوانات کی وزارت سونپی گئی ہے اور یہ ایک علمی سمینار ہے لہٰذا مجھ جیسا آدمی یہاں کیا بولے گا جب کہ مجھے محکمہ حیوانات کا چارج دیا گیا ہے اور یہ ایک اعلیٰ پایہ کے انسان پر سمینار ہورہا ہے۔اس پر سارے شرکاء ہنس پڑے پھر کہا کہ میں ان تمام حضرات کے سامنے ایک مسئلہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں یہاں ایک مشکل ہے کہ شادی کے سلسلے میں کبھی یہاں کی کسی لڑکی کا نکاح بہت دور ہوجاتا ہے علمائے کرام سے گذارش ہے کہ وہ اس مسئلے پر لکھیں کہ ایسی صورت میں اس کی زمین کو دور دراز جگہ کیسے منتقل کریں اس کا اسلامی حل کیا ہے۔اسکے بعد بڑے بڑے علماء نے اپنے مقالے پڑھے اور ہم نے سنے۔میرے قریب ہی مولانا انور شاہ کشمیری ؒصاحب کے داماد سید احمد رضا صاحب بجنوری ؒ بھی تشریف فرما تھے۔وہ اپنے ہاتھ میں قلم لیے ہوئے لکھ رہے تھے۔بڑا پر سوز علمی سمینار تھا۔ان ہی ایام میں میرے مضامین اسی موضوع پر اخبار سرینگر ٹائمز میں شائع ہو رہے تھے میں وہ اخبارات لیکر ان علماء کو پیش کرتا تھا اور اس کے علاوہ ان سبھی حضرات میں ملفوظات نام کی کتابیں بھی تقسیم کی۔جس میں احقر نے مولانا انور شاہ کشمیری ؒ کے کچھ ایسے تاریخی واقعات بھی لکھے تھے جو ان کو اپنے کشمیر میں زمانہ ماضی میں پیش آئے تھے لیکن اظہر شاہ قیصرؒ نے مجھے کہا کہ یہ کتاب آپ دیوبند میں نہ بھیجیں کیونکہ وہاں کی علمی فضا ان واقعات کے بارے میں موافق نہیں ہیں۔در اصل یہ مسئلہ شیاً اللہ کے بارے میں شاہ صاحب کے تاریخی فیصلے کے ساتھ تعلق رکھتاہے۔قاری طیب صاحب ؒ کی تقریر سننے کا موقع بھی ملا آخر پر دعا بھی ہوئی یہ ایک تاریخی علمی سمینار تھا۔جس میں اس وقت کے دیوبند کے اکابر اور اساتذہ شریک تھے۔مولانا انظر شاہ کشمیریؒ بھی ایک مہان خاص کی حیثیت سے اس علمی سمینار میں شریک تھے۔ اس کے علاوہ سرینگر کے ممتاز علماء بھی شریک مجلس ہے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
نوٹ: اس سلسلے کی کسی کڑی کو پڑھنا نہ بھولیے کیونکہ علماء کی صحبتوں کو قلمبند کرنے کا یہ سلسلہ اس پیج پر فی الحال جاری رہے گا
(یار زندہ صحبت باقی)