Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

(3) صحبتے با اہل علم


  • Aasi Ghulam Nabi
  • Wednesday 19th of January 2022 07:43:48 AM

 3 صحبت نمبر 
 

 ؒ مولانا منظور احمد نعمان 
گذشتہ عیسوی صدی کے ممتاز علمائے دین میں مولانا منظور احمد نعمانی ؒکا نام  سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔کیونکہ اس دور میں لوگوں تک بات پہنچانے کے ذرائع موجود نہیں تھے جو آجکل ہر شخص کو میسر ہیں۔اس دور میں نشر و اشاعت کے دو ذرائع موجود تھے۔حضرات علمائے کرام یا تو اپنی زبان کے ذریعے اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچاتے تھے یا رسائل و کتب کے ذریعے۔مولانا نعمانی  ؒ نے  ان دونوں کو خوب استعمال کیا۔آپ ایک اعلیٰ پایہ کے مبلغ،عالم اور صاحب قلم تھے۔ چنانچہ آپ نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں۔آپکے استادوں  میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کا نام سر فہرست ہے۔اپنے فہم شعور کو پہنچنے کے بعد آپ مولانا مودودی ؒ کی تحریک اسلامی سے متاثر ہوئے اور ایک عرصہ تک اس جماعت کے ساتھ وابسطہ رہے۔ایک مکمل عالم دین ہونے کے ناطے آپنے مولانا مودودی ؒ صاحب کے ساتھ چند تشریحات دین پر اختلاف کیا جو بہت حد تک آگے بڑھا اور آپ نے ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا ”مولانا مودوی ؒ کے ساتھ میری رفاقت کی سرگذشت اور اب میرا موقف“۔ آخر آپ نے جماعت اسلامی کو چھوڑا اور مولانا الیاس ؒ کی تبلیغی و دعوتی محنت کے ساتھ وابستہ رہے۔ آپ نے رسالہ الفرقان جاری کیا جو اب تک اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ مولاناالیاس ؒ کے ملفوظات سب سے پہلے آپ ہی نے شائع کیے۔یہ تمام خدمات انجام دینے کے بعد آپ اس دنیائے فانی سے چل بسے۔ 
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے برصغیر کے اس قابل فخر عالم  و مبلغ کی دو صحبتوں میں بیٹھنے کا موقع نصیب فرمایا۔پہلی دفعہ جب میں ایک تبلیغی سفر میں بستی نظام الدینؒ پہنچا،تو مغرب اور عشاء کے درمیان میں نے ان کا رُلا دینے والا بیان سنا۔جس کا خلاصہ یہ تھا کہ کس طرح مولانا الیاس ؒ نے اس مقام پر رہ کر دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔اپنے اس پُر سوز بیان میں آپ نے فرمایا کہ یہ بستی اس سے پہلے ایک جنگل  کا منظر پیش کرتی تھی۔اور مولانا الیاس ؒ رات کے وقت یہاں سے نکل کر مقبرہ ہمایوں کی طرف جا کر راتوں کو جھاڑیوں میں روتے اور چلاتے تھے،وہاں پر سرکاری گارڈ متعین تھا، اس کا حوالہ دیکر فرمایا کہ مولاناؒ رات کے اندھیرے میں اس قدر روتے اور چلاتے تھے کہ وہ جنگل گارڈ خوف کھاتا تھا اور قریب جانے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔کئی روز تک چیخ و پکار سن کر ایک دن اس نے ہمت کی اور وہ اِس تلاش میں نظام الدین بنگلہ والی مسجد کے ارد گرد چکر کاٹتا رہا تاکہ دیکھوں کہ کون بندہ اس بستی کا ہے جو اس گھپ اندھیرے میں جھاڑیوں میں جاکر رات کو روتا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ رات کے وقت کوئی شخص بنگلہ والی مسجد سے نکل کر اس جنگل کی طرف آنے لگا اور یہی وہ شخص تھا جس کی چیخ و پکار اس کو رات کے وقت ڈرا رہی تھی۔ صبح پھر یہ شخص اندھیرے ہی اندھیرے فجر نماز سے پہلے بنگلہ والی مسجد نظام الدین ؒ کی طرف اپنے منہ چھپاتے ہوئے واپس آیا۔وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے آیا اور نظام الدین بنگلہ والی مسجد پہنچ کر اس سے معلوم ہوا کہ یہ شخص مولانا الیاس ؒتھے۔ اس کے بعد مولانا ؒ نے فرمایا کہ مولانا ؒ راتوں کو اسی جنگل میں تنہا جاتے تھے اور روتے تھے اور امت کی ہدایت اور دعوت کے فروغ کے لیے تڑپ تڑپ کر ان کی چیخیں نکلتیں تھیں۔مولانا ؒکے اس بیان نے پورے مجمع کو رُلا دیا۔فرمایا یہ مبارک کام مولانا الیاسؒ نے اللہ کے حضور رو ررو کر اور گڑ  گڑا کر شروع کیا جس کی برکات کا آج ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔  
 دوسری ملاقات ایک دعوتی سفر کے دوران لکھنو شہر کے گڑگاؤں علاقے میں ان کی رہائش گاہ پر ہوئی۔اس وقت مولانا اکیلے گھر پر  ایک چارپائی پر تشریف فرما تھے۔دائیں بائیں ہزاروں کتابوں کی لائبرری تھی۔ہم نے مولانا کو پیغام بھیجا تھا،کہ یہ ایک کشمیری جماعت ہے جو آپکی زیارت اور ملاقات کے لیے حاضر ہوئی ہے۔ ہمیں جب اجازت ملی تو مولاناؒ ؒنے ہمیں ایک چھوٹے کمرے میں بیٹھنے کا حکم فرمایا۔اور جب ہم سے محو گفتگو ہوئے تو ہم نے مولاناؒ کے سامنے چند باتوں کا استفسار کیا۔مولانا ؒنے انکساری کے ساتھ فرمایا کہ اب مجھے چھ باتوں کے بغیر زیادہ کچھ یاد نہیں۔ کیونکہ مولاناؒ اس زمانے میں اپنی عمر کی آخری حدیں پار کر رہے تھے۔ اسی دوران مولانا ؒکے خادم نے ہمارے سامنے ایک بہترین کیک کاٹ کر رکھا تو مولاناؒ نے فرمایا کہ میرے کسی محب نے یہ کیک مجھے بھیجا ہے چونکہ اس وقت گھر میں دیگر اہل خانہ موجود نہیں ہیں، وہ کسی ضرورت کے ساتھ کہیں گئے تھے۔فرمایا اب یہی کیک آپ تناول فرمائیں۔ بڑا پُر مزہ کیک تھا۔ معلوم ہوا کہ مولانا ؒکشمیری مہمانوں کا بڑا اکرام کرتے ہیں کیونکہ ان کا سب سے بڑا استاد ایک کشمیری ہی تھا،یعنی حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒ۔ لکھنو کا دعوتی مرکز ان کے گھر کے بالکل قریب ہے اور اس کی تعمیر وغیرہ میں مولانا کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔ مولانا ؒبہت خوش ہوئے ۔میں نے چند خطوط بھی مولانا ؒ  کو ان کی زندگی میں ارسال کیے۔ایک خط میں یہ گذارش کی تھی کہ آپ ایک مدلل کتاب لکھیں تاکہ مولانا مودودیؒ صاحب کے ساتھ جو آپ کا اختاف  قرآن کی چار بنیادی اصطلاحوں کی تشریح کے سلسلے میں ہو ا ہے،اس کی حقیقت سبھوں کے سامنے آجائے۔ جواباً لکھا تھا کہ ایسی کتاب کی واقعی ضرورت ہے لیکن اس وقت یہ کتاب لکھنے سے اس لیے معذور ہوں کیونکہ ایک دوسری کتاب ”انقلاب ایران“ لکھ رہا ہوں جس میں انقلاب ایران کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا مطلوب ہے۔اگر موقعہ ملا تو لکھو گا ورنہ اللہ کسی اوربندے سے یہ کام لے لے گا۔ 

خدا رحمت کنندایں عاشقان پاک طینت را 

نوٹ: اس سلسلے کی کسی کڑی کو پڑھنا نہ بھولیے کیونکہ علماء کی صحبتوں کو قلمبند کرنے کا یہ سلسلہ اس پیج پر فی الحال جاری رہے گا
 


Views : 925

Leave a Comment