(2) صحبتے با اہل علم


Aasi Ghulam Nabi
Tuesday 18th of January 2022 05:47:56 AM

2صحبت نمبر
سید ابو الحس علی میاں ندوی ؒ 
گذشتہ عیسوی صدی کے ممتاز علمائے دین میں سے حضرت علی میاں ندوی ؒ ایک ممتاز شخصیت کے مالک تھے۔ آپ ایک علمی گھرانہ کے چشم و چراغ تھے۔ قصبہ رائے بریلی یوپی میں پیدا ہوئے اور ندوۃ العلماء لکھنو کے سرپرست تھے۔ آپ دل سے اکابرین دیوبند و سہارنپور کے قدر دان تھے اور اس نیم برصغیر کے تقریباً سارے ہی علمی حلقوں میں نہات ہی قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔ آپؒ اور مولانا منظور احمد نعمانیؒ ہم عصر تھے اور ملک کے تقسیم ہونے کے بعد آپ دونوں حضرات پہلے جماعت اسلامی پھر تبلیغی جماعت کے ساتھ منسلک رہے۔ دونوں جماعتوں میں آپ قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔آپ  دونوں حضرات علم و عمل کا مجسمہ تھے۔ مولانا الیاسؒ جو تبلیغی جماعت کے بانی ہیں آپ دونوں حضرات سے اشاعت دین کے سلسلے میں  بڑی توقعات رکھتے تھے۔ چنانچہ مولانا علی میاں ؒ نے ایک کتاب ”مولانا الیاس ؒ اور ان کی دینی دعوت“ضبط تحریر میں لائی اور یہ کتاب تاریخ دعوت و عزیمت کا ایک حصہ بن گئی۔اسی طرح مولانا منظور احمد نعمانی  ؒ نے”ملفوظات مولانا الیاسؒ“  کے عنوان کے تحت لکھی۔ 
احقر نے مولانا علی میاں ؒ کی صحبتوں سے دوبار استفادہ کیا ہے۔پہلی بار جب ہم ایک دعوتی سفر کے دوران ان کی زیارت و ملاقات کے لیے دار العلوم ندوہ گئے اور وہاں ان کے ساتھ مصافحہ کیا۔اس وقت حضرت علی میاں ؒ دو اہل عرب کے ساتھ کرسی نشین تھے۔ دوران ملاقات ہم سے پوچھا کہاں سے آئے ہو۔ہم نے جوابا ً عرض کیا ہم کشمیر سے آئے ہیں۔فرمایا جب واپس چلے جاؤ گے تو اپنے علاقے میں ایک مدرسہ کھولو اور پھر اس کو دیوبند یا ندوہ  کے ساتھ مربوط رکھو۔ان کے اس کلام سے مولانا مجھے اخلاص کا ایک پہاڑ نظر آئے۔کیونکہ سب سے پہلے آپ نے دیوبند کا نام لیا۔ورنہ مولانا اپنے ادارہ میں ہوتے ہوئے ندوہ ہی  کے ساتھ منسلک رہنے پر اصرار کرتے۔اس کے بعد جب ہم گھر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے مجھ ناچیز سے دار العلوم شیری کی تعمیر و ترقی کے سلسلے میں لگاتار 25  برس تک مشغول رکھا اور وقف کنندہ اور شوریٰ کے اصرار پر برابر 25  سال تک بحیثیت صدر اپنے فرائض انجام دیتا رہا۔ 
دوسری دفعہ جب مولانا کشمیر تشریف لائے تو ان کے دو بیانوں میں مجھے شریک ہونے کی توفیق اللہ نے عنایت فرمائی۔پہلا بیان انہوں نے تبتی مسجد عید گاہ سرینگر میں کیا۔یہاں تبتی زبان بولنے والوں کی ایک بستی ہے۔اور یہ حضرات مولانا علی میاں ؒ کے نہایت ہی قدر دان ہیں۔کیونکہ بے خانماں ہونے کے بعد انہوں نے ان کے بہت  سارے بچوں کو ندوہ میں اچھی تعلیم دلائی جس کے لیے یہ حضرات تہہ دل کے ساتھ مولانا کے مشکور و ممنون ہیں۔یہاں پر مولانا نے ایک دلچسپ تقریر فرمائی۔انہوں نے بستی کے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ آپ یہاں پر ایک وصلی نصب کریں اور اس پر یہ عبارت تحریر کریں ”ہم نے اپنے وطن تبت کو کیوں چھوڑا؟“ اور پھر نیچے یہ جواب لکھیں کہ ہم نے یہ کام محض اپنے ایمان کو بچانے کے لیے کیا۔ پھر فرمایا میں آپ لوگوں کو ایسا کرنے کے لیے اس لیے کہتا ہوں تاکہ جب اس پر صبح و شام آپ کے نوجوانوں کی نظر پڑتی رہے گی تو ان کی یاد تازہ ہوتی رہے گی اور پھر وہ اپنا ایمان بچانے کی ہمیشہ فکر رکھیں گے۔ بیان کے بعد یہ اعلان ہوا کہ دوسری مجلس”سکہ ڈافر“ کے قریب ایک بزرگ کے مکان پر ہوگی جس کا اسم گرامی غلام نبی نورانی صاحب ہے۔ہم اسی ایڈرس پر اس کے گھر پہنچے یہاں ہم نے مرد و زن کا ایک ہجوم پایا جن سے سارا مکان بھر گیا تھا۔بہت ساری عورتیں بھی پردے میں مولانا کا بیان سننے کے لیے آئیں تھیں۔میرے شریک سفر ایک ہیڈماسٹر صاحب بھی تھے جو علاقہ رفیع آباد شمالی کشمیر سے خالصتاً مولانا کا بیان سننے کے لیے آئے تھے۔دونوں مجلسوں میں ہمیں مولانا کا بیان سننے کا موقع اللہ نے نصیب فرمایا۔اور رخصت ہونے کے وقت ہم دونوں ساتھیوں کو مولانا کا مصافحہ نصیب فرمایا۔اور ان کے ہاتھوں کو چومنے کی سعادت نصیب ہوئی۔اس کے بعد مولانا سرینگر سے بانڈی پورہ ایک بزرگ کوثر صاحب سے ملنے کے لیے چلے تھے۔کشمیر سے واپس جانے کے بعد انہوں نے اپنے کشمیر کے سفر سے متعلق ایک کتاب لکھی جو شائع بھی ہوئی کیونکہ اس سفر میں مولانا نے جماعت اسلامی کے دفتر اور ایک تبلیغی مرکز رنگر مسجد میں بھی بیان کیا اور کشمیر میں دعوتی محنت کا آغاز ہونے پر نہایت ہی خوشی کا ظہار کیا تھا۔
خدا رحمت کنند این بندگان ِ پاک طینت را۔

(نوٹ: اس سلسلے کی کسی کڑی کو پڑھنا نہ بھولیے کیونکہ علماء کی صحبتوں کو قلمبند کرنے کا یہ سلسلہ اس پیج پر فی الحال جاری رہے گا)

(یار زندہ صحبت باقی)