شاہ ہمدان کانفرنس دار العلوم قاسمیہ میں


سالک بلال
Tuesday 11th of November 2025 07:03:14 AM

قاسمیہ ٹرسٹ سرینگر کے زیرِ اہتمام یک روزہ "محسنِ کشمیر حضرتِ امیرِ کبیر میر سید علی ہمدانیؒ کانفرنس"بمقام دارالعلوم قاسمیہ لال بازار سرینگر میں شرکت

چند روز قبل دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ کے استاذِ حدیث اور علم و قلم کے شاہسوار حضرت مفتی اسحاق نازکی صاحب دامت برکاتہم کا فون موصول ہوا۔ نہایت محبت آمیز لہجے میں فرمایا کہ آپ کا مقالہ دارالعلوم قاسمیہ کے جریدہ "اذانِ سحر" کے خصوصی شمارے "شاہ ہمدانؒ محسنِ کشمیر" میں شائع ہوا ہے۔ اس سلسلے میں دارالعلوم قاسمیہ نے تمام مقالہ نگاروں کو رسمِ رونمائی کی تقریب جو کہ قاسمیہ ٹرسٹ کے زیر انتظام دارلعلوم قاسمیہ سرینگر میں بعنوان محسن کشمیر حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی کانفرنس کے تحت منعقد ہونے جارہی ہے میں مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لہٰذا میں نے آپ کو دعوت دینے کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی۔ حضرت مفتی اسحاق نازکی صاحب کا حکم ہو اور ہم جیسے طالبِ علم تعمیل سے پہلو تہی کریں، یہ ممکن نہیں۔ ان کی محبت علم و ادب کے دلدادہ تمام افراد کے لیے بے پناہ اور بلا تفریقِ مسلک و مذہب ہوتی ہے، یہی وہ وصف ہے جس نے دلوں کو موہ لیا ہے۔ چنانچہ میں نے اس بابرکت علمی محفل میں شرکت کا ارادہ کر لیا۔

چونکہ والدِ بزرگوار کی علالت کے بعد مجلسِ علمی کی متعدد ذمہ داریاں مجھ پر عائد ہیں، اس لیے گھریلو و تنظیمی امور کو ترتیب دے کر، اپنے فرزندِ ارجمند محمد قاسم اور برخوردار محمد اقبال سلمہ اللہ کے ہمراہ، 12 اکتوبر بروز اتوار صبح ساڑھے سات بجے سرینگر کا رخ کیا۔ چونکہ اہلِ علم سے ملاقات مقصود تھی، لہٰذا مجلسِ علمی کی چند نئی مطبوعات "العلم لائبریری فتح گڑھ" سے لے کر ساتھ رکھیں، کہ اہلِ علم کا ذوق پیٹ کی غذا سے نہیں بلکہ علم کی ضیافت سے سیر ہوتا ہے۔

 العِلمُ يَروِي نُفوسَ الحِكماءِ
لا الشَّهَواتُ وَلا الأَغذِيَةُ

حسبِ معمول، وادیِ نارواو سے روانگی سے قبل ہم نے اپنے مربیانِ کرام جیسے مولانا غلام محمد پرے صاحب، ڈاکٹر شکیل صاحب اور ماجد کرمانی صاحب کو اطلاع دی، جو مجلسِ علمی کے روحِ رواں ہیں۔

قومی شاہراہ اب دو طرفہ اور خاصی بہتر ہو چکی ہے۔ اتوار کا دن اور صبح کا وقت ہونے کے باعث ٹریفک بھی کم تھی، اس لیے مختصر مدت میں ہم سرینگر پہنچ گئے۔ اقبال صاحب کو امتحان کے سلسلے میں راج باغ جانا تھا، چنانچہ میں اپنے فرزند کے ساتھ لال بازار کی طرف روانہ ہوا۔

لال بازار پہنچ کر سیدھے دار العلوم قاسمیہ کی طرف چلنے لگے یہ مدرسہ مین روڈ سے چند ہی قدم کے فاصلے پر بستی میں  نبوی علوم کی اشاعت میں مشغول ہے ۔ 

یہاں بٹتا ہے فیضِ علمِ احمدِ مختارؐ
یہی تو ہے زمیں پر جلوۂ پروردگار

جونہی ہم مدرسہ کے مین گیٹ پر پہنچے وہاں پر کئی طلباء اور رضاکاروں کی ایک معتد بہ تعداد مہمانوں کے پرجوش استقبال کے لیے چشم براہ تھی ۔ چند وردی پوش اہلکار حفاظتی بندوں بست پر معمور تھے اور وہ اپنا فرض بہت ہی چست انداز سے نبھا رہے تھے ۔میں نے اپنا نام اندراج کے لیے پیش کیا تو انہوں نے فورا مجھے مہمانان کرام کے لیے مخصوص بروچ پہنا دیا۔ بہر حال ایک خوبصورت جوان نے میری رہبری مہمان خانے تک کی ۔ وہاں مہمانوں کو چائے پلائی جارہی تھی ۔ اس کے بعد ہمیں ایوان صدارت میں مہمانوں کے ساتھ بٹھایا گیا ۔حضرت مفتی اسحاق نازکی صاحب نظامت کے فرائض اپنے البیلے انداز میں ادا کر رہے تھے ۔ تمام مقالہ نگاروں کا تعارف ان کے قد و مقام کے مطابق فرما کرگویا اس قاعدے کی عملی ترجمانی فرما رہے تھے ۔ 

منزلت المرء بمقدار علمه وفضله"
ترجمہ: انسان کی منزلت اس کے علم اور فضیلت کے مطابق ہے۔
 
ایوان صدارت علماء اور دانشوروں کا کہکشان لگ رہا تھا۔ پہلی نشست کی صدارت شہر پونچھ کے معروف دینی ادارہ جامع ضیاء العلوم کے نائب مہتمم حضرت مولانا سعید احمد حبیب قاسمی صاحب نے انجام دی ۔ ایوان صدارت میں میری نظر امیر شریعت مفسر قرآن حضرت مولانا قاسم شاہ بخاری رحمہ اللہ کے علمی جانشین حضرت مولانا شوکت حسین کینگ صاحب پر پڑی۔مجھ سے رہا نہ گیا میں فورا ان سے سلام اور مصافحہ کے لئے ان کے سامنے باادب حاضر ہوا ۔ سلام عرض کرنے کے بعد میں اپنی نشست پر گیا اور وہاں بیٹھ کر کئی مقالہ نگاروں کے مقالے بغور سماعت کیے ۔سب سے پہلے مدرسہ ھذا کے مہتمم شیریں بیاں نوجوان فاضل مولانا نثار قاسمی صاحب نے استقبالیہ خطبہ پیش فرمایا ۔ مولانا شوکت حسین کینگ صاحب  اور مولانا شمس الحق فاروقی صاحب کے ابتدائی دو خطبے کافی دلکش اور پر تاثیر تھے ۔مولانا شوکت حسین کینگ صاحب نے جو علمی نکتہ  اپنے خطبے میں چھیڑا وہ یہ تھا کہ اقامت دین کی اصطلاح مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی دریافت کردہ اصطلاح نہیں ہے بلکہ یہ اصطلاح اصل میں حضرت شاہ ہمدان نے اپنے لٹریچر میں استعمال کی ہے ۔ اسکے بعد احقر نے اپنا مقالہ پڑھ کر سنایا تاہم مجھے اپنا مقالہ سمیٹنا پڑا کیونکہ وقت کی تنگ دامانی کی شکایت مفتی اسحاق نازکی  صاحب  بزبان حال و قال فرما رہے تھے کہ

وقت کم ہے، کام زیادہ، راہ دشوار ہے
آپ صرف چار گھڑیوں کے مختار ہیں

میرے بعد ایوان صدارت میں میر واعظ ڈاکٹر عمر فاروق صاحب جلوہ افروز ہوئے ۔ وہ عام مہمانوں کے ساتھ نیچے بیٹھنے کی کوشش فرما رہے تھے تاہم پورے مجمعے کی خواہش اور حضرت مفتی اسحاق نازکی صاحب کے اصرار کی وجہ سے ان کو خصوصی کرسی پر متمکن ہونا پڑا ۔ ایسا انکسار اسی خاندان کا حصہ ہے ۔ حضرت امام عبداللہ بن مبارکؒ (م 181ھ) سے منقول ہے۔

كُلَّمَا ازْدَادَ الإِنسَانُ عِلْمًا ازْدَادَ تَوَاضُعًا 
(ترجمہ )جتنا انسان علم میں بڑھتا ہے، اتنا ہی زیادہ انکسار کرتا ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ
 "ثمرةالعلم التواضع"۔

 بہر حال ڈاکٹر صاحب ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ ہیں ۔حضرت مولانا یوسف شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے علمی جانشین،  مولوی فاروق رحمہ اللہ ان کے والد بزرگوار اور ان ہی کے لائق و فائق فرزند آپ ہیں ۔ انہوں نے شاہ ہمدان پر بات ان کی مشہور کتاب ذخیرہ الملوک کی روشنی میں کی ۔ چونکہ لوگوں کو اس خاندان کے ساتھ والہانہ عقیدت اور محبت ہے لہذا ان کے خطاب پر سامعین ہمہ تن گوش تھے۔ 

وادی کے معروف قلمکار خاکی محمد فاروق صاحب نے بھی موضوع کی مناسبت سے مختصر گفتگو فرمائی، اس میں انہوں نے شاہ ہمدان کی دعوتی خدمت اور اپنی حالیہ شائع کردہ کتاب کا مختصر تعارف فرمایا  ۔اپنا تبصرہ پیش کرنے کے بعد وہ فورا نکلے ۔انہوں نے مجھے اپنی اس مذکورہ کتاب کا ایک نسخہ عنایت فرمایا جو میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ میں موصوف کا نہایت سپاس گزار ہوں۔ موصوف کو اللہ تعالی نے تحقیق و تدقیق کا انتہائی ذوق و شوق عطا فرمایا ہے یہی وجہ ہے کہ بڑی سرعت سے ان کی نئی نئی تصنیفات منظر عام پر آرہی ہیں ۔ چند مقالات اور تقاریر ہی پہلی مجلس میں سامعین سن پائے جس کی ایک خاص وجہ حضرت مفتی اسحاق نازکی صاحب دامت برکاتہم کے پر اثرمگر طویل تعارفی کلمات (جو ہر مقرر و مقالہ نگار کو دعوت دیتے وقت  صاحب نظامت کے لیے بیان کرنا ضروری ہوتا ہے)تھی۔ 

بہر حال پہلی نشست کافی موثر رہی اور مختلف مقالوں اور تقاریر کو سننے کے بعد کافی کچھ سیکھنے کو ملا ۔  اس کے بعد انتظامیہ نے نماز سے پہلے بہت ہی لذیذ اور پر تکلف ظہرانے کا بند و بست رکھا تھا ۔ مہمانوں کی کافی پزیرائی کی گئی ۔ طعام کے بعد چند اکابر علماء کرام کے ساتھ ملاقات اور بات کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔ راجوری کے چند علماء کا تقاضا تھا کہ اس قسم کے سمینار اگر وہاں بھی ہو جائیں تو ایک اچھی شروعات ہوگی ۔شیخ الحدیث  حضرت مفتی نذیر احمد قاسمی (صدر مفتی دار العلوم رحیمیہ بانڈی پورہ ) جن کو اللہ تعالی نے فقہ میں کافی رسوخ دیا ہے کے ساتھ  بھی مہمان خانے میں ملاقات کا شرف  حاصل ہوا۔ انکو والد محترم کی نئی تصانیف جن کو مجلس علمی جموں و کشمیر نے شائع کیا ہے پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی انہوں نے والد محترم کی علم و ادب کے میدان میں دلچسپی اور محنت شاقہ کو سراہا ۔ اللہ تعالی ان کا سایہ تادیر قائم رکھے ۔ 

اس کے بعد ہمیں چند ناگزیر مجبوریوں کی وجہ سے نکلنا پڑا ۔ واپسی پر محترم و مکرم حضرت مولانا شوکت حسین کینگ صاحب مد ظلہ العالی کی معیت کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ سبزی منڈی سرینگر میں عزیز محترم ماجد کرمانی سلمہ اللہ نے بھی شرف ملاقات سے نوازا ۔ ان کے ایک قریبی رشتے دار اس دار فانی سے چل بسے تھے لہذا وہ سمینار میں شرکت نہیں کر پائے تھے تاہم اس غم و  علم کے عالم میں بھی انہوں نے ہمیں یاد رکھا ۔ یہاں سے ہم تعزیت کے لیے گئے اور چلتے چلتے یہ سنت بھی ادا ہوئی ۔ ذالک فضل اللہ ۔ 

چونکہ یہ خاندان ابھی بھی اپنی مخصوص روایات کی پاسداری کر رہاہے ۔لہذا مولانا شوکت حسین کینگ صاحب نے مروجہ طریقے سے فاتحہ خوانی کی ۔مروجہ طریقے سے فاتحہ خوانی پر مجھے ایک روایت جو حضرت علامہ انور شاہ کشمیری کی طرف منسوب ہے یاد آئی۔ میرے والد محترم آسی غلام نبی صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے استاد حضرت پیر غلام رسول رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ میں نے سنا حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ اگر میت اپنے گناہوں کی بدولت جہنم کے پہاڑ پر پہنچ چکی ہو تو کشمیری پیر صاحبان اپنی مروجہ فاتحہ خوانی جس میں ان کے لیے کلمات اور استغفار شامل ہوتا ہے سے وہاں سے کھینچ کر واپس لائیں گے ۔  

بہر حال اس کے بعد ہم گھر کی طرف واپس نکلے ۔ راستے میں مولانا غلام محمد پرے صاحب کی نظر ہمارے اوپر پڑی۔ آپ کسی پروگرام سے واپس تشریف لا رہے تھے ۔ ان کو ساتھ لے کر ہم مولانا صاحب کے دولت خانہ کہ طرف روانہ ہوئے ۔ انہوں نے چائے سے ہماری تواضع کی ۔ بقول پروفیسر یسین مظہر صدیقی علیگڈھی رحمہ اللہ یہ "انٹلیکچول چائے" تھی ۔ وہ اس چائے کو انٹلیکچول چائے  کہتے ہیں جس میں علمی گفتگو ہو ۔ 
اس کے بعد فرزند محمد قاسم کی تکان کو نکالنے کے لیے ہم نے ٹنگمرگ کا رخ کیا ۔اس بیچ مولانا طالب بشیر ندوی صاحب سے ملاقات ہوئی، جن کا دولت خانہ اسی شاہراہ پر واقع ہے۔ انہون نے نئی شاندار تعمیر کردہ مسجد علی پبلک اسکول کا دورہ کروایا ، دیکھ کر دل شاد ہوا ۔ مسجد کے ساتھ ہی انہوں نے  علی پبلک اسکول کا بہترین نقشہ کھینچا ہے اللہ تعالی ان کو اپنے منصوبوں میں کامیاب فرمائے ۔ 

یہاں سے ہوتے ہوئے ہم بابا پیام الدین ریشی رحمہ اللہ کے مرقدپر گئے وہاں ایصال ثواب کی سعادت حاصل ہوئی ۔ مغرب کے بعد گھر کی راہ لی اور سنسان جنگلوں اور خاموش بستیوں سے ہوتے ہوئے رات گئے گھر پہنچے ۔کافی مفید سفر رہا ۔ اللہ تعالی اس علمی سفر کو ذخیرہ آخرت بنائے۔
 آمین ۔

سالک بلال۔