ابلاغ ایک نازک کام ہے ؟
آجکل چونکہ سوشل میڈیاکا زمانہ ہے اور بات آنا فانا پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے لہذا ہر بات کا رد عمل اسی شدت کا ہوتا جس شدت سے وہ کہی جاتی ہے۔ پرانے زمانے میں اگر کسی خاص مقام یا مجلس میں کوئی بات کہی جاتی تھی تودوسری جگہ یہ بات کسی راوی کے ذریعے سے منتقل ہو جاتی تھی ،یا اگر کوئی بات لکھی جاتی تھی تو خط یا کتاب کی شکل میں یہ بات دوسرے کے یہاں پہنچتی تھی۔اس کا مخاطب ایک وقت میں ایک فرد ،یا چند افراد یا ایک مخصوص مجمع ہوتا تھا اس بات پر یہی مخصوص لوگ رد عمل دے سکتے تھے اور پھر آہستہ آہستہ کر کے اس بات کو ودوسرے علاقوں تک پہنچنے میں برسوں لگ جاتے تھے نتیجتا یہ رد عمل تیز رفتار نہیں ہوتا تھا ۔اور اس بات کے مفید ہونے کی صورت میں اس کا فایدہ محدود حلقے کو پہنچتا تھا جبکہ اس کے غیر مفید ہونے کی صورت میں اس کا نقصان بھی اسی قسم کا ہوتا تھا ۔ لیکن آج کل صورت حال اس کے بر عکس ہے ۔ اگر بات مفید ہے تو فایدہ جدید ذرائع ابلاغ کی وساطت سے عالمی سطح کا ہوگا اور اگر خدا ناخواستہ غیر مفید ہو تو نقصان بھی عالمی سطح کا ہوگا ۔
اسی لیے مبلغین کے لیے غایت درجے کا احتیاط ایک ضروری امر ہے ۔ ہمارے مبلغین اپنی تقاریر میں تعلیمی انداز اختیار کریں ۔تعلیمی انداز سے میری مراد یہ ہے کہ سامعین کا اسی طرح خیال رکھا جائے جس طرح ایک استاد اپنے شاگرد کی ذہنی سطح کا خیال رکھتے ہوئے وہی بات اس کے سامنے بیان کرتا ہے جو اس کے لیے مفید ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ تیسری جماعت کے طالب علم کے سامنے استاد دسویں جماعت کے طالب علم کے معیار کی بات بیان کرے ۔ ایسا کرنے سے طالب علم کو کوئی فایدہ نہیں پہنچ سکتا ہے ۔علمی نوعیت کے نازک مسئلے جن کو ہم مسائل مختلفہ بھی کہتے ہیں کو عوام میں بیان کرنے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شیر خوار بچے کو موٹا غذا کھلانے کی کوشش کرنا ۔ اگر چہ بچہ بفرض محال اس غذا کو حلق سے نیچے اتارنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تاہم اس کا معدہ اس کو ہضم نہیں کر پائے گا اور بالآخر وہ اپنی زندگی سے ہاتھ بھی دھو سکتا ہے ۔ اسی تناظر میں مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہیں:
چارپا را قدر طاقت بار نِه
بر ضعیفان قدر قوّت کار نِه
دانهٔ هر مرغ اندازهٔ ویست
طعمهٔ هر مرغ انجیری کیست
طفل را گر نان دهی بر جای شیر
طفل مسکین را از آن نان مرده گیر
آج کل ہمارے مبلغین کے اندر جو مزاج پنپ رہا ہے وہ تقریری اور لچک دار بیانات کرنے کا ہے جس میں وہ اپنی فکر اور اپنے فکری قائدین کےتفردات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کرتے ہیں ۔ حالانکہ علماء اسلام کے تفردات پر بات کرنا اور ان کے علمی پیرایوں کو سمیٹنا خالص علمی اور تحقیقی نوعیت کا ہوتا ہے ان کو عوام میں بیان کرنا مذکورہ بالا مثال کے مترادف ہے ۔ لہذا مبلغین کو چاہیے کہ ’’کلموا الناس علٰی قدر عقولھم۔‘‘ کو سامنے رکھ کر منابر پربیٹھ کر لوگوں تک اپنی بات پہنچائیں ۔ تذکیری پہلو کو اجاگر کیا جائے اور تکفیری اور تنکیری انداز سے اجتناب کیا جائے۔لوگوں کو دین کی اساسی باتیں سمجھانے کی کوشش کی جائے اور لوگوں میں ایسی باتیں بیان نہ کی جائیں جن سے ان کو نفع نہ پہنچے۔ لہذا مجمع میں بولنے سے پہلے مجمع کی ضرورت کو سمجھنا ایک مبلغ کے لیے جاننا اہم ہے ۔ مبلغ حضرات آجکل مزاج شناس نہیں ہیں لہذا ایسی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو دعوتی پیغام کے پرچار و نشر واشاعت میں قدرے رکاوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔