عوام اہلیان علم سے بدگمان کیوں ؟


Salik Bilal
Tuesday 18th of February 2025 04:16:03 PM
               

عوام دینی علوم کےحاملین سے بد ظن کیوں ہے؟
بحیثیت ایک غیر جانبدار تجزیہ نگار اور اسلامی صحافت سے وابسطہ فرد کے میرے اوپر یہ لازم بنتا ہے کہ میں اس حساس عنوان پر قلم کو جنبش دوں کہ "کیوں عوام علماء  سے بد ظن ہورہی ہے؟" اس کی ایک بنیادی وجہ جس کا مجھے کافی تجربہ اور تحقیق  کے بعد ادراک ہوا ، وہ دینی علوم کے حاملین میں پنپتی خود سری اور خود رائی ہے۔خود سری کا مفہوم یہ بنتاہے کہ ایک آدمی  اپنے آپ کو بہتر تصور کرے۔ کیونکہ خود پسند آدمی میں غرور، سرکشی، ضد، بغاوت جیسے ضمائم کا مادہ ہوتا ہے ۔ اہلیان علم کی اس  خود سری نے اب عوام اور اہل علم میں ایک طبقاتی تقسیم کا رخ اختیار کیا ہے۔ اہل علم عوام کو مطلق جاہل اور لطیف حس و ادراک سے یکسر نا آشنا سمجھتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ "العوام کالاعنام"عربی مقولہ ان کے نزدیک وحی کا درجہ رکھتا ہے ۔ قرآنی تناظر میں ان لوگوں کوچوپائے سے تشبیہ دی گئی ہے جو عقل و شعور سے کام نہ لے کر شرک و کفر پر مصر رہتے ہیں۔ 
 حالانکہ اہل علم کو سمجھنا چاہیے کہ عوام اگر چہ مروجہ دینی علوم کی حامل نہیں ہے تاہم دنیاوی علم اور تجربہ کی بنیاد پر وہ حساس ضرور ہوتی ہے ۔ وہ کبھی کبھار اس خود سری کا مشاہدہ کرنے کے بعد ان کے اس رویہ کے خلاف  بولنے اور واشگاف اعلان و اظہار کرنے سےاس لیے کتراتی ہے کہ ان کے اوپر بد دین اور اہل علم کو کمتر سمجھنے کا فتویٰ چسپان نہ کیا جائے ۔لہذا وہ اندر ہی اندر فیصلہ لیتی ہے کہ (مصرعہ)
خود سر ہے اگر وہ تو مراسم نہ بڑھاؤ 
دوسری اہم وجہ جو میرے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اہلیان علم میں سے جب کوئی اہتمام کے کسی منصب پر فائض ہوتاہے یا کیا جاتا ہے تووہ اپنے آپ کو سوال ،پوچھ تاچھ اور احتساب سے بالا تر سمجھتا ہے ۔ چونکہ علم کی قدر کرتے ہوئے عوام ان حضرات کو مختلف قسم کے انتظامی امور سپرد کرتی ہے یا باقاعدہ سپرد کیے بغیر ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے ان  تعمیراتی کاموں میں دل کھول کرمدد کرتی ہے جو یہ طبقہ اپنی ذات کے اعتبار سے اٹھا تا ہے  ۔ لیکن ان اداراتی اور تعمیری پروجیکٹوں کےاہتمام میں یہ طبقہ اکثر و بیشتر بے ضابطگیوں کا شکار ہوجاتا ہے ۔ جب ان سے احتساب کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ مذہب اور علم کے اس پاک ادارے کو ڈھال بنا کر اپنے آپکو شیلڈ کرنے کی کوشش میں مصروف ہوجاتے ہیں اورذاتی اور اداراتی اثر و رسوخ کو استعمال میں لا کر عوام کو چپ کرانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اس طرح جب عوام کے اوپر ان کی یہ آمرانہ اور خود سرانہ رویہ ظاہر ہوتا ہے تو علم اور علماء کا متبرک ادارہ لوگوں کی نظروں میں مشکوک ہوجاتا ہے ۔ اس طرح لوگ ان سے مخاصمت  کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ شریعت میں انتظام کا معاملہ کافی شفافیت کا حامل رہا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک عام انسان بر سر مجلس وضاحت طلب کر سکتا ہے ۔ کیونکہ یہاں ہر مہتمم اور منتظم کی نوعیت ایک امین کی سی ہے نہ کہ ایک آمر کی سی ۔ 
تیسری وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ دینی علوم کا حامل  طبقہ دانشوروں کو بھی عوام ہی کے کھاتے میں ڈالتا ہے۔ اور انتظامی اور دنیاوی صلاحیتوں سے مالا مال اس طبقے کو اپنے دائرے میں استعمال ہونے کا حق نہیں دیتا ۔ ظاہر ہےکہ جو کام یہ  دنیاوی علوم و فنون کا حامل طبقہ انتظام کی لائن  میں احسن طریقے سے انجام دے سکتا ہے وہ دینی علوم کا  یہ حامل طبقہ نہیں دے سکتا ہے ۔ لہذا دینی علوم کے حامل طبقے کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ان مہمات سے دور رکھیں اور علم اور دین کی خدمت ہی میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کریں ۔تاہم دنیاوی امور میں ماہرین کواپنے نیک مشوروں سے نوازتے رہیں ۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طبقاتی تقسیم کی ان الفاظ میں تائید کی کہ "انتم اعلم بامور دنیاکم "۔ 
لہذا جو جس کام میں اہل ہے اس سے وہ کام لیا جائے ۔ جب غیر اہل کو کوئی امر سونپا جاتا ہے تو فساد کا وجود میں آنا ایک یقنی بات ہے ۔ "إذا أسند الأمر إلى غير أهله فانتظر الساعة" ۔ اسی تناظر میں بہت سارے علماء کی رائے رہی ہے کہ فقہاء کو سیاست سے دور رہنا چاہیے ۔ ہمارے ائمہ نے اسی حکمت کے پیش نظر حکومتی مناصب کو لینے سے انکار کیا ۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ تفقہ سے تو انصاف کر سکتے ہیں لیکن مناصب سے متعلق ذمہ داریوں کو نبھانے میں وہ مطمئن نہیں تھے ۔ لہذا اپنے آپ کو بچاتے رہے۔ 
اسی طرح تکفیریت اور تبعیدیت کا رویہ بھی علماء کو عوام سے دور کر دیتا ہے ۔ علماء میں امت کو جوڑنے کا جذبہ ہونا چاہیے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت امت میں شرک و بدعت  خوب پنپ رہا ہے ۔اور یہ دو چیزیں بھیس بدل کر نئے نئے انداز میں امت میں داخل ہو چکے ہیں۔ اب شرک آستانون میں قبر کی طرف رخ کر کے سجدہ کی صورت میں کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن اپنے امیر اور شیخ کی عقیدت میں ڈوب کر اس کو معصوم عن الخطا کا درجہ دیا جاتا ہے ۔ اگر وہ شریعت کے خلاف بھی کرتا ہے تو اس کو خفیف انداز میں اس کی طرف اشارہ کرنے کوبھی بے ادبی سمجھی جاتی ہے اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ شیخ سے بیعت کے بعد "مردہ بدست زندہ " کا حال قبول کرنا چاہیے ۔ شیخ کے ہر عمل میں کوئی حکمت ہوتی ہے لہذا شیخ ہر نقد سے بالا تر ہے ۔ اگر چہ محسوس اور غیر محسوس شرکیات اور بدعات کی آلائشوں سے امت کو پاک کرنے کی ضرورت ہے تاہم اس کے لیے جو غیر حکیمانہ طرز عمل ہمارے اہلیان علم نے اختیار کیا ہے وہ یقینا نظر ثانی کا محتاج ہے ۔ دعوت و اصلاح میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہمیشہ نرم اور ناصحانہ رہا ہےنہ کہ ناقدانہ و ناشرانہ۔ ہمارے واعظین اظہار منکرکا کام  تو خوب کرتے لیکن اس کے ازالہ کی کوئی عملی کوشش نہیں کرتے ۔ 
ہر مکتب کا اپنا فکری حلقہ ہے اور اپنی فکرکو ہر حال میں صحیح سمجھتے ہیں اور دوسروں کی آراء کو بلا تحقیق رد کرتے ہیں حالانکہ ہمارے اسلاف اپنی آراء میں ممکنہ لچک پیدا کرنے کی گنجائش رکھتے تھے ان کا قول ہے "قولي صواب يحتمل الخطأ وقول المخالف خطأ يحتمل الصواب"جب قول میں خطا کا احتمال ہے تو مزید تحقیق کی جاسکتی ہے اور جب دوسروں کی آراء صحیح ہونے کا احتمال ہے تو فورا رد کرنا اور ان کو باطل قرار دینا ہرگز انصاف نہیں ہے
یہ چند موٹی موٹی باتیں ہیں جن کا میں نے یہاں پر تذکرہ کیا ہے تاہم مخلص اہلیان علم و دانش اس میں اور اضافہ کر سکتے ۔اللہ کرے اس صورتحال کا خاتمہ ہو جائے اور ارباب علم و دانش صحیح معنوں میں علم و دین کی خدمت میں مشغول ہو جائیں آمین ۔ 

 


Views: 81

Last Comments

Abc
*"قرآن و سنت کی تفسیر: کیا ہر کوئی کر سکتا ہے؟ علماء کا موقف اور شریعت کا اصول"* *~ مفتی اعظم مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ* ہر شخص کو یہ حق ہے کہ وہ قرآن میں تدبر و تفکر کرے، لیکن جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ تدبر کے درجات متفاوت اور ہر ایک کا حکم الگ ہے، مجتہدانہ تدبر جس کے ذریعہ قرآن حکیم سے دوسرے مسائل کا اخراج کیا جاتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی مبادیات کو حاصل کرے تاکہ وہ نتائج کا استخراج صحیح کر سکے، اور اگر اس نے مقدمات کو بالکل حاصل نہ کیا یا اس نے ناقص حاصل کیا، جن اوصاف و شرائط کی ایک مجتہد کو ضرورت ہوتی ہے، وہ اس کے پاس نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ نتائج غلط نکالے گا، اب اگر علماء اس پر نکیر کریں تو حق ہے۔ اگر ایک شخص جس نے کبھی کسی میڈیکل کالج کی شکل تک نہ دیکھی ہو یہ اعتراض کرنے لگے کہ ملک میں علاج و معالجہ پر سند یافتہ ڈاکٹروں کی اجارہ داری کیوں قائم کردی گئی ہے؟ مجھے بھی بحیثیت ایک انسان کے یہ حق ملنا چاہئے، یا کوئی عقل سے کورا انسان یہ کہنے لگے کہ ملک میں نہریں، پل اور بند تعمیر کرنے کا ٹھیکہ صرف ماہر انجینئروں ہی کو کیوں دیا جاتا ہے؟ میں بھی بحیثیت شہری کے یہ خدمت انجام دینے کا حق دار ہوں، یا کوئی عقل سے معذور آدمی یہ اعتراض اٹھانے لگے کہ قانونِ ملک کی تشریح تعبیر پر صرف ماہرینِ قانون ہی کی اجارہ داری کیوں قائم کر دی گئی؟ میں بھی عاقل و بالغ ہونے کی حیثیت سے یہ کام کر سکتا ہوں، اس آدمی سے یہی کہا جاتا ہے کہ بلاشبہ بحیثیت شہری کے تمہیں ان تمام کاموں کا حق حاصل ہے، لیکن ان کاموں کی اہمیت پیدا کرنے کے لیے سالہا سال دیدہ ریزی کرنی پڑتی ہے، ماہر اساتذہ سے ان علوم و فنون کو سیکھنا پڑتا ہے، اس کے لئے ڈگریاں حاصل کرنی پڑتی ہیں، پہلے یہ زحمت تو اٹھاؤ، پھر بلاشبہ تم بھی یہ تمام خدمتیں انجام دے سکتے ہو، لیکن یہی بات اگر قرآن و سنت کی تشریح کے دقیق اور نازک کام کے لئے کہی جائے تو اس پر علماء کی اجارہ داری کے آوازے کسے جاتے ہیں؟ کیا قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر کرنے کے لئے کوئی اہلیت اور کوئی قابلیت درکار نہیں؟ کیا پوری دنیا میں ایک قرآن و سنت ہی کا علم ایسا لاوارث رہ گیا ہے کہ اس کے معاملہ میں ہر شخص کو اپنی تشریح و تعبیر کرنے کا حق حاصل ہے، خواہ اس نے قرآن و سنت کا علم حاصل کرنے کے لیے چند مہینے بھی خرچ نہ کئے ہوں۔ معارف القرآن جلد دوم صفحہ 489 پیشکش: مشربِ حکیم الامتؒ 📱 WhatsApp Group: https://chat.whatsapp.com/CGFfZwyWuZHGe0Y1l8vcdc 📢 Telegram: https://t.me/taleematashrafiya 📡 WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029Va9bKVP6BIEqw9QMpg34

قاضی ارشاد حسین
اہل علم سے عوامی دوری کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سے اہم ترین وجہ نااہل افراد کا اہل علم کی صفوں میں شامل ہو جانا ہے۔ بہت سے کند ذہن، غبی اور سفیہ لوگ علم کی سندات لے کر اہلِ علم میں شامل ہو چکے ہیں۔ دعزری اہم وجہ علماء کے درمیان فتنہ معاصرت ہے۔ بہت سے بڑے القاب رکھنے والے علماء نے اپنے ہم عصر مخلص علماء کے خلاف بہتان تراشی، جھوٹ، کتر بیونت اور دنانت و رذالت کی اخری حدیں بھی پار کر دیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام اب مخلص علماء سے بھی متنفر ہو گۓ۔ تیسری وجہ علماء کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ وہ عوام کو سادہ طرز زندگی کی تلقین کرتے ہیں مگر خود موقع ملتے ہی پر تعیش زندگی کا مظاہرہ کرنے میں طاق رہتے ہیں۔