Mera paigam aur he


Dr Shakeel Shifayi
Sunday 5th of January 2025 11:59:51 AM
               

میرا پیغام اور ہے ۔۔۔۔

مجھے وہ درسِ فرنگ آج یاد آتے ہیں 
کہاں حضور کی لذت کہاں حجابِ دلیل 

یہ شعر علامہ اقبال کا ہے اور بالِ جبریل میں غزل نمبر 42 میں شامل ہے - بقول پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم اس شعر میں علامہ نے اپنا زمانہِ تعلیم مراد لیا ہے جب وہ انگلستان اور جرمنی کی دانش گاہوں میں حصولِ تعلیم کررہے تھے اور کتبِ فلسفہ ان کے مطالعہ میں رہتی تھیں جن میں خدا کی ہستی کو عقلی دلائل سے ثابت کیا گیا ہے - تاہم پروفیسر یوسف سلیم کا کہنا ہے کہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ محض عقلی دلائل سے خدا کی ہستی پر یقینِ کامل پیدا نہیں ہو سکتا بلکہ عقلی دلائل میں غلو آمیز غور و خوض سے ایمان کے بجائے شکوک ہی پیدا ہوتے ہیں جسے علامہ نے " حجابِ دلیل"  سے تعبیر کیا ہے - 
پروفیسر صاحب مرحوم لکھتے ہیں کہ یورپ سے مراجعت کے بعد علامہ نے قرآن حکیم اور مثنوی مولانا روم کا مطالعہ کیا تو ان سے علامہ پر ایمان باللہ کے حقائق و دقائق منکشف ہوتے گئے اس بات کو علامہ نے " حضور کی لذت" سے تعبیر کیا ہے - 
فلسفہ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں - جو لوگ ہمارے زمانے میں فلسفہ کے مطلقاً مُنکر ہیں اور مختلف پلیٹ فارموں سے فلسفہ کی خلافِ اسلام تصویر پیش کرنے میں مشغول ہیں وہ غریب دراصل فلسفہ کی حقیقت کا کیا مذکور ، اس کی ابجد ہی سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں - تاریخ میں جن لوگوں نے فلسفہ پر تنقیدی نگاہ ڈال کر اس کے کمزور پہلوؤں کی وضاحت کی ہے جیسے امام غزالی یا حافظ ابن تیمیہ(رحمہما اللہ)وغیرھما تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ لوگ خود بھی اس بحر کے غوّاص تھے ، انہوں نے فلسفے کے صحیح عناصر کا اثبات بھی کیا ہے - پھر ان کے معیار کے لوگ جب تنقید کرتے ہیں تو فکر و نظر کا اعتدال و توازن برقرار رہتا ہے - یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ فلسفہ کی اسلامی تعبیر اور یورپی تعبیر میں بون بعید ہے - اسے ایک سمجھنا مطالعہ کے غلط رخ کی نشاندہی کرتا ہے - جب سے یورپ کی استعماری قوتیں دنیا پر غالب آئیں تو انہوں نے سماجی علوم کے مطالعہ کا ایک ایسا بیانیہ دنیا میں رائج کیا جس سے ان کے اپنے نقطہِ نظر کی توثیق و تائید ہوئی - " نشأۃ ثانیۃ" کی اصطلاح بھی اسی مقصد کے پیشِ نظر وضع کی گئی - یورپی زہن اصل میں یہ سوچ رکھتا ہے کہ دنیا میں سائنسی ، ادبی ، سماجی ، سیاسی ، مذہبی اور ثقافتی و تہذیبی لحاظ سے وہ ہمیشہ قیادت کے منصب پر رہے ہیں اور بیچ میں چند سو سال ، جب مسلم تہذیب کا عروج ہوا ، وہ سیاہ دور میں چلے گئے تھے اور اب انہوں نے دوبارہ اپنے مقام کی بازیافت کی ہے - اسی بازیافت کے نقطہِ آغاز کو وہ " نشأۃ ثانیۃ" کا نام دیتے ہیں - یہ بات یورپی ذہن پر  اس قدر مستولی ہے کہ من حیث المجموع دنیا کی کسی قوم کی درج بالا علوم میں خدمات کو وہ اصولی طور پر تسلیم نہیں کرتے - یہ بات ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے متعدد جگہ پر لکھی ہے - ابھی حال ہی میں جسٹن گارڈر کی کتاب " صوفی کی دنیا" منظرِ عام پر آئی - یہ کتاب عالمی سطح پر بہت پڑھی گئی - اس میں ناول کی طرز پر فلسفہ کی تاریخ بیان کی گئی ہے لیکن مجھے اس میں کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ مصنف فلسفہ کی تاریخ لکھتا ہے تو شروع بھی یورپ سے کرتا ہے اور اختتام بھی یورپ ہی پر کرتا ہے - یورپ سے باہر گویا فلسفہ کہیں موجود تھا ہی نہیں - ہر چند یہ بات تاریخی بیانات و شواہد کی روشنی میں بدیہی طور پر غلط ہے کہ یورپ تاریخ کے کسی مرحلے میں کسی بھی لحاظ سے قیادت کے منصب پر رہا ہے - یہ جھوٹ انہوں نے  دوسرے جھوٹوں کی طرح ، عالمی سطح پر اتنی فنی چابک دستی سے پھیلایا کہ دنیا میں سچ کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا - دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ مسلمانوں کی تہذیب کی حد درجہ غلط شبیہ دنیا کے سامنے رکھی اور پھر اس پر زبردست لٹریچر تیار کرکے دانشگاہوں میں پڑھایا یہاں تک کہ خود مسلمانوں کی ایک تعداد ، جن کا علمی مآخذ یورپ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ،  نہ ان کے اندر اتنی تنقیدی بصیرت تھی کہ وہ اسلامی اور یورپی افکار و نظریات کا موازنہ کر پاتے ، میدان میں آئی اور سو فیصد یورپ کی تقلید میں ، ان کی ہاں میں ہاں ملا کر مسلمانوں میں احساس کمتری کو مزید گہرا کرنے میں اپنی صلاحیتیں لگادیں - آج بھی آپ کو ایسے لوگ ملیں گے جو یورپی مصنفین یا ان سے متاثر " مسلمان" مصنفین کی کتابوں کے اقتباسات نقل کرکے مسلم تہذیب و ثقافت کے زوال کا رونا روتے ہیں - ان میں سے ایک جماعت کا کام مسلمان علماء کی " جہالت اور زمانہ سے بے خبری " ثابت کرنا ہے - ایک جماعت کا کام مسلمان خلفاء بادشاہوں اور امراء کی " عیاشیوں" سے پردہ اٹھانا ہے - ایک جماعت قرونِ اولیٰ ہی سے مسلمانوں کی حکومت ، علمی مشاغل اور سماجی و اخلاقی صورت حال کی ناکامی کا خاکہ کھینچنے پر مامور ہے اور چند لوگ پچھلی چند صدیوں سے مسلمانوں کے زوال کی داستان لکھنے کا خود کو مکلف سمجھے بیٹھے ہیں - آپ ان لوگوں پر ، ایک ناقابلِ اعتناء تعداد کو مستثنیٰ کرکے ، ایک نظر ڈالیں تو آپ پائیں گے کہ انہیں قرآن وحدیث ، عربی زبان اور اس  کے امتیازات و خصائص، اسلامی عقائد ، فقہ اور اصولِ فقہ ، علمِ اخلاق ، اسلامی سماجی ، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی فلسفہ اور اس کے ممیّزات کی تاریخ کا گہرا اور مفکرانہ مطالعہ تو دور رہا سورہ فاتحہ تک بھی درست پڑھنی نہیں آتی - یہ وہ لوگ ہیں جنہیں مکتب میں بیٹھ کر الف با تا سیکھنی چاہیے تھی لیکن وہ بزعمِ خود مسلمانوں کا محاسبہ کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں - یہ لوگ علمائے دین سے اس بات کو لے کر سخت ناراض ، بلکہ اپنے لہجے میں گستاخ نظر آئیں گے کہ وہ دینی دانشگاہوں میں قرآن وحدیث ، صرف و نحو ، عقائد نسفی ، احیاء علومِ الدین ،  فتح الباری ، ہدایہ اور اصول شاشی جیسے " غیر اہم" علوم پڑھانے میں وقت کیوں ضائع کررہے ہیں اور مدارس میں تعلیم پانے والی مسلمان طلبہ کی دو فیصد تعداد کو ایٹم بم اور جدید خود کار میزائل بنانا کیوں نہیں سکھاتے ؟ خود ان کا یہ حال ہے کہ عمر بھر سائنس پڑھ کر تحصیل ، بینک ، عدالت ، بلدیہ ، جنگلات اور تعمیرات کے محکموں میں کلرکی کرتے ہیں اور کسی نے اونچی چھلانگ ماری تو سکول ماسٹر یا کالج کا لیکچرر ہوگیا - یہ لوگ اکثر علماء کو طعنہ دیتے پھرتے ہیں کہ جب فلاں ملک میں انگریز کی فوجیں گھس گئیں تو علماء ختم بخاری اور ختم خواجگان میں مصروف تھے - یعنی اس وقت کے حالات میں فوجی خدمت بھی علماء اور مدارس کے طلباء کو انجام دینی تھی نہ کہ سربراہِ ملک یا  فوج و پولیس کو - یہ ان غریب الفکر لوگوں کا قصور نہیں ، یہ دراصل اس بیانیے کا براہ راست اثر ہے جو مسلم مخالف سوچ کے زیرِ اثر سابقہ چند سو سالوں سے دنیا بھر میں رائج کیا گیا - 
فی الحال اس امر پر گفتگو مقصود نہیں کہ مسلم تہذیب کبھی اتنی کمزور نہیں رہی ہے کہ مستعار نظریات لے کر کچھ لوگ اس کا محاسبہ کریں یا اس کی اصلاح پر کمر باندھیں - مسلم تہذیب آج بھی اپنی بے شمار خوبیوں اور امتیازات کے ساتھ پوری دنیا میں غالب ہے - سیاسی اعتبار سے یقیناً اس نے اپنا مقام کھو دیا ہے لیکن اس کے لیے جہاں مسلمانوں کی اپنی ناعاقبت اندیشی اور اسلامی تعلیمات سے مہجوری ذمہ دار ہے وہیں پر یورپی بالخصوص یہودی صہیونی ذہن کی ریشہ دوانیاں بھی کم ذمہ دار نہیں - یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے - دنیا میں پچھلے دو تین سو سالوں میں جو عالمی انقلابات آئے جنہوں نے " خافضۃ رافعہ" کی ایک غیر متوازن صورت کو جنم دیا اس کے پیچھے یہودی صہیونی دماغ ہی کار فرما رہا ہے - جن لوگوں نے آباد شاہ پوری مرحوم کی کتاب " مشرقی یورپ کی مسلمان قومیں" پڑھی ہوگی وہ جانتے ہیں کہ انیسویں صدی کے ربع آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول میں کمیونزم اور سوشلزم کی تحریک کا بیج بھی یہودی ذہن ہی نے بویا تھا گو بظاہر یہ ایک مذہب مخالف ایجنڈے کی حامل تھی - 
مسلمانوں نے مختلف تاریخی مراحل میں یقیناً بہت سی غلطیاں کی ہیں ، بہت سے غلط فیصلے بھی لیے ہیں لیکن ایسا ہر قوم کرتی ہے - ہر قوم پر عروج و زوال کے دور آتے ہیں - یقیناً ہمیں اپنی کمزوریوں سے سیکھنا چاہیے تاکہ مستقبل کی صحیح تعمیر میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں لیکن اس کا حل قوم کو یورپی نقطہِ نظر سے دیکھنے ، جانچنے ، پرکھنے اور پھر یورپی معیاراتِ عروج و ارتقاء کی سان پر چڑھانا نہیں ہے بلکہ اپنے معیارِ نقد و نظر کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل ترتیب دینے میں ہے - یہی دراصل علامہ اقبال رحمہ اللہ کا پیغام ہے اور بقول پروفیسر یوسف سلیم مرحوم علامہ نے اپنے تیس سالہ علمی تجارب کا خلاصہ اس مصرعہ میں پیش کردیا ہے: 
کہاں حضور کی لذت کہاں حجابِ دلیل 
یہاں پر مجھے ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کی اس بات کی معنویت سمجھ میں آتی ہے :
"ہماری تعلیمی کوششیں اس وقت تک بارآور نہیں ہو سکتیں تاوقتیکہ ہم مغرب کے فکری تسلط سے خلّاصی حاصل نہیں کرتے" 
(امت مسلمہ - مسائل اور چند اجتماعی فرائض) 

(شکیل شفائی)


Views: 30

Last Comments